"ہائے میری لمبریٹا" جورو کی سوکن، میری کتاب میں تحریر ایک مضمون کا کردار، میری "لمبریٹا اسکوٹر" ہے، جو میری بیگم کی ہم عمر تھی۔ 1950 سے 2010 تک کراچی کی سڑکوں پر اطالیہ کی بنی ہوئی لمبریٹا اور ویسپا اسکوٹر دوڑتی نظر آتی تھیں جب کہ مشرقی پاکستان، حیدرآباد کی وزیر علی انڈسٹریز اور بھارت کے بڑے شہروں کی فیکٹریوں میں لمبریٹا اسکوٹر اسمبل ہوتی تھی ۔ چائنا اور جاپانی موٹر سائیکلوں کے فروغ کے بعد اج ویسپا اسکوٹر تو شہر کی سڑکوں پر اکا دکا نظر آجاتی ہے لیکن لمبریٹا ماضی کی داستان بن چکی ہے ۔
1966 میں اٹلی کے شہر وینس کی اسکوٹر ساز کمپنی Innocent" میں بننے والی لمبریٹا اپنی جائے پیدائش کی طرح Innocent یعنی معصوم صورت لگتی تھی۔ اس اسکوٹر سے مجھے بے انتہا قلبی لگائو تھا جو میری زوجہ محترمہ کو گراں گزرتا تھا۔ اس وجہ سے وہ اسے اپنی سوکن سمجھنے لگی تھیں۔ مذکورہ اسکوٹر 1983 سے 2005 تک میرے پاس رہی اور 1988 میں میرے ازدواجی بندھن میں بندھنے کے بعد بھی ہر طرح سے میری غم گسار بنی رہی۔ میرے ڈیڑھ من وزنی وجود کو اپنی کمر پر لاد کے روزانہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر لے کر آتی تھی۔ اس کی شکم سیری کے لئے دن میں ایک مرتبہ سو روپے کا پٹرول ڈلواتے تھے جب کہ اس کے ہفتہ واری علاج معالجے پر تقریبا" ہزار روپے کا خرچہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمارا گھریلو بجٹ خسارے کا شکار رہتا تھا۔ اس پر اٹھنے والے کثیر مالی اخراجات ازدواجی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتے بنتے نسوانی فسادات میں تبدیل ہوگئے تھے جن میں بیگماتی تشدد شامل ہونے کے بعد آلات مطبخ مثلا" جھاڑو، وائپر، چمٹا، بیلن اور طشتریوں کا استعمال بھی ہونے لگا تھا اور ہم اپنے سر کو اڑن طشتریوں کی ضربات سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے لیکن ایک آدھ طشتری ہمارے سر سے ٹکرا کر ایک سر پر دوسرا سر گومڑے کی صورت میں بںا دیتی تھی۔ لمبریٹا اسکوٹر خریدنے سے قبل ہماری بیگم کے ذہن میں مارشل رجحانات پیدا نہیں ہوئے تھے۔ دراصل اخبارات سے دیرینہ تعلق ہونے کے ناتے ہماری دوستی 1980 کے عشرے میں اس دور کی ایک فلمی ہیروئین سے رہی ہے جس کا اصل نام تو فرزانہ خان تھا لیکن اس کے فلم ڈائریکٹر نے اسے ریٹا کا فلمی نام دیا تھا۔ اس دوستی کا ہماری بیگم کو بعض خفیہ ذرائع سے علم ہوگیا تھا جس کی وجہ سے انہیں ہماری اسکوٹر سے اللہ واسطے کا بیر ہوگیا تھا۔ اس بیر کو بڑھانے میں ہمارے ایک ہکلے دوست اکثر و بیشتر شرپسندانہ کردار ادا کرتے تھے۔ وہ ہماری غیرموجودگی میں ہمارے گھر فون کرتے جو ہماری بیگم ہی اٹھاتی تھیں۔ دعا سلام اور ہمارے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد وہ ہماری بیگم سے اسکوٹر کی خیریت دریافت کرتے ہوئے پوچھتے، "اور بھابھی ریٹا کے کیا حال ہیں"۔ وہ اپنے ہکلے پن کی وجہ سے اسکوٹر کے نام کے پہلے دو حروف حذف کرجاتے تھے جب کہ لفظ ریٹا ہماری اہلیہ کے سر پر ہتھوڑا بن کر گرتا تھا۔ اسکوٹر کے پٹرول، روزمرہ کی مرمت کے اخراجات کی وجہ سے گھر کا ماہانہ بجٹ بھی بری طرح سے متاثر ہو رہا تھا اور اس کی وجہ سے ہمیں دوست احباب سے قرض لے کر گھریلو ضرورتیں پوری کرنا پڑتیں۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے وہ ہماری اسکوٹر کو اپنی سچ مچ کی سوکن سمجھنے لگی تھیں۔ اسکوٹر محترمہ بھی اکثر اوقات اپنا سوکن پن دکھا جاتیں۔ جب کبھی اہلیہ صاحبہ ہمارے ساتھ کہیں جانے کے لئے اسکوٹر بہ بیٹھتیں، لمبریٹا صاحبہ "ریٹا" بن جاتیں۔ لاکھ ککیں لگانے، ہوس پائپ ہٹا کر کاربوریٹر پر ہاتھ کر کر اسٹارٹ کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوجاتی۔ یہ صورت حال دیکھ کر زوجہ محترمہ کا غصہ مزید بڑھ جاتا اور وہ پیر پٹختے ہوئے گھر میں واپس چلی جاتیں۔ ایک مرتبہ جب لمبریٹا بیگم کے خراب ہونے کی وجہ سے ایک گھنٹے کا سفر اسکوٹر کو پیدل گھسیٹتے ہوئے کئی گھنٹے میں طے کر گھر پہنچے تو ہمیں اپنی بیگم کی وہ تمام شعلہ بیانیاں سننا پڑیں جو وہ ہمارے انتظار میں کئی گھنٹے سے یاد کررہی تھیں، جس کی تان اس جملے پر آکر ٹوٹتی ، آپ کی اس چہیتی نے تو گھر کا سارا چین و سکون غارت کردیا ہے، ایک دن دیکھنا یہی کلموہی آپ کو خون تھکوائے گی ". خون تھوکنے کی بیماری وہ ہمیں ہانپتا دیکھ کر تشخیص کرتیں۔
اس اسکوٹر کے مکینک صاحب بھی خوب تھے۔ دراصل چائنا اور لوکل اسمبلڈ موٹر سائیکلوں کے سڑکوں پر رواں دواں ہونے کے بعد لمبریٹا اور ویسپا جیسی قدیم زمانے کی اسکوٹر ناپید ہوتی جارہی تھیں جس کی وجہ سے ان کے مکینکس نے بھی اس پیشے کو خیرباد کہہ کر نئے روزگار تلاش کرلئے تھے۔ صرف لمبریٹا کے مکینک ریڈیو پاکستان کراچی کی بغلی گلی میں انتہائی صبر و استقامت کے ساتھ دکان جمائے بیٹھے تھے۔ کراچی میں اس میک اور ماڈل کی اسکوٹر کے تمام مالکان اسکوٹر کی خرابی کی صورت میں انہی کی دکان کا رخ کرتے تھے۔ ہم ان کی دکان پر کئی کئی گھنٹے بیٹھ کر اسکوٹر کی خرابی دور ہونے کا انتظار کرنے کے دوران ان کی زبان سے ادا ہونے والے نت نئے تیکنیکی الفاظ سے محظوظ ہوتے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتے۔
چند عشرے قبل جب ملک کے سیاسی حالات بے انتہا کشیدہ تھے اور ملکی صورت حال غیر یقینی تھی، ایک دن ہم ان کی دکان کے سامنے چبوترے پر بیٹھے اپنی اسکوٹر ٹھیک ہونے کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک مکینک موصوف اسکوٹر کا معائنہ کرتے ہوئے ہماری طرف گھومے اور نہایت جوشیلے انداز میں بولے، "ارے اسمبلیاں ٹوٹ گئیں، گورنرز بھی کام نہیں کررہے". یہ سن کر ہم بیٹھے بیٹھے اچھلے اور ان سے اس خبر کی تصدیق چاہی۔ انہوں نے دوبارہ یہی جملے دوہرائے۔ کیوں کہ ہم اخباری نمائندے ہیں اس لئے ایکسکلوسیو خبر اپنے دفتر میں دینے کے لئے جیب سے موبائل فون نکالا اور اپنے ساتھی کو یہ خبر لکھوائی۔ اس دوران مکینک صاحب اسکوٹر کے معائنے سے فارغ ہوکر دوبارہ ہماری طرف مڑے اور نہایت اطمینان سے بولے، " اس میں اسمبلیاں دوسری ڈال دیتا ہوں جب کہ گورنرز یہی ٹھیک کردوں گا، اسکوٹر گھوڑے کی طرح دوڑنے لگے گی". یہ سن کر ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیوں کہ تیکنیکی کم فہمی کی وجہ سے ہم افواہ سازی کے جرم کے مرتکب ہوگئے تھے، جس کا اثر ہماری ملازمت پر بھی پڑ سکتا تھا، ہم نے دوبارہ موبائل فون جیب سے نکالا اور اپنے ساتھی ایڈیٹر سے اس خبر کی تردید کرکے اس کی کمپوزنگ رکوانے کا کہا۔
ایک طرف ملک میں سیاسی صورتحال بد سے بدتر ہورہی تھی، دوسری جانب ہمارے گھر میں امن و امان کی فضا ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ دفتر سے بونس ملنے کے بعد ہم نے اپنی اسکوٹر کی ڈینٹنگ اور پینٹنگ کروائی جس پر مبلغ سترہ ہزار روپے کا اصراف ہوا۔ جب ہم اسے چمچماتی حالت میں بنوا کر گھر واپس لائے تو ہماری بیگم نے ہمارا استقبال جس انداز میں کیا اس سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے کمرے میں پناہ لینا پڑی لیکن ہمارا حلیف جان کر ہمارے بچوں کو بیگماتی تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔
اسکوٹر ری کنڈیشنڈ کروانے کے ایک ہفتے بعد ہی ایسی خراب ہوئی کہ ہزار ککیں لگانے کے باوجود اس کا انجن دوبارہ نہیں جاگا۔ اسے ٹھیک کروانے کے لئے کئی مرتبہ ہم نے بیگم صاحبہ سے پیسے مانگے لیکن انہوں نے ہماری درخواست ہر مرتبہ سختی سے رد کردی۔ کئی ماہ تک ہم پیدل یا بسوں میں سفر کرتے ہوئے دفتر جاتے رہے۔ ایک دن جب ہم دفتر سے گھر واپس آئے تو جہاں ہماری اسکوٹر کھڑی رہتی تھی، وہ جگہ خالی نظر آئی ۔ ہمارے استفسار پر بیگم نے بتایا کہ آپ کی چہیتی کو میں نے رنچھوڑ لائن کے ایک کباڑئے کو بلا کر تین ہزار روپے میں فروخت کردیا ہے، اب تک تو اس نے اس کا ایک ایک پرزہ الگ کردیا ہوگا۔ جس طرح سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا، ویسے ہی ہماری بیگم کی سوکن کے خاتمے یعنی لمبریٹا اسکوٹر کے کباڑئے کے ہاتھوں ٹکڑوں میں تبدیل ہونے کے بعد ہمارے گھر میں بھی امن آشتی کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور نہ جنہم بھی چین کی بانسری (میڈ ان چائنہ نہیں) کی بانسری بجاتے ہوئے دنیا بھر کے مظلوم مردوں کو نسوانی ظلم و تشدد سے بچانے کے لئے "انجمن تحفظ مرداں" کے نام سے تنظیم بنانے کے لئے غور و خوض کررہے ہیں۔ |