کیا 1947 میں ہم آزاد ہو گیے تھے

کیا سچ میں ہم ۱۹۴۷ میں آزاد ہو گیے تھے ۔

پاکستان میں آج کل الیکشن 2024 کی گہما گہمی ہے ۔الیکشن کا مطلب اس سے پہلے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ عوام کی نمایندہ پارٹیوں کے لیے عوام اپنی مرضی سے ووٹ کرے گی اور عوام میں عزت اور شہرت رکھنے والی جماعت اکثریت کے ووٹ حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ اور یوں عوام اپنے من چاہے حکومتی نمائیندوں سے اپنے حقوق اور مفادات کے توقع کرے گی ۔

پاکستان کی سرزمین پر اس بار الیکشن کو نئے معانی سے متعارف کروایا ۔ اس نئے معنی کے ساتھ ہی کچھ نئے سوالات نے بھی سر اٹھایا اور اتنی شدت سے سر اٹھایا ہے کئ لگتا ہے جب تک ان سوالات کو جوابات نہیں ملیں گے یہ ننگی تلواروں کی طرح سر پر لٹکتے رہیں گے ۔

کچھ مزید پیش رفت بھی ہوئی کچھ پلیٹ فورم جو پہلے صرف فارغ لوگوں کی تفریح اور وقت کے ضائع کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان پلیٹ فارمز کو نوجوان نسل کی بربادی کی وجہ گر دانہ جاتا تھا ۔ اسی نوجوان نسل نے ان پلیٹ فارمز کو ایسا کارآمد ذریعہ بنا کے پیش کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی جی ہاں میں سوشل میڈیا کے بے قابو جن کی بات کر رہی ہوں ۔ جو بوتل دے باہر آ چکا ہے اور اپنے جادو سے پاکستان کی جھوٹی آزادی کی حقیقت کو پوری دنیا پر آشکار کر چکا ہے ۔
اس جن کی بدولت آج بچہ بچہ اور بوڑھا جانتا ہے کہ ہم 1947 میں آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئے تھے پر ہم میں سے کسی کو احساس بھی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے ۔

ایک اور جنگ کا سامنا تھا مجھ کو
میں ایک جنگ جیت چکا تو میں نے دیکھا ۔

کاش کہ ایسا ہوتا اور اس دوسری اندرونی جنگ کو ہم پہچان لیتے اس وقت جب ہم ایک بڑی جنگ کو لڑ چکے تھے اور ہم میں ہمت بھی تھی اور حوصلہ بھی ۔ اور سب سے بڑھ کر بہتریاں سیاسی قائدین کا ساتھ بھی تھا ۔ پر اب اتنے سالوں بعد اور غلامی کے اتنے سال گزار کر یوں لگتا ہے ہمارے دل دماغ اس غلامی کے عادی ہو گئے ہیں ۔
پھر بھی ایک مرد مجاہد نے ہمت کر لی ہم سب کا جگانے کی ۔ اپنے آپ کو پہچاننے کی ۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی ۔ اپنا کل آج سے بہتر بنانے کی۔

جاگ تو گئے ہم پر کیا ہم یہ کر پائیں گے ۔ کیا ہم میں یہ ہمت ہے ۔ ثابت کر پائیں گے کہ ہم زندہ قوم ہیں ۔ وہ جو حاکم بنے بیٹھے ہیں ہماری قسمتوں کے فیصلے کر رہے ہیں ان کو سکھا سکیں گے کہ ہمارے محافظ ہیں حاکم نہیں ۔ ہم پر حکم صرف ہم خود چلا سکتے ہیں ۔ اور یہ جو الیکشن کے نام پر دھوکا اور فراڈ ہو رہا ہے اسے ٹھیک کر سکیں گے ۔

اور ہم میں سے وہ جو اب تک سو رہے ہیں ان کو احساس دلا سکیں گے کہ ہم اب تک آزاد نہیں ہیں ۔ ہماری لڑائی ابھی جاری ہے ۔

قائد اعظم کے بعد ہمیں جگانے والے اس انسان کو اپنے لیے اپنی نسلوں کے لیے انصاف دلا سکیں گے ۔

کیا ہم بچا لیں گے امید کی اس کرن کو جو ستر سال کے بعد جاگی ہے ۔ صرف دعا کافی نہیں ہو گی دوا کی بھی ضرورت ہے
کیوں کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

Maryam Sehar
About the Author: Maryam Sehar Read More Articles by Maryam Sehar : 48 Articles with 58388 views میں ایک عام سی گھریلو عورت ہوں ۔ معلوم نہیں میرے لکھے ہوے کو پڑھ کر کسی کو اچھا لگتا ہے یا نہیں ۔ پر اپنے ہی لکھے ہوئے کو میں بار بار پڑھتی ہوں اور کو.. View More