ثمینہ رئیس نشیب ۔۔۔فیصل آباد کے نسائی ادب کا ایک معتبر حوالہ
(Dr.Izhar Ahmad Gulzar, Faisalabad/ Pakistan)
برِّصغیر ہند میں خواتین کی شاعری کے حوالے سے گفتگو شروع ہوگئی تھی مگر اس وقت کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ انھیں بہت زیادہ شہرت ملے اور ان کے مقام و مرتبہ کا تعین کرکے بڑے اور مستند شعرا کی فہرست میں ان کو جگہ مل سکے۔ لیکن آزادی ہند کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں خواتین شاعرات کی اچھی خاصی تعداد منظرعام پر آئی اور انھوں نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ خواتین کی تعلیم یافتہ صف میں شامل بعض خواتین ایسی گزری ہیں، جنھوں نے نہ صرف اردو ادب و شاعری پر اپنی فکر کے انمنٹ نقوش چھوڑے اور اگر ایک طرف اپنے بنیادی حقوق اور ساتھ ہی انسانی حقوق کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کیا، وہیں ان شاعرات نے اپنے نقطۂ نظر کو معاشرے تک پہنچانے کے لیے شاعری کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا….. اس میدان میں خواتین شاعرات نے اتنی ترقی کی کہ ہم ان کی شاعری کو معاشرے کی سماجی، اقتصادی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی جہتوں پر اثرانداز ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اس بات کو بھی خوش آئند علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ٹی وی، اخبارات، ریڈیو اور فلم وغیرہ نے اس کے اثرات قبول کیے ہیں ا ور خواتین کے امیج کو بہتر طور پر عوام تک پہنچانے میں نمایاں کردار عطا کیا ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد خواتین نے شاعری کے حوالے سے اردو ادب کی جو خدمات کی ہیں وہ لائق تعریف ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعی جھجک محسوس نہیں ہورہی ہے کہ چاہے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ ہو یا غیرالیکٹرانک ذرائع ابلاغ خواتین نے ایک ماہر فن کی طرح اپنی خدمات سے متاثر کیا ہے، بلکہ بات یہاں تک کہی جاسکتی ہے کہ خواتین کی شاعری نے معاشرے کو غیرمحسوس طریقے سے ایسا شعوری پیکر عطا کیا ہے، جو نسائی لب و لہجے کی منفرد شناخت ہے۔
1947 کے بعد شاعری کا کوئی ایسا موضوع نظر نہیں آتاجس پر خواتین نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ انھوں نے ہر اس مسئلے کو شاعری کا موضوع بنانے کی کوشش کی، جو کسی نہ کسی طور پر معاشرے پر اثراندازہورہے ہیں۔ خواتین کی سوچ بدل رہی ہے، جو باتیں مرد معاشرے نے ان کے لیے ممنوع قرار دے رکھی تھیں، وہ باتیں خواتین کا ذریعۂ اظہار بنیں۔ مرد معاشرے کی اس اجارہ داری کے باوصف خواتین یہ فریضہ ادا کرنے کے لیے خود آگے آئیں اور دنیا کو بتایا کہ وہ بھی ایک ذہن رکھتی ہیں اور ان کا اپنا ایک منفرد تشخص ہے۔ ان کی انفرادی سوچ ہے اور اس انفرادی سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انھوں نے بڑے دلنشیں اورپرمغز اشعار کہے ہیں۔
شاعری ذوق و وجدان سے تعلق رکھتی ہے اور ذوق و وجدان میں صنف کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ تاریخ عالم میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ قدرت نے ہر مرد و زن کو یکساں اپنے عطیات سے سرفراز کیا ہے۔ بات چاہے آزادی کی ہو یا تصنیف و تالیف کی عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ نظر آتی ہیں۔ عورتوں کی شجاعت و بہادری کی داستانیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ خانگی معاملات میں تو عورتوں کے جذبۂ و ایثار اور قربانیوں سے کتابیں لبریز ہیں۔
اصناف ادب میں بھی خواتین کا بول بالا رہا ہے، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عہد قدیم کے تذکرہ نگاروں نے شاعرات پر توجہ نہیں دی ہے اور نہ ان کے دواوین پرہی سیر حاصل مباحثے اور ان کو محفوظ رکھنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
نسائی شاعری میں پروین شاکر کے حصہ میں جو شہرت و مقبولیت آئی، اس سے دوسری شاعرات کو بھی رغبت پیدا ہوئی اسی طرح فیصل اباد میں خواتین شاعرات اور دوسری اصناف سے منسلک اہل قلم خواتین کی ایک کثیر تعداد پرورش لوح و قلم میں شبانہ روز مصروف عمل نظر آئی ہیں جنہوں نے نسائی شاعری اور دیگر اصناف کو عروج بخشا۔ اس فہرست میں فیصل آباد کی جن اہل قلم خواتین نے اپنے فن کا لوہا منوایا ، ان نمایاں اہل قلم خواتین میں ڈاکٹر طاہرہ اقبال ،نسیم صحرائی،فرحت صدیقی ،کنیز اسحاق ،گلفام نقوی ،صفیہ حیات ،رضیہ عثمانی ،ڈاکٹر سمیرا نقوی، عابدہ فیاص ،رفعت یاسمین ،سیمیں کرن، ڈاکٹر شمیم ظفر رانا،ڈاکٹر زینت افشاں ، ڈاکٹر آنسہ احمد سعید ،ڈاکٹر رابعہ سرفراز، ڈاکٹر پروین کلو،ڈاکٹر میمونہ سبحانی ،ڈاکٹر شاہدہ یوسف ،ڈاکٹر عائشہ ظفر ،ڈاکٹر صدف نقوی ،ڈاکٹر سعیدہ رشم، ڈاکٹر صباحت صفدر،ڈاکٹر عنبرین اشعر ، فوزیہ شیخ،ساجدہ زیدی ایڈووکیٹ ، شازیہ خٹک ایڈووکیٹ ،بشریٰ ناز، طلعت ناہید سندھو ،فوزیہ جاوید ،پروا مرزا ، کنول مختار ،ڈاکٹر ہاجرہ تبسم ،ارسہ مبین ،تاشفین ناز رحمان ،منال مجوکہ ، عظمی نقوی،ڈاکٹر طاہرہ انعام ،کنیز فاطمہ مقدس ،مریم چودھری ، نرگس رحمت ، پروفیسر ماہ انجم ،انیلا خالد،شیبا ذوالفقار، کائنات احمد ، لبنی آرائیں اور ثمینہ رئیس نشیب کے نام شامل ہیں ۔
انہوں نے ادب کی مختلف اصناف میں شامل ہوکر نہ صرف اپنے فن کو پروان چڑھایا بلکہ نسائی لب و لہجہ کو وہ اعتبار بخشا کہ اس سے جدید ادبی سرمائے میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا۔ اردو ادب سے اپنی خصوصی دلچسپی ۔ان۔ خواتین شاعرات نے شاعری کو نہ صرف جلا بخشی، بلکہ اردو ادب میں انھیں وہ اعتبار حاصل کرنے میں مدد بھی ملی، جس کی ہر شاعر تمنا ہی کرسکتا ہے۔ ثمینہ رئیس نشیب ایک بیدار مغز شاعرہ کی طرح اپنے وجود سے متصادم ہونے والے تجربات کو لفظ و پیکر کی فطری صورت میں پیش کرتی ہیں اور ساتھ ہی اپنی ذکی الحسی، واردات قلبی اور لفظ و پیکر کی مناسبت سے تخیل سے ایک نئی دنیا تخلیق کرتی ہیں۔
فیصل آباد سے متعلق ثمینہ رئیس نشیب نسائی ادب میں ایک معتبر حوالہ کی حثییت رکھتی ہیں ۔۔ان کا تعلق شعبہ درس و تدریس سے ہے ۔۔ثمینہ رئیس نشیب کا شمار ایسی شاعرات میں ہوتا ہے جسے بھاری بھر کم الفاظ اور بوجھل تراکیب سے دامن چھڑا کر اپنے محسوسات ، کرب ذات اور تجربات کو تاثیر دیے بنا نہیں رہ سکتی ،دنیا ادب میں محراب کا چاند ہر سو چاندنی پھیلاتا رہے گا ۔۔نسائی ادب میں ثمینہ نے اپنے بھر پور ہونے کا احساس دلایا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ خواتین نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اور تہذیب و تمدن کے تاریک گوشوں کو روشن بھی کیا ہے، جس میں علم و ادب کا گوشہ بھی شامل رہا ہے. لیکن ادب ابھی نسائی احساسات کی گہرائیوں سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہوا ہے اور اسکی مختلف وجوہات رہی ہیں جس پر غور و فکر کرنا ادب بلکہ تہذیب و تمدن کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے . وہ کیا وجوہات ہیں کہ تاریخ میں ادبا و شعر ا کی فہرست میں خواتین کی نمایندگی اول سو بلکہ اول ہزار میں بھی درج نہ ہو سکی. اس بات سے انکار محال ہے بیسویں صدی سے قبل اردو شاعری میں نسائی لب و لہجہ کا تصور ہی محال تھا. ریختہ کے مقابل ریختی کسی دشنام سے کم نہ تھی. شاعرات کو بھی مردانہ لب و لہجے میں ہی شاعری کرنی ہوتی تھی. اور تخلیق کے اس کرب کا اندازہ اہل علم و ادب کی نظر سے پوشیدہ بھی نہیں رہا ہوگا
. اردو شاعری اور خاص کر غزل کا یہ بھی خاصہ رہا ہے کہ میر و غالب اور انکے معاصر کے کلام میں نسائی لب و لہجہ کی جھلک نظر آتی رہی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب شاعر حضرات خود ہی شاعری میں نسائی احساسات کے خلا کو پر کرتے رہے ہوں گے تو بھلا خواتین کو کب یہ کام کرنا تھا. میر و غالب و سودا سے قبل امیر خسرو کے کلام میں بھی نسائی افکار اور لب و لہجہ صاف عیاں ہے
. ثمینہ کی شاعری میں مصروں کی پختگی اور خیال کی رسانیت ہنر مند وجدان میں اتر کر ایک ایسا آئینہ تراشتی ہے جس میں زندگی کے تجربات و مشاہدات عکس در عکس اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔۔اگر اس کی شاعری کا منتخب فنی تجزیہ کیا جائے تو ثمینہ اس میں وقار اور اعتماد سے ایستادہ نظر آتی ہیں ۔۔۔۔ممتاز محقق اور نقاد ڈاکٹر شببر احمد قادری ان کے مجموعہ کلام "پھول آنگن میں کھلیں" کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں کہ " ثمینہ رئیس نشیب نے جو الفاظ زیب قرطاس کیے ہیں ، وہ ان کی قدر و قیمت سے کماحقہ آگاہ ہیں ، وہ انھیں شعر نہیں ،جذبوں کی ایسی تصویریں قرار دیتی ہیں جن میں انگارے بھرے ہوۓ ہیں ، ایسی مالا ہے جس کے لفظ موتی ، درد کے ترجمان ہیں اور یہ موتی اشکوں کسے زائیدہ ہیں "۔۔۔
وہ کسی اور کی تکریم نہیں کر سکتا جس کو خود اپنی بھی عزت نہیں کرنی آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تم نہ ہوتے مجھے تیرگی نگل لیتی ترے سبب سے مری زیست میں اجالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانیوں کے شور میں سہمی مچلتی مچھلیاں آنکھ کے ساحل پہ ٹھہریں منظروں کی کشتیاں
سات رنگوں کی دھنک میری ہتھیلی پر سجی بند مٹھی میں رہی ہیں خواہشوں کی تتلیاں
آج پھر کالی ردائیں اوڑھ کر ہیں آ گئیں آج پھر ماتم کناں ہیں آسماں پر بدلیاں
ہجرتوں کے درد لائ ہیں پروں سے باندھ کر اُڑ کے آئ ہیں کہاں سے طائروں کی ٹولیاں
کون اپنے ساتھ لایا ہے خزاں رُت کو نشیب گھول دیں کس نے گلابی موسموں میں زردیاں (بحوالہ شعری مجموعے "محراب میں چاند" )
ممتاز شاعر اور براڈ کاسٹر ڈاکٹر محمود رضا سید' ثمینہ رئیس نشیب کی شاعری کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ "ثمینہ رئیس نشیب کی شاعری میں زرد موسم ، نارسائی ،نخل ِ بے برگ و بار جیسی علامتیں پائی جاتی ہیں ،ان کے نظر میں زندگی کی خوب صورتی ، زندگی میں رونق لوازماتِ زندگی سے ہے جیسے باغ میں پھول نہ ہو ،خوشبو نہ ہو سبزہ اور ہوا نہ ہو ، باغباں نہ ہو تو نشیب ایسی زندگی کو ادھوری زندگی سمجھتی ہیں ،ثمینہ سے کیے گئے انٹرویو کی اشاعت کے بعد ان کا پہلا شعری مجموعہ "پھول آنگن میں کھلیں" نادر جاجوی کی شفقت سے سامنے آیا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف نہیں ہے کہ کون کیا کہے گا ثمینہ رئیس فیصل آباد کی نوے کی دہائی کی نسائی آوازوں میں پہلی نسائی شاعرہ ہیں جو جینوئن اور نیچرل شاعرہ ہیں وہ جو محسوس کرتی ہیں اس کا بھر پور شعری اظہار کرتی ہیں۔"
پلکوں پہ کسی خواب شکستہ کو پرو کر دیکھو تو ذرا ہجر کی دہلیز پہ سو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کون مری ذات میں اب نوحہ کناں ہے کیسا ہے عزادار جو تکتا نہیں رو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب لوگ نشیب اس کو سمجھتے نہیں قاتل جو سامنے بیٹھا ہے لہو ہاتھوں سے دھو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا رہ گیا ہے پاس مرے اک دل مبتلا تو رہنے دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدائیوں کا ملال آنکھوں میں رہ گیا ہے بچھڑ کے تجھ سے سوال آنکھوں میں رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممتاز نقاد اور محقق ڈاکٹر شببر احمد قادری ' ان کے مجموعہ کلام " پھول آنگن میں کھلیں " کے دیباچے میں " اپنے حصے کی شمع " کے عنوان سے لکھتے ہیں ۔۔ " ثمینہ رئیس نے جو الفاظ زیب قرطاس کیے ہیں ، وہ ان کی قدروقیمت سے کماحقہٗ آگاہ ہیں وہ انہیں شعر نہیں ، جذبوں کی ایسی تصویریں قرار دیتی ہیں جن میں انگارے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ایسی مالہ ہے جس کے لفظ موتی ، درد کے ترجمان ہیں اور یہ موتی اشکوں کے زائیدہ ہیں ،یہ اشک انھوں نے گردو پیش کی گھمبیر صورت حال اور خون انساں کی ارزانی پر بھی بہائے ہیں ،شہر کی گلیوں میں ماتم کرتی ، دلدوز بین کرتی ہوائیں ان کی طبع حساس پر گراں گزرتی ہیں،نرغہ دشمناں میں گھرے ہوۓ اپنے وطن کی اداس کر دینے والی فضائیں انھیں اچھی نہیں لگتیں ۔۔ادھورے پن کا احساس ، آگہی کا عذاب ، رہ پر خار پر محو سفر ہونا ،بے نام تیرگی ،شاخ ثمر دار کا اجڑنا ۔۔۔یہ سب کچھ ثمینہ نشیب کو اچھا نہیں لگتا ، وہ اس صورت حال کو بدلنے کی خواہش بھی رکھتی ہیں مگر خزاں رت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔"
لکیر اک روشنی کی ہر گھڑی سینے میں رہتی ہے دیے جلتے ہوئے اپنی طرف مجھ کو بلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی اور کی تکریم نہیں کر سکتا جس کو خود اپنی بھی عزت نہیں کرنی آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تم نہ ہوتے مجھے تیرگی نگل لیتی ٹرے سبب ہے مری زیست میں اجالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محترمہ کنیز اسحاق مرزا ، "پھول آنگن میں کھلیں" میں اپنے لکھے تقریظ بعنوان " میری سہیلی ۔۔میری ہمدم "میں ثمینہ کے فکر و فن بارے خامہ فرسائی کرتی ہیں ۔ " ثمینہ کی شاعری ہی اس کی دنیا ہے ،جس میں انتہائی خلوص اور فطرت سے محبّت کے بہت سارے رنگ شامل ہیں ۔۔اس نے اپنی اسی دنیا میں قوس و قضا کو یکجا کر کے شعری قلب میں ڈھالا ہے ، جو اس کی معصوم شخصیت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے ۔یہ وہ شجر ہے جو اپنی ہمت اور لگن سے پروان چڑھا ہے ۔۔"محراب میں چاند " اور پھول آنگن میں کھلیں "میں اس کی شخصیت کا عکس نظر آتا ہے ۔"
اگر انسان سارے اس جہاں کے بے زباں ہوتے نہ لہجوں کی کھٹک ہوتی نہ افسانے بیاں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی مجھ کو اب نہیں دل میں مقدر کی کسی چال کا خوف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دکھ وہ دیتا ہے اس قرینے سے زہر امرت لگا ہے پینے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نشیب کا اپنی شاعری کے بارے میں موقف یہ ہے کہ ۔۔ " زندگی دکھ سکھ کا حسین امتزاج ہے اور شاعری زندگی کے انہی لمحات سے کشید کی جاتی ہے، اچھی شاعری وہی ہوتی ہے جس کے اندر زندگی دھڑکتی ہوئی محسوس ہو ۔۔وصل کے لمحات و سرشاری کی کیفیت سے آگاہ کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن ہجر دامن تھام کر وہیں بیٹھ جاتا ہے، یوں بھی زندگی کی تکمیل ہجر کے بغیر ممکن نہیں، میری شاعری میں اگر زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہو،تو آپ سمجھے میں کامیاب ہو ،میری محنت کارگر ہوئی ۔" مطمئن ہے وہ اپنی انجمن آرائی پر مجھ کو فائز کر دیا ہے منصب تنہائی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اداس رکھنے کو یہ اہتمام کافی ہے جو تو نے درد کا بخشا ہے جام کافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاروبار ایک محبت ہے نشیب درد ہی اس میں کمایا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معروف محقق اور نقاد ڈاکٹر طاہر تونسوی "پھول آنگن میں کھلیں" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "ثمینہ رئیس نشیب کا یہ مجموعہ کلام موضوعات اور لب و لہجہ کے اعتبارات سے منفرد بھی ہے اور چونکا دینے والا بھی کہ اس نام کی مناسبت سے تجربات کا عکس بھر پور معنویت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ اس شعری مجموعہ کی غزلیں شاعرہ کے خیالات ، احساسات اور تجربات کی روشنی میں انفرادی تخلیقی فعالیت کا منظر نام پیش کرتی ہے اور اس حوالے سے شاعرہ کی یہ خواہش بھی ابھر کر سامنے آتی ہے ۔" تیرگی میں بھی فلک پر جو چمکتا رہتا جگمگاتا ہوا تارا ہی مرا فن ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معروف شاعر اور ادیب عطاء الحق قاسمی ، ثمینہ نشیب کی شاعری کے متعلق کتاب کے فلیپ میں لکھتے ہیں۔۔ " ثمینہ رئیس نشیب کی شاعری میں پھولوں کی مہک بھی ہے اور زندگی کے تلخ تجربات کی کسک بھی۔۔۔۔۔جو کہ فی زمانہ ایک اچھے شاعر ہونے کی دلیل بھی ہے اور تصدیق بھی ۔۔۔۔کیونکہ ایسی شاعری ہی زندہ رہ جانے والی شاعری میں شمار ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری اس بات کی تائید آپ بھی "پھول آنگن میں کھلیں" گئی شاعری پڑھ کر سکتے ہیں ۔۔"پھول آنگن میں کھلیں" کی اشاعت یقینا نسائی ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے ۔
"" ثمینہ کی شاعری گل و رخسار کی شاعری نہیں بلکہ اس میں افادیت کے روشن پہلو نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔اخلاقی شاعری کے عناصر جا بجا نظر آتے ہیں ۔۔ان کی شاعری میں زندگی کے مختلف تجربات کا عکس نمایاں ہے ۔۔۔۔ لوگ کیسے ادھورے خواب لیے سو گئے خاک میں کفن اوڑھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صحہء زیست کو جیسے ہی پلٹتی ہو نشیب دسنے لگتا ہے مری روح کو اعمال کا خوف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممتاز ناول نگار ضیاء حسین ضیاء لکھتے ہیں کہ " ثمینہ کی شاعری تو محض اس کے قلم کے مزاج کی تعداد نہیں بلکہ وہ اپنی غزلوں اور نظموں میں روح کے تار و پود سے وجود کے پیراہن کی سلائی کرتی نظر آتی ہے ،ثمینہ کے ہاں شاعرانہ چابکدستی کے ساتھ دیوار میں در بنتے نظر آتے ہیں ، خزاں سے بہار نکلتی محسوس ہوتی ہے اور زندگی کے مایوس رویے گل نورستہ میں ڈھلتے نظر آتے ہیں،۔۔۔ثمینہ کی شاعری میں مصروف کی پختگی اور خیال کی رسانیت ہنر مند وجدان میں اتر کر ایک ایسا آئینہ تراشتی ہے جس میں زندگی تجربات و مشاہدات عکس در عکس اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔۔اگر اس کی شاعری کا منتخب فنی تجزیہ کیا جائے تو ثمینہ اس میں وقار اور اعتماد سے استادہ نظر آتی ہیں ۔۔۔ ثمینہ کی شاعری میں تغزل زندگی کی حا جیت اور دروبست کا آئینہ خانہ نظر آتا ہے ۔۔۔ثمینہ کا اسلوب ہی ایسا ہے کہ دل کو چھوتا چلا جاتا ہے ، خیال و معنی کا چہرہ دھل جاتا ہے ۔۔۔وارفتگی ہے کہ مصروں کسے دل کی دھڑکن تیز کر دیتی ہے ۔"" زمیں کے کینوس پر آنکھ سے منظر بناتے ہیں چلو ہم تم خیالوں کی نئی دنیا بساتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آؤ چاہت کے حسیں رنگوں میں خود کو رنگ لیں تو کہے تو میری آنکھیں تیرا درپن بن جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسائی ادب ،اردو ادب کا قابل قدر حصہ رہا ہے۔ نسائی شعور کی روایت ہمارے ثقافتی رجحان Cultural Mindset کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ خواتین کی ادراک و شعور کی آئینہ دار ہے۔نسائی اظہار کا رویہ تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔نسائی ادب و تنقید نہ تو مغرب کی نقالی ہے نہ اس کا کوئی تصادم ہمارے اقدار سے ہے بلکہ یہ ہماری آبادی کے نصف حصے کی ذہنی و فکری سفر کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔۔۔۔یہ خواتین قلم کاروں کا نقطۂ نظر(point of view)کو پیش کر رہا ہے۔۔اور ثمینہ رئیس نشیب نے نسائی ادب میں اپنے بھر پور ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان نسل کا نمائندہ شاعر وصی شاہ ، ثمینہ رئیس نشیب کی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں ۔۔
" ثمینہ رئیس نشیب کی شاعری پڑھ کے آپ کو وہی احساس ہوگا جو پھولوں کے آنگن میں کھلنے پر ہوا کرتا ہے،طرح طرح کے رنگ اور خوشبو سے جسم و جاں معطر ہو جاتا ہے، کسی بھی لکھنے والے کی طرح ثمینہ کی شاعری کی بھی اپنی ایک دنیا ہے اور اس دنیا میں بے شمار رنگ روزن اور راستے ایسے ہیں جو ثمینہ کی نظروں سے دنیا دیکھتے ہیں ۔۔
ثمینہ رئیس نشیب کی شاعری کے آنگن میں کھلنے والا پھول بلاشبہ آپ کی دنیا کو بھی معطر اور رنگین بنا دے گا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|