نصف صدی قبل تک گھروں میں پاندان کے ساتھ اگالدان رکھنے کا رواج تھا، شادی بیاہ کے موقع پر جہیز میں پاندان کے ساتھ پیتل یا سلور کا اگالدان بھی دیا جاتا تھا جس کا استعمال دلہنیں تو شاذونادر کرتیں لیکن ان کی بوڑھی ساس، نندیں اس سے زیادہ استفادہ کرتیں۔ بڑی بوڑھیاں پان کھانے کے ساتھ پیک اگالدان میں تھوکتی جاتی تھیں۔جب وہ اچھی طرح سے بھر جاتا تو پھر اسے بہو کو استعمال کرنے کو دیتیں تاکہ وہ بھی اپنے جہیز میں ملے ہوئے تحفے سے استفادہ کرسکے۔ لیکن یہ استفادہ دوسری طرح سے ہوتا تھا، اسے دینے کا مقصد اس میں جمع شدہ گند صاف کرنا اور دھونا و مانجھنا ہوتا تھا۔
موجودہ دور میں پان، چھالیہ کے نرخوں کی قوت خرید سے باہر ہونے اور گھروں میں پاندان کا استعمال ترک ہونے کے بعد گھروں میں پیک دان رکھنے کا رواج بھی متروک ہوگیا ہے۔ خواتین و حضرات پان کی دکانوں سے لگے لگائے پان خرید کر اپنے شوق کی تسکین کرتے ہیں اور واش بیسن سمیت گھر میں کہیں بھی پیک کا فوارہ اگل دیتے ہیں کیوں کہ صفائی کے لئے بہو رانی جو موجود ہیں۔ نوجوان نسل پان کی جگہ گٹکے اور ماوے کے نشے کی عادی ہوگئی ہے۔ انہیں پان، ماوا یا گٹکے کی پیک سے اپنا دہن خالی کرنے کے لئے کسی پیک دان یا اگالدان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے لئے ہر سڑک، پارک، فٹ پاتھ، گھر، دفاتر یا تفریح گاہوں کے فرش اگالدان ہوتے ہیں۔ وہ پان یا گٹکا فروش کی دکان پر کھڑے کھڑے بغیر دیکھے فٹ پاتھ پر ہی منہ سے پچکاری ماردیتے ہیں، چاہے ان کی پیک سے قریب سے گزرنے والے کا صاف و۔ شفاف پیراہن ماوے یا گٹکے کی پچکاری سے لہو رنگ ہوجائے۔ بسوں، کاروں میں بھی دوران سفر لوگوں کے منہ میں گٹکا یا ماوا بھرا ہوتا ہے اور وہ اپنا دہانہ خالی کرنے کے لئے بس یا کار کی کھڑکی سے ہی پچکاری مارتے ہیں جس کی زد میں قریب سے گزرنے والے موٹر سائیکل سواروں کے کپڑے اس قابل نہیں رہتے کہ وہ دفتر جاسکیں۔تین عشرے قبل جب موبائل فون اور گھروں میں نیٹ کیبل کی آسائش کی وجہ سے ہر گھر منی سینما گھر نہیں بنا تھا، لوگ سستی تفریح کے لئے سینما گھروں کا رخ کرتے تھے۔ وہ دور پان خوری کا تھا لیکن سینما گھروں میں لوگ پان خوری سے گریز کرتے تھے جب کہ عادی قسم کے پان خور پیک دان کے متبادل کے طور پر رومال یا کوئی کپڑا استعمال کرتے تھے۔
اسی دور میں ایک روز ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ فلم دیکھنے گئے۔ سرد موسم تھا، ہم نے گرم کوٹ پہنا ہوا تھا جب کہ ہمارے دوست سوئیٹر پہنے ہوئے تھے۔ وہ عادی قسم کے پان خور تھے، اس لئے سینما گھر میں داخل ہونے سے قبل انہوں نے قریبی پان کی دکان سے تقریبا" ایک درجن پان خرید کر بٹوے میں رکھ لئے تھے۔ فلم شروع ہوتے ہی انہوں بٹوے سے نکال کر پان سے شغل کرنا شروع کردیا۔ ہم فلم دیکھنے میں آتے منہمک تھے کہ ہمیں ارد گرد کی خبر نہیں ہوئی۔ انٹرول کے بعد انہوں نے تبرک کے طور پر ایک پان ہمیں بھی عنایت کیا۔ پان کھانے کے دوران ہمیں پیک سے بھرا اپنا دہانہ خالی کرنے کی حاجت ہوئی لیکن کرسیوں کے نیچے کے علاؤہ کوئی جگہ نظر نہیں آئی ۔ پیک تھوکنے کے لئے ہم نے اپنے دوست سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے نہایت اطمینان سے کہا اپنے پڑوس میں بیٹھے آدمی کے کوٹ کی جیب بنیں تھوک دو۔ ہم نے ان سے کہا کہ ، "یار کیوں ہنگامہ کرائو گے، اگر اسے معلوم ہوگیا تو وہ مار دھاڑ پر اتر آئے گا ". دوست نے جواب دیا، " وہ فلم دیکھنے میں اتنا مگن ہے کہ اسے نہیں معلوم ہوگا"، " اب یہی دیکھ لو، میں نے تمہاری جیب میں آٹھ پانوں کی پیک تھوکی، تمہیں معلوم ہوا"؟. یہ سنتے ہی ہم کرسی سے اچھل پڑے، اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ پان کی پیک سے بھری ہوئی تھی۔ ہم غصے سے اٹھے، مار دھاڑ کے ہم عادی نہیں ہیں، اس لئے بکتے جھکتے فلم ادھوری چھوڑ کر گھر پہنچے۔ جب بیگم کو کوٹ دھونے کے لئے دیا تو جو جھگڑا سینما گھر میں نہیں ہوا تھا، وہ گھر میں شروع ہوگیا اور بیگم نے ہماری جو خبر لی، اس کے بعد ہم نے یہ سوچ کر کوٹ پہننے سے ہی توبہ کرلی کہ جس کوٹ کی جیب پان خوروں کے لئے اگالدان بن جائے، اس کوٹ سے سردی میں ٹھٹھرجانا ہی اچھا ہے۔ لیکن کوٹ کے علاؤہ پینٹ بھی ہوتی ہے جو ہر موسم میں پہنی جاتی ہے اور اس میں بھی آگے پیچھے چار جیبیں ہوتی ہیں۔ ہمیں بس یا ویگن کے سفر کے دوران خود سے زیادہ اپنی جیب کی فکر رہتی ہے کہ کوئی گٹکے یا ماوے کا عادی ہماری۔ جیب کو اگالدان نہ بنا دے۔ ویسے یا کام شلوار سوٹ کی قمیض کے ساتھ بھی لیا جاسکتا ہے، اس لئے ہم شلوار قمیض صرف گھر میں سلیپنگ سوٹ کے طور پر ہی پہنتے ہیں اس لئے قمیض کے جیبی اگالدان بننے کا کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ باقی رہی بات پتلون کی جیبوں کی تو ہپ پاکٹ کو ہم نے بٹن لگا کر بند کرنا شروع کردیا ہے جب کہ اگلی جیبوں کی ہم کڑی نگرانی کرتے ہیں اس لئے ماری پینٹ کی جیبیں ماوے، گٹکے یا پان کا پیک دان بننے سے محفوظ ہیں ۔
|