عوام کا فیصلہ اور فیصلے کے بعد

عوام نے 8 فروری کو اپنا فیصلہ سنا دیا. اس کے بعد جو کوئی جیسا بھی فیصلہ کرے اور چاہے جتنے بھی فیصلے ہوں. مگر عوام کے فیصلے کے سامنے سب ہیچ ہیں. کیونکہ جمہوریت در حقیقت عوامی نظام حکومت کا نام ہے. جس میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں. اور حقیقی جمہوریت میں منتخب نمائندے عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں. جبکہ ملک کے تمام ادارے عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتے ہیں. مگر پاکستان میں مروجہ نظام جمہوریت کیونکہ حقیقی جمہوریت سے کوسوں دور ہے. اور یہ نظام عوام کے نہیں بلکہ اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے. اس نظام کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں عوام کے ووٹ کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا جاتا رہا ہے. اور اس لیے یہ بات ہمیشہ زبان زد عام رہتی ہے. کہ ہمارے ووٹ دینے نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑنا. یہی وجہ ہے ہمارے ہاں الیکشن کا ٹرن آوٹ عام طور پر تیس سے 35 فیصد رہتا ہے. مگر 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں پہلی بار ایسا ہوا کہ لوگ نہ صرف باہر نکلے بلکہ بھر پور طریقے سے اپنا ووٹ بھی کاسٹ کیا. اور اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ عوام اپنے ووٹ سے تبدیلی نہیں لا سکتے.

یہی وجہ ہے ابتدائی طور پر تمام منصوبے دھرے رہ گئے. تمام فیصلے مات کھا گئے اور تمام حربے ناکام ثابت ہوئے. الیکشن سے پہلے جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کارروائیاں کی گئیں. انٹرا پارٹی الیکشن کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا. اور تمام پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے کر مختلف نشانات دے دئیے گئے. جس کا مقصد ووٹروں کے لیے پریشانی پیدا کرنا تھا. اور پھر انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے زمین تنگ کر دی گئی. کارنر میٹنگ یا ریلیاں نکالنے ناجائز مقدمات بنائے گئے. جس کی وجہ سے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا. اور اکثر امیدوار روپوش رہے. اور پھر آخری حربے کے طور پر انتخابات سے چند روز پہلے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو یکے بعد دیگرے تین مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں. سزائیں سنانے کا ان کا مقصد یہی تھا کہ عمران خان کے حامیوں پر یہ باور کرایا جا سکے کہ پی ٹی آئی کا باب بند ہو چکا ہے. مگر عوام نے اس کا الٹا اثر لیا. عمران خان کے لیے لوگوں کی ہمدردی میں اضافہ ہوا. جس کا نتیجہ 8 فروری کو سامنے آیا.

اس سے قبل ہم اپنے کالم میں لکھا تھا. کہ اگر عوام نے کوئی غیر معمولی اور غیر متوقع فیصلہ کر لیا تو اداروں کی طرف سے کیئے گئے تمام فیصلے دھرے رہ جائیں گے. اور یہی ہوا عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے ظلم، جبر، استحصال کے تمام فیصلوں کو مات دے دی اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ عوام اگر متحد ہو کر باہر نکل پڑیں تو تمام رکاوٹیں ان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں.

مگر عوام کے فیصلے کے بعد طاقتور اشرافیہ عوامی مینڈیٹ کا جو حشر کرنے جارہی ہے وہ نہ صرف عوام کے ووٹوں کی توہین ہے بلکہ ملک کے مستقبل اور جمہوریت کے لیے بھی نقصان دہ ہے. کیونکہ اس سے قبل پولنگ کے روز موبائل نیٹ ورک کی بندش اور انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر نے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھا دئیے ہیں. یہی وجہ ہے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک,فافن، نے بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی نتائج کی تیاری اور ان کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے نتائج کی ساکھ پر سوالات اٹھا دیے ہیں. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نتائج میں تاخیر سے متعلق وجوہات اور وضاحتوں کے باوجود اس تاخیر نے الیکشن کے عمل کو گہنا دیا ہے. فافن کا کہنا ہے کہ اٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں 16 لاکھ بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے اور 25 قومی اسمبلی کے حلقے ایسے ہیں جہاں مسترد ہونے والے ووٹوں کا تناسب جتنے والے امیدواروں کے ووٹوں سے زیادہ ہے،،

الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ رویے، امتیازی سلوک اور آئین و قانون کی پامالی کے باوجود عوام کا مینڈیٹ واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے. مگر اس کے باوجود نتائج کو جس طرح تبدیل کرنے کی کی کوشش کی جارہی ہے. وہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے. جسے عوام کبھی بھی قبول نہیں کریں گے. ضرورت اس امر کی ہے جس کا جو مینڈیٹ ہے اسے تسلیم کیا جائے. کیونکہ اس سے قبل مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کی یہ ملک بہت بھاری قیمت ادا کر چکا ہے. اب یہ ملک مزید کسی نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتی. ہماری اشرافیہ، مقتدر قوتوں، سیاسی جماعتوں اور طاقتور حلقوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے آج ملک جس قسم کے حالات سے دو چار ہے اس میں عدم برداشت کا رویہ صورتحال کو مزید خراب کرے گا اس لیے ذاتی مفاد اور پسند و نا پسند اور مفاد کو چھوڑ کر قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہئے. کیونکہ جس کا مینڈیٹ ہے وہ اسی کا مینڈیٹ ہے. کیونکہ لوگ توڑ کر حکومت تو بنائی جا سکتی ہے مگر لوگوں کی حمایت کے بغیر حکومت چلائی نہیں جا سکتی. اس لیے عوام کے فیصلے کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے.

Mazhar iqbal khokhar
About the Author: Mazhar iqbal khokhar Read More Articles by Mazhar iqbal khokhar: 57 Articles with 37607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.