پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات اس وقت انتہائی کشیدہ ہیں کیونکہ ایک روز ایران کی جانب سے پاکستان میں بلا اشتعال کارروائی سے جانی نقصان کی خبر سامنے آئی تو دوسری جانب سے پاکستان نے بھی ایرانی علاقے پر جوابی کارروائی کرکے دنیا کو حیران کردیا ہے، کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے اس کے برعکس رہی ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان وہ ملک ہے جہاں امریکا نے اسامہ بن لادن کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم امریکا کے خلاف کارروائی کریں گے، تسلیم، کہ امریکا ہزاروں کلومیٹر دور تھا، وہاں کون جائے اور حملہ کیسے کیا جائے؟ تو بھارت کو نشانہ بنانا چاہئے تھا جس نے کارروائی کی، لیکن ہم نے تو ان کے ابھی نندن کو ”فنٹاسٹک ٹی“ پلا کر رخصت کردیا۔ کچھ ایسے ہی ردِ عمل کی توقع بہت سے پاکستانیوں کو ایران کے معاملے میں ہوگی، کیونکہ ایران تو ہمارا برادر اسلامی اور ہمسایہ ملک ہے، تاہم راقم الحروف کو ایسی کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔
دراصل دفتر خارجہ پہلے ہی ”سنگین نتائج“ کے الفاظ سے واضح کرچکا تھا کہ پاکستان چپ بیٹھنے والا نہیں ہے اور جب حملے کی خبر آئی اور پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے ایک سخت بیان جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اگلےہی مرحلے میں ایرانی سفیر جو تہران میں تھے، کو پاکستان نہ آنے اور پاکستانی سفیر کو واپس بلانے کے ساتھ ہی سفارتی دوروں کو بھی روکنے کی بات کی گئی اور اگلے ہی روز آپریشن کی خبر سامنے آگئی۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ہم نے ایران کے علاقے سیستان میں 18جنوری کی صبح انٹیلی جنس اطلاع کی بنیاد پر آپریشن کیا اور ان متعدد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جو پاکستان میں حالیہ حملوں میں ملوث رہے، حملہ آور ڈرونز، راکٹس اور دیگر ہتھیاروں سے کارروائی کی گئی۔ بی ایل اے اور بی ایل ایف کی پناہ گاہیں کامیابی سے نشانہ بنائی گئیں جبکہ آپریشن کو ”مرگ بر“ کا نام دیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ سیستان میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی پناہ گاہوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا، یہ آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا اور اس آپریشن کا نام مرگ بر رکھا گیا تھا۔ آئیے اس کی تمام تر متعلقہ خبروں کا ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاک ایران تعلقات کا یہ اونٹ آگے چل کر کس کروٹ بیٹھے گا۔ گزشتہ روز ایران کی جانب سے ڈرون اور میزائل کے ذریعے بقول ایرانی میڈیا جیش العدل نامی تنظیم کو نشانہ بنایا گیا تاہم مقامی افراد کے بیانات اور خود دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق حملے کے نتیجے میں کسی دہشت گرد کی بجائے 2 بچے جاں بحق جبکہ 3 بچیاں زخمی ہوگئی تھیں، جس سے امریکا کے افغانستان پر ڈرون حملے کی یاد تازہ ہوگئی۔
تشویشناک طور پر ایران جیسے دوست ملک نے پاکستان پر حملہ کیا ، دفتر خارجہ کا یہ بیان انتہائی مناسب ہے کہ ”دہشت گردی ایک مشترکہ خطرہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے مربوط کارروائی ضروری ہے“، تاہم ایران نے مربوط کارروائی کی جگہ اپنی مرضی کی جگہ چنی اور ڈرون حملہ کردیا ، جس کے نتیجے میں پاکستان میں جانی نقصان بے شک کم ہوا، تاہم ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہوا کرتا ہے۔ ہمارے تو 2 بچے شہید اور 3 بچیاں زخمی ہوگئیں۔
منگل کے روز ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا تھا کہ ایران نے پاکستان میں بلوچ عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے 2 ٹھکانوں کو میزائل سے ہدف بنایا ہے۔ دونوں ٹھکانے ڈرونز اور میزائل حملے میں تباہ ہو گئے جبکہ عسکریت پسند گروہ پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافے کا ذمہ دار تھا، جس کے خلاف یہ کارروائی کی گئی۔
اس تمام تر صورتحال پر اپنا انتہائی نپا تلا ردِ عمل دیتے ہوئے پاکستان کے عظیم ترین دوست چین نے بدھ کے روز یہ بیان دیا کہ فریقین صبروتحمل کا مظاہرہ کریں، ترجمان دفتر خارجہ ماؤ ننگ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کشیدگی میں اضافے کا بعث بننے والے اقدامات سے اجتناب کرتے ہوئے خطے کے امن و استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے مل کر کام کریں۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے دونوں ممالک کو ثالثی کی پیشکش بھی کی گئی۔
بلاشبہ چین کی جانب سے اگر خود چین کی پوزیشن کو دیکھا جائے تو پاکستان اور ایران کو دیا گیا مشورہ نہایت ہی صائب، غیر جانبدارانہ اور متوازن نظر آتا ہے مگر کیا کِیا جائے کہ حملہ ایران نے کیا جس کا یہ الزام ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیم جیش العدل موجود تھی جس پر میزائل اٹیک کیا گیا جبکہ پاکستان کا یہ ماننا ہے کہ ہم سے پوچھے بغیر یہ حملہ ہماری خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اگر ہم جیش العدل کی بات کریں تو عالمی میڈیا کے دعوے کے مطابق جیش العدل سنی مسلح گروپ ہے جس نے سیستان سے سرگرمیاں شروع کیں۔ 2005 میں اس گروپ پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر مسلح حملے سمیت متعدد بم دھماکوں اور حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔
بدھ کے روز ہی میڈیا پر یہ رپورٹ سامنے آئی کہ جیش العدل نے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے تنظیم کے مجاہدین کے کئی گھر 6ڈرونز سے نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بچے اور خواتین کی رہائش تھی۔ 2 گھر تباہ ہوگئے ، 2 بچے شہید، 2 خواتین اور نوجوان لڑکی شدید زخمی ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران نے جس جگہ حملہ کیا وہ ضلع پنجگور کا سرحدی علاقہ کوہ سبز ہے جس کی ذیلی تحصیل کلک پر حملہ ہوا۔ یہ ایک پر امن خطہ ہے جہاں سرحد کا مرکزی تجارتی علاقہ چیدگی 40 سے 50 کلومیٹر دور ہے۔ دھماکے سے مبینہ طور پر ایک مسجد کو بھی نقصان پہنچا، تاہم یہ اطلاع راقم الحروف کو پاکستانی میڈیا پر کہیں نظر نہیں آئی۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ایک جہاز نے دھماکا کیا جبکہ جاں بحق افراد کی شناخت عمیرہ اور سلمان جبکہ زخمیوں کی عاصمہ، رقیہ، عائشہ اور مریم کے ناموں سے ہوئی اور اس دوران پاکستانی میڈیا پر سب سے اہم موضوع یہ رہا کہ ایران کے پاکستان پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا یہ دونوں ممالک پہلے کی طرح دوست ممالک بن سکیں گے؟
برطانوی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے پہلی بار پاکستانی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ 2017ء میں بھی پاکستان نے اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والا ایک ایرانی ڈرون مار گرایاتھا۔پھر بھی تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ پنجگور میں ایرانی کارروائی باعثِ تشویش بھی ہے اور اپنی نوعیت کے اعتبار سےسنگین حد تک بے مثال بھی۔
برطانوی تھنک ٹینک اسلامک تھیولوجی برائے انسدادِ دہشت گردی کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاران جعفری کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ تو ہوا ہے کہ ایرانی سرحدی گارڈز مبینہ عسکریت پسندوں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہو ئے لیکن وہ زیادہ اندر نہیں آیا کرتے تھے، فوراً واپس بھی چلے جایا کرتے تھے۔
فاران جعفری نے کہا کہ یہ بھی ہوا کہ ایرانی میزائل پاکستانی حدود میں آگرے، تاہم ایسے واقعات دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں ہوئے، ماضی کے واقعات اور منگل اور بدھ کی درمیانی شب ہونے والے واقعے میں فرق یہ ہے کہ ایران اس کارروائی کا ڈھنڈورا پیٹتا نظر آتا ہے۔
میری ناقص رائے کے مطابق پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات باہمی حملوں سے کشیدہ ہوئے ہیں،جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، پاکستان نے جب ایران کو ”سنگین نتائج“ سے آگاہ کیا تو جو الفاظ استعمال کیے گئے، یہ سفارتی زبان کے لحاظ سے بہت سخت تھے اور ایسے الفاظ اسی صورت میں استعمال کیے جاتے ہیں جب معاملات زبانی کلامی مذمت اور تعزیت سے آگے بڑھ جائیں۔
جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو چین کے ایران کے ساتھ متعدد معاہدے ہیں جن کے تحت آئندہ کئی برسوں تک چین کو ایران میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنی ہے، اور کسی بھی دو ممالک کے مابین عالمی سطح پر تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان معاملات کا خیال رکھا جاتا ہے، اس لیے چین کی جانب سے ایرانی کارروائی کی اس سختی سے مذمت نہیں کی گئی جتنا کہ پاکستانی قوم کو توقع تھی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات دوبارہ بہتر کرنے کیلئے طویل المدت سفارتی حکمتِ عملی تشکیل دی جائے اور جیش العدل ، بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت پاکستان اور ایران کو دہشت گردی کے جو خطرات لاحق ہیں، ان سے نمٹنے کیلئے دونوں ممالک کے سرکردہ قائدین مل بیٹھ کر کوئی حکمتِ عملی وضع کریں۔ بصورتِ دیگر خطے کی صورتحال کسی نئی انہونی کی طرف جاسکتی ہے جو کسی بھی فریق کیلئے قابلِ قبول نہ ہوگی
|