پاکستان کی تاریخ میں جب بھی الیکشن ہوئے ہیں ۔ اساتذہ کے علاوہ
ڈاکٹر اور کچھ اور ڈپارٹمنٹ ہیں جس کو قربانی کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اُنکو دو دن
کی (Training) دی جاتی ہے جس میں (Trainer) خود بھی(trained ) نہیں ہوتے بہت ساری
باتیں نہیں بتاتےجس کی مدد سے پریذائیڈنگ آفیسر اور باقی اسٹاف کو کام آسان ہوجائے۔
ٹرئینر (Trainers) کا انتخاب بھی پرچیوں یا پھر کسی خاص گروپ کا ہوتا ہے۔ الیکشن سے
پہلے اور بعد کی ذلت کو بیان کرنے سے پہلے میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں
۔ الیکشن کمیشن ، الیکشن کے لئے اسٹاف کا انتخاب کرنے کے لئے کوئی اُصول مرتب نہیں
کرتی۔ پاکستان میں جب الیکشن ہوتے ہیں تو ہم سب ذہنی طور پر پریشان ہو جاتے ہیں۔
اس لئے نہیں کہ ڈیوٹی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ بلکہ پریشانی کی بات یہ ہوتی ہے کہ تین
دن کی تکلیف دہ صورتحال کو جھیلنا ہو گا۔ پہلے دن اپنا ڈیوٹی لیٹر لینے کے لئے صبح
10:00 بجے سے شام 5:00 بجے تک انتظار کرنے کے پُل صراط سے گزرنا ہو گا۔ دوسرے دن
سامان لینے کا مرحلہ اور تیسرے دن نتیجہ جمع کر انے کا مرحلہ۔ میں چیف جسٹس آف
پاکستان سے درخواست کرتی ہوں کہ ان مراحل کو آسان بنانے کی ہدایت کریں۔ 7 فروری کو
سامان کے لئے بُلایا گیا۔ ہم سب اپنی ڈیوٹی کا حصہ سمجھتے ہوئے۔ ریٹرنگ آفسر کے پاس
گئے۔ وہاں جتنا ذلیل وخوار کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ سامان کے لئے مرد وں اور
عورتوں کے لئے الگ کاؤنٹر نہیں رکھے گئے ۔ مرد حضرات خواتین پر اس طرح سے گرِ رہے
تھے کہ ہم سب خودسے شرمندہ ہو رہے تھے۔ اس طرح سامان مل رہا تھا کہ جیسے کوئی لنگر
مل رہا ہے۔ صبح 9:00 بجے سے ہم سامان لینے کے لئے کوشش میں رات 12:00 بجے یا اس سے
بھی ذیادہ دیر سے بھی ملتا ہے۔ اور اِس دوران پولیس اور وہاں کا اسٹاف ہم سب سے کچھ
اس طرح سے مخاطب ہو رہے تھے " تم یہاں کیا کر رہے/رہی ہو یا تم کو ابھی سامان نہیں
ملے گا، تم اس جگہ سے ہٹو ۔ اب اگر ایک دفعہ اور سامان کا نام لیا تو تم کو اندر
آفس میں نہیں جانے دوں گا۔
8 فروری 2024 پاکستان کا بدترین اور تاریخ ترین دن تھا۔ جس دن الیکشن رکھا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن او ر موجودہ حکومت نے موبائلز سروسز بند کر دی گئی تاکہ کسی بھی
پریشانی کی صورت میں ریٹرنگ آفسرز یا آرمز فورسزز سے رابطہ نہ ہو سکے۔ پورے پاکستان
میں کوئی ایسا شہر نہیں ہو گا جہاں پریذایئڈنگ اور اسٹاف کو خطرے کا سامنا کرنا پڑا
ہو گا۔ جس بھی علاقے میں جس بھی پارٹی کا زور تھا وہاں ہتھیار کے ساتھ لوگ اسٹیشن
میں گھس کر وہاں خواتین کے ہاتھوں سے سامان چھینا گیا۔ چاہے بیلٹ پیپرز ہوں،
موبائلز یا نتیجہ ہو۔ پولنگ اسٹاف کو یرغمال بنایا گیا ۔ اُن پر پستول رکھی گئیں۔
اُن کو کمروں میں بند کیا گیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ ہم کو (clean chit) دی گئی ہے کہ
ہم جو چاہیں کریں ہم کو نہ پولیس روُکے گی نہ رینجرز اور نہ فوج۔
یہاں تک کے بیلٹ پیپرز اُٹھا کر لے گئے اور پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد وہ تمام
بیلٹ پیپرز واپس دے کر گئے اور یہ بول کر گئے کہ اب نتیجہ بناؤ اور خیال رکھنا کہ
وہی ووٹوں کی تعداد وہی ہونی چاہیے کیونکہ ہم کاؤنٹ کر کے آئیں ہیں۔ مرد حضرات کو
جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی اور کہیں مارا بھی گیا ہے۔ خواتین پولنگ اسٹیشن
میں مرد پولنگ ایجنٹ بلا خوف و خطر گھوم رہے تھے۔ اس ساری صورتحال میں پولیس خاموش
تماشائی بنی بیٹھی رہی۔ پولنگ اسٹیشن میں پریذایئڈنگ آفیسر سے نتیجہ لے کر پھاڑ کر
چلے گئے۔ ایک عمارت میں دو پولنگ اسٹیشن تھے اُن میں سے اُوپر والے حصے میں مردوں
کا پولنگ اسٹیشن تھا۔ اس میں صبح 8:30 بجے تک کچھ لڑکے گھس کر بیلٹ پیپرز اپنے ساتھ
لے گئے۔ علاقے کے(S.H.O) صاحب کچھ دیر بعد آئے تو گراؤنڈ فلور میں جو کہ خواتین کا
پولنگ اسٹیشن تھا وہاں کی پریذایئڈنگ آفیسر نے S.H.O سے درخواست کی کہ یہاں لیڈی
پولیس کو بھیج دیں اُس پر S.H.O صاحب نے کہا کہ میں یہ نہیں کروں گا کیونکہ میرے
پاس 90 اسٹیشن ہیں اور میں نے کہیں بھی لیڈی پولیس نہیں بھیجی ہے۔ میں نے یہ دو
پولیس کانسٹیبل دے دیئے ہیں ۔
اور جاتے ہوئے اُن پولیس والوں کو یہ بول کر گئے کہ تم اپنی آنکھ، کان اور منہ بند
رکھنا۔ اِس سے پہلے بھی الیکشن ہوئے ہیں اور اُس میں ہلکی پھلکی دھندلی ہوئی ہے
لیکن اِس سال کے الیکشن تاریخ کے بدترین الیکشن ہے۔ کچھ پولنگ اسٹیشن خاص طور پر
وڈیروں کے فارم ہاؤس پر بھی بنائے گئے وہاں لیڈی پریذائیڈنگ آفیسر اور اُسکے اسٹاف
سے 6سال کے بچوں سے بھی ووٹ ڈلوایا گیا اور کہا گیا کہ یہ بھی سائیں کو ووٹ دے گا۔
وہاں پولنگ ایجنٹ بھی مرد تھے اور اسٹاف کو یہ کہتے رہے کہ ووٹ سائیں کو ہی ڈلوانا
ہے۔اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی کہ لیڈی الیکشن اسٹاف کو الیکشن سے ایک دن پہلے
فارم ہاؤس میں رات بھی قیام کرنا پڑی۔ کیونکہ اسٹاف کی رہائش سے کافی دُور اسٹیشن
بنایا گیا ۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد نتیجہ جمع کروانے کے لئے جب اسٹاف سینٹر پہنچتا
ہے تب بھی مرد اور عورتوں کا ایک ہی جگہ انتظام رکھا گیا ۔ خواتین رات بھر سینٹر
میں دھکے کھاتی رہیں۔
کوئی رات 4:00 بجے اور کوئی صبح 10:00 بجے گھروں کو پہنچا ہے۔ ان تمام خواتین میں
بہت ساری چھوٹی عمر کی لڑکیاں بھی تھی اور ضعیف بھی تھیں۔ اس سال کے بدترین تجربے
کے بعد ہم سب خواتین نے فیصلہ کیا ہے کہ اب خواتین پریذائیڈنگ آفیسرز نہیں بنیں گی۔
جب تک اُن کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت نہیں لیتی۔ میں چیف جسٹس آف
پاکستان سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتی ہوں کہ خواتین کی اس طرح کی تذلیل سے بچائیں۔
آخر میں یہ ہی دُعا کرتی ہوں کہ "اللہ ہمارے سیاست دانوں کو عقل دے کہ وہ کبھی اپنی
محنت اور سچائی سے الیکشن جیتیں۔ اور حکامِ بالا کے دل میں احساس دے کہ وہ الیکشن
کی ڈیوٹی کو خواتین کے لئے آسان بنائیں اور ان کی عزت و حرمت کا خیال رکھیں۔"
(آمین)
|