لے گا اور کیا ظالم امتحان شیشے کا

(پاکستان کے زبوں حال نظام امتحان کا مختصر جائزہ)


راجہ محمد عتیق افسر
سابق ڈپٹی کنٹرولر امتحانات ناردرن یونیورسٹی نوشہرہ
03005930098, [email protected]

ایک دفعہ امام ابو حنیفہ ؒ اپنے شاگرد رشید امام ابویوسف ؒ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ دوران سفر نماز فجر کا وقت ہوا اور تیاری کرتے کرتے وقت بہت کم رہ گیا۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے امامت کے لیے اپنے شاگرد کو آگے کر دیا ۔ امام ابو یوسف ؒ نے مختصر ترین سورتیں تلاوت فرما کر نماز پڑھا لی حالانکہ فجر کی نماز میں طویل قرأت کی جاتی ہے۔جونہی آپ نے سلام پھیرا امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ اب آپ فقیہہ بن گئے ہیں ۔یہ اسلام کے سنہری دور کا ایک واقعہ ہے جو اس دور کے نظام امتحان کو واضح طور پر بیان کرتا ہے ۔امام صاحب نے شاگرد کو امامت کے مصلے پر کھڑے کرنے کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ شاگرد اس صورتحال سے کیسے نبرد آزما ہوتا ہے ۔ جب آپ نے دیکھا کہ شاگرد نے مسئلے کو عمدگی سے حل کیا ہے تو انہوں نے شاگرد کو فقہ کا ماہر تسلیم کر لیا۔یہاں نہ تو امتحان کا اعلامن کیا گیا ،نہ ہی پرچہ سوالات تیار کر کے شاگرد کو تھمایا گیا اور نہ ہی شاگرد نے لمبی چوڑی وضاحتیں دے کر اپنی قابلیت ثابت کی لیکن استاد نے جو کچھ طالب علم کو ودیعت کیا تھا اس کی جانچ ہو گئی ۔آج ہم اکسویں صدی میں داخل ہو گئے ہیں اب یہ طریقہ امتحان کہیں عنقا ہو گیا ہے ۔ اس کی جگہ لارڈ میکالے کے لائے ہوئے نظام تعلیم کے نظام امتحان نے لے لی ہے ۔ مسلم عہد میں امتحانات کا نظام موجود مروجہ نظام سے یکسر مختلف تھا۔ اس عہد کے مدارس میں خواہ پڑھنے والوں کی تعدادزیادہ ہو یا کم کسی ایسے نظام کا پتہ نہیں چلتا جہاں ناظم امتحانات واضعین سوالات اور ممتحنین کے ادارے موجود ہوں ۔برصغیر میں مدرسہ فیروز شاہی دہلی ہو، مدرسہ رحیمیہ دہلی ہو ، ثمر قند و بخارا کی علمی درسگاہیں ہو ں، مصر ، عراق یا شام کی کو کوئی جامعہ ہو یا مراکش و قرطبہ کی دانشگاہیں ہو ں ان سب کے جائزے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عالم اسلام کے ان تمام مدارس میں کوئی مربوط نظام امتحان موجود نہیں تھا حالانکہ ان اداروں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم تھے ۔ مروجہ طریق امتحان کا جس سے آج ہم آشنا ہیں اور جو ہماری تعلیمی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے وہ خود مسلمانوں کے قائم کردہ نظام میں کہیں نہیں ملتا۔
مسلم عہد میں تعلیم ایک فریضہ گردانی جاتی تھی ۔ علم کا حصول اور اس کی تدریس دونوں کو فرض کی حیثیت حاصل تھی اور اس سے وابستہ افراد تعلیم او رتعلم کو ایک فریضہ سمجھ کر انجام دیتے تھے ۔ اس دور میں خارجی امتحانات اور انجانے تحریری جائزے کا کوئی رواج نہ تھا۔ یہ جائزہ تمام تر داخلی ہوتا تھا، جس میں ممتحن امید وار کی صلاحیت سے بخوبی واقف ہوتا تھا۔ اس میں ذاتی پسند یا نا پسند کا کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے کہ معلم محض اس لیے معلم ہوتا تھا کہ وہ بحیثیت مسلمان علم کی ترویج کو ایک دینی فرض سمجھتا تھا چاہےوہ بطور مدرس کسی درسگاہ سے وابستہ ہو یا خودا پنی تعلیم گاہ ، مسجد یا خانقاہ میں درس دیتا ہو۔ اس دور میں امتحان معلم کا اپنا ذاتی جائزہ ہوتا تھا جو وہ تدریس کے زمانے میں لیتا رہتا تھا۔ یہ جائز ہ متعلم کی روزمرہ کی تعلیمی پرداخت اس کی سوجھ بوجھ، اس کی فہم وفراست ،اس کی علمی بصیرت ،اس کے اخلاق واطوار حتی کہ اس کے شب وروز کا ایک ایسا ریکارڈ ہوتا تھا جومعلم کے ذہن اور اس کی آنکھوں میں محفوظ رہتا تھا اور پھر جو کچھ متعلّم کو سکھایاجا تا اور وہ سبق اگلے روز اسے یاد نہیں تو سابقہ تدریس کا اعادہ کیا جاتا اور تعلیم بالتكرار اس وقت تک جاری رہتی جب تک متعلم کو اس پر قدرت حاصل نہ ہو جاتی ۔اسی طرح اعلیٰ مدارج میں بھی جائز ہ یا امتحان بحث وتمحیص اور فکر ونظر کی بالیدگی کا ہوتا اور جب تک متعلم میں اتنی دست گاہ نہ پیدا ہو جاتی کہ وہ علماء کی مجلس میں بیٹھ کر اپنے میدان اختصاص میں مدلل اور مؤثر گفتگو کر سکے اس وقت تک اس کے سر پر دستار فضیلت نہیں باندھی جاتی تھی ۔متعلم کو اپنے معلم کی رائے سے اختلاف کرنے اورا سے اظہار کرنے کا حق تھا اور ہماری تاریخ میں اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جہاں اپنے دلائل و براہین سے متعلم نے بعض مسائل اور علم کے بعض پہلوؤں پر اپنے اساتذہ سے اختلاف کیا۔ اس لیے کہ علمی اختلاف فکر و نظر کو آ گے سوچنے اورنئی راہیں نکالنے کا موقع عطا کرتا ہے ۔ انگریز استعمار نے تعلیم کو روزگار کا ذریعہ بنایا اور اب یہ ایک تجارت یا ایک صنعت کا درجہ اختیار کر گئی ہے ۔ تعلیم کو مادیت کا شکار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس میں سے تعلیم و تربیت کا عنصر نکل گیا اور امتحان اور سند باقی رہ گئی ۔اس تجارت کی بڑھوتری کے لیے یہ امتحانات ،امتحانی بورڈوں یو نیورسٹیوں اور اعلی انتظامی عہدوں کے لیے چارے کا کام کرتے ہیں ۔اس طرح امتحان منزل کا کام دیتا اور اس منزل تک پہنچانے والا نصاب محض راحلہ کا کام دیتا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی افادیت نہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ نصاب کے مندرجات جو حصول علم کا ذریعہ ہوتے ہیں منزل قرار پاتے اور امتحان محض ایک جائزہ کہ کتنی مسافت طے پاگئی ہے اورکتنی باقی رہ گئی ہے ۔
اگر مغرب کے مادی نظام تعلیم کو بھی دیکھا جائے تو جو نظام امتحان تمام دنیا میں رائج ہے ہمارے نظام امتحان سے مختلف ہے ۔ ہم اکسویں صدی میں جی رہے ہیں لیکن ہمارا نظام امتحان نو آبادیاتی نظام کی باقیات ہے ۔ مشینری کی بات کی جائے ، تکنیک کی بات کی جائے یا عمل کی بات کی جائے ہم ابھی تک نو آبادیاتی دور کا نظام امتحان لے کر بیٹھے ہیں جس میں کوئی جدت نہیں آئی۔ اگرچہ قیام پاکستان کے بعد کئی بار نظام امتحان کو بدلنے کی بات ہوئی لیکن یہ نشستم گفتم ، خردن اور برخاستم سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔وطن عزیز کے تعلیمی اداروں میں رائج نظام امتحان ایک ناقص اور غیر معیاری نظام امتحان ہے ۔نظام امتحان کی خامیوں پہ بات کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ ہمارا نظام امتحان ہے کیا ۔
امتحان ایک پیمانہ ہے جس سے متعلم کے اکتساب علم کو نا پا جا تا ہے اور یہ تعین کیا جا تا ہے کہ اس نے ایک موضوع پر کیا کچھ پڑھا ہے اور جو کچھ اس سے استنباط کیا ہے اس کی نظری اور عملی شکل کیا ہے ۔امتحان طالب علم کی معلومات، اسکے فہم اور اسکی تطبیق پہ دسترس معلوم کرنے کا عمل ہے ۔ لیکن وطن عزیز میں ہم صرف یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ درسی کتب سے کتنا مواد ذہن میں محفوظ ہوا ہے اور طالب علم اسے کس حد تک جوابی شیٹ پہ اتارنےکی صلاحیت رکھتا ہے۔تعلیمی امتحانات اصلاحِ تعلیم کا نقطہ آغاز ہوتے ہیں۔ جب امتحانات کی اصلاح نہیں کی جاتی تو وہ گھن کی طرح آہستہ آہستہ پورے نظام کو کھا جاتے ہیں بالفاظ دیگر ناقص امتحانات تعلیمی گراوٹ کو سہارا دے کر اسے رواں دواں رکھتے ہیں اور بلا آخر نظام تعلیم ہی زمین بوس ہو جاتا ہے۔ پوری دنیا میں امتحانات کی اصلاح کے لئے انقلابی اصلاحات ہوئی ہیں اور اب ہمارے پاس جدید سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں موجود ہیں ضرور ت سیاسی ارادے اور ترجیحات تبدیل کرنے کی ہے۔ ماضی قریب میں ٹیکنالوجی کو استعمال کوشش تو ضرور کی گئی مگر یہ کام کمپیوٹر کے ماہرین کو دے دیا گیا جو امتحانات کے فلسفے اور روایات دونوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس طرح کی غیر سنجیدہ کاوشوں کی وجہ سے ہمارا نظام امتحان پہلے سے بھی ابتر حالت میں چلا گیا ۔
ہمارا نظام امتحان چار بڑے مراحل پہ مشتمل ہے ۔ دنیا میں ہر جگہ ہر ایک مرحلے کے تفصیلی معیارات اور انکے حصول کے لئے رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں اور ان پر عمل درامد ہوتا ہے ۔ وطن عزیز میں اصولوں پہ عملدرامد کا فقدان چلا آرہا ہے ۔ یہ چار مراحل مندرجہ ڈیل ہیں ۔
ا) پرچے کی سائنسی بنیادوں پر تیاری
ب) پرچے کا انعقاد اور یکساں امتحانی ماحول کو یقینی بنانا
ج) پرچوں کی جانچ اور نمبر لگانا
د) نتائج کی تعبیر اور اور نتائج کی فراہمی
پاکستان کے نظام امتحان اور اس کے مراحل سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد اس کو لاحق بڑے بڑے مسائل کو جاننے کی کو شش کرتے ہیں جو ہمارے نظام تعلیم کے انحطاط کا سبب بنتے جا رہے ہیں ۔
1) غیر مساوی امتحانات
پاکستان کے نظام تعلیم میں غیر یکسانیت ہے ۔ ایک جانب سرکاری تعلیمی ادارے ہیں تو دوسری جانب نجی تعلیمی ادارے ہیں پھر ایک جہاں دینی مدارس کا بھی آباد ہے ۔ جہاں ان کا نصاب یکسانیت نہیں رکھتا وہیں ان کے امتحانات بھی مختلف ہوتے ہیں ۔دوسری جانب او لیول اور اے لیول کے امتحانی نظام ہیں جو اس ملک کے تعلیمی اداروں کے لئے وضع ہی نہیں کیے گئے ۔ اس طرح امتحانات ایک ہی درجے کے طلبہ کو ایک ہی طرح سے نہیں جانچتے یو ں یہ ناقابل بھروسہ ہیں ۔
2) غیر معیاری امتحانات

کسی بھی امتحان کے معیاری ہونے کے لیے دو شرائط ہیں
1۔ اوّل یہ کہ اس کے جواز (validity) پر کوئی شک و شبہ نہ ہو ۔ مثلاً اگر معاشرتی علم کا پرچہ انگریزی زبان کا امتحان لینے لگ جائے تو اس پرچے کا جواز ہی ختم ہو جائے گا
2۔دوم اس کا جائزہ (Result)قابل اعتمادہونا (Reliable)چاہیے۔ جب ایف ایس سی کا نتیجہ اور میڈیکل انٹری ٹیسٹ ایک ہی بچے کی قابلیت کی دو متضا د رپورٹس دیں گے تو دونوں پر بھروسہ ختم ہو جائے گا۔
اگر ہم اپنے نظام امتحان کو پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو اس میں جواز پایا جاتا ہے نہ ہی ان کے نتائج قابل اعتماد ہیں ۔ مثلا کسی بھی مضمون کا پرچہ اٹھا کر دیکھیں آپ کو احساس ہوگا کہ یہ اس مضمون کی جانجچ سے زیادہ انگریزی کی جانچ کا ذریعہ ہے ۔ایسی صورت میں یہ امتحان اپنا جواز ہی گنوا بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد جب نتائج آتے ہیں تو وہ حیران کن ہوتے ہیں ۔ حاحل کردہ درجات کل درجات سے بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ یا پھر درجات کو جمع کرنے میں بڑی بڑی غلطیاں سامنے آتی ہیں ۔ اس سے یہ امتحان ناقابل اعتماد ہو جاتا ہے ۔ پھر اس کا بھرم اس وقت مزید ریزہ زیزہ ہو جاتا ہے جب انٹری ٹیسٹ کے نتائج طالب علم کا بالکل ہی برعکس جائزہ پیش کر دیتے ہیں ۔اسی طرح کیمبرج سسٹم کے تحت لیا گیا امتحان نہ تو جواز رکھتا ہے نہ ہی قابل اعتماد ہے کیونکہ اسے اس سرزمین کے طلبہ کے لیے بنایا ہی نہیں گیا جن کے لیے یہ قابل اعتماد ہے ان کی صورتحال یہاں کے طلبہ سے یکسر مختلف ہے ۔ ایسا امتحان جس کی جوازیت بھی مشکوک ہو اور وہ قابل بھروسہ بھی نہ ہو تو اس کے ہونے اور نا ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔
3) غیر معیاری پرچے اور گرتا ہوا تعلیمی معیار
پر چے کی تیاری کا تعلیمی معیار سے گہرا تعلق ہے۔ پرچہ اگر سارے نصاب پر محیط نہیں ہو گاتو بالآخر نصاب کے بعض ایسے حصے جو امتحان میں بالعموم مسلسل چھوڑ دیے جاتے ہیں مستقل طور پرمعطل ہو جائیں گے ۔ یہی وجہ ہے گیس پیپرز اور کوچنگ سنٹرزکا کاروبار عروج پرہے۔ اساتذہ بھی اہم سوالات کی نشاندہی کر کے نصاب پڑھاتے ہیں -گویا امتحانی سوالات اور جوابات دونوں خریدے جا سکتے ہیں۔دوسری جانب ایک ایسا پرچہ جس میں دس یا کم سوالات ہوں وہ پورے کورس کا احاطہ کیونکر کر سکتا ہےاور اگر ان دس سوالات میں کوئی سے پانچ سوالات کرنے کی رعائت بھی دے دی جائے تو نصاب کی تکمیل کا جائزہ ناممکن ہے۔
معروضی سوالات ایک اچھا طریقہ ثابت ہو سکتا تھا لیکن مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ معروضی سوالات بھی بڑے غیر معیاری دیے جا رہے ہیں جو صرف طلبا کے حافظے کی پرکھ کرتے ہیں فہم و فراست نہیں۔ ایسی صورت میں یہ دعوی کرنا مضحکہ خیز ہو گا کہ نصاب کے مقاصد کی تکمیل ہو ئی ہے یا نہیں ۔ معروضی سوالات کی تیاری پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے لئے فنی مہارت درکارہے۔ یہ مہارت پیدا کرنے والے اداروں کی تعدادہمارے ہاں نہ ہونے کے برابرہے جبکہ ان کی ضرورت کئی زیادہ ہے ۔محض نصاب کی حد تک بات ہو تب بھی برداشت کر لی جائے لیکن پرچے کی رازداری ہی مشکوک ہو جائے اور سیاسی افراد یا چند مافیا یہ پرچے حاصل کر کے کالا دھن بناتے چلے جائیں تو پرچے کا جواز بھی نہیں رہتا اور اس کا بھرم بھی پارہ پارہ ہو جاتا ہے ۔دور جدید کے معیارات کے مطابق ہمارے پرچے معیاری نہیں ہوتے کیونکہ
1. پرچہ طلبا کی ذہنی سطح اور نصاب کے مطابق نہیں ہوتا۔
2. پرچے کا ہر ایک سوال نکمے اور قابل طالب علم میں تفریق نہیں کر سکتا۔
3. پرچہ تمام امیدواروں سے پوشیدہ نہیں رہتا بلکہ بعض پر منکشف ہو چکا ہوتا ہے ۔
بڑی تعداد میں پرچوں کی تیاری اور ترقی کے ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ ایسے پرچے تیارکیے جا سکیں جن میں نقل کرنے کی گنجائش ہی موجود نہ ہواور طلبا کی کارکردگی کا ٹھیک ٹھیک انداز ہ لگا سکیں۔ اس کے لئے ایک خود اختیار ادارے کا قیام ضروری ہےجس میں جدید ماہرین امتحانات تعینات کیے جائیں۔ انکا کام پرچہ جات کے لئے سوالات کی تیاری اور ان میں مزید بہتری کے لئے کام کرنا شامل ہو۔ مزید یہ کہ یہی ادارہ امتحانات میں جدت اور جدید ٹیکنالوجی کے موزوں استعمال کے لئے جدید نظام وضع کرے۔
4) انعقاد امتحان کے ناقص انتظامات
امتحان کے انعقاد کے لیے بنیادی اصول یہ کہ امتحانی شرائط اور ماحول (Testing Conditions)سب کے لئے یکساں ہونا چاہیے۔ ایسا جبر کا ماحول بھی نہیں ہونا چاہیے کہ طلبا نفسیاتی دباؤ میں آکر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ بعض اوقات امتحانی کمرہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں طلبا کے درمیان فاصلہ پانچ فٹ نہیں رہتا۔ اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ امتحانات میں استعمال ہونے والے تما م کمروں کا پیشگی جائزہ لے کر کمرہ امتحان بنانے کی اجازت دی جائے۔
5) نقل اور ناجائز حربوں کا استعمال
پاکستان کے نظام امتحانات کا سب سے بڑا مسئلہ نقل ستانی اور ناجائز حربوں کا استعمال ہے ۔ نقل کے لیے باضابطہ مافیا میدان عمل میں موجود ہے ۔اساتذہ ، ممتحنین اور بورڈ کا عملہ مل کر اس مافیا کوچلاتے ہیں ۔اب تو والدین ان مافیا کو پیسے دیتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کو اچھے نمبروں سے پاس کر دیا جائے ۔نقل اور ناجائز ذرائع کے استعمال نے ہمارے نظام تعلیم کو گہنا کر رکھ دیا ہے ۔
6) پرچوں کی جانچ اور نمبر لگانا
پرچہ جات کی جانچ کے مرحلے پر بھی بد عنوانی اقربا پروری اور سفارش ہمارے امتحانی نظام کا بھرکس نکال دیتی ہیں ۔جہاں پر سیمیسٹر سسٹم رائج ہے وہاں اکثر طلبہ و طالبات ذاتیات کا شکار ہوتے ہیں ۔ اکسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود ہم جانچ کے روائیتی طریقوں پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ ہم عصر دنیا اس وقت مشینوں کے ذریعے جانچ کا کام لے رہی ہے ۔ مشینی جانچ کاری سے بغیر غلطی کے منصفانہ چانچ کے معیار کو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ مارکنگ کا موجودہ نظام ناقص، غیر منصفانہ اور جانب دارانہ ہے اور یہ دنیا کے کسی خطے میں استعمال نہیں ہوتا۔ لہذا اسے فی الفور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ایسی کمپیوٹرائزڈ مشینیں آ چکی ہیں جو ایک گھنٹے میں ہزاروں پرچے بغیر غلطی کیے مارک کر دیتی ہیں۔یہ مشینیں ایک طرف تو جانچ کاری کرتی ہیں تو دوسری جانب ان سے پرچے کی کوالٹی کی جانچ بھی کی جا سکتی ہے۔دو مختلف الخیال افراد نے اگر پیپر چیک کیے ہوں تو ان کی مارکنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔ اب ایک طالب علم کے پرچے اگر لا پرواہی سے چیک کیے گئے ہوں تو اسے ڈھیلے ڈھالے نمبرات عطا ء ہوئے ہوں گے جبکہ اسی طرح کا دوسرا پرچہ ایک سخت گیر ماسٹر صاحب کے ہتھے چڑھ جائے کو ہر طالب علم کی درگت بنا لی جاتی ہے ۔ اس صورتحال میں دونوں جانج زیادتی اور ناانصافی سے کام لیا جاتا ہے۔تمام امیدواروں کے پرچہ جات ایک فارمولے اور ایک معیار کے مطابق نہیں پرکھے جاتے ۔ یہ جانچ کا نظام مبنی بر انصاف نہیں بلکہ مبنی بر ظلم ہے ۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو پرچہ جات پر لگائے نمبر حتمی نہیں ہوسکتے۔ جب تک انہیں ہر لحاظ سے جانچ پڑتال کرکے دیکھ نہ لیا جائے کہ وہ ہر لحاظ سے بچے کی صلاحیت کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ اس کام کے لئے سائنسی طریقہ کار طے کر دیا گیا ہے۔ اس فارمولے کے ذریعے حقیقی نمبر نکالے جاتے جو طلبہ کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ اس فارمولے میں خوبی ہے کہ یہ امتحان کے دوران پیدا ہونے والی نا ہمواریوں (Inequalities) کو دور کر دیتا ہے۔
7) نتائج کی تعبیر اور اور نتائج کی فراہمی
پرچہ جات کی جانچ کے بعد ان کے نتائج کی تعبیر بھی درست طریقے سے نہیں کی جاتی ۔ نتائج کے اعلان کے بعد بورڈ اور یونیورسٹی کے دفاتر کے باہر قطاریں لگ جاتی ہیں ۔ طلبہ اپنے نتائج سے مطمئن نہیں ہوتے اور نظر ثانی کی درخواستیں دیتے ہیں ۔ ان درخواستوں کے مطابق ازسر نو جانچ نہیں کی جاتی بلکہ حاصل کردہ نمبرات کو دوبارہ گنا جاتا ہے ۔ اور اکثر گنتی میں فرق پایا جاتا ہے ۔ جو لوگ ایک پرچے کے نمبرات جمع نہیں کر سکتے ان کی پرچے کے بارے میں جانچ کاری کا معیار ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔ ثانیا ایک ادارے میں ڈیٹا انٹری کے لیے عملہ بھرتی کیا گیا ہے جو یہ معاملات دیکھتا ہے ۔ اس مرحلے پر بھی بڑی بڑی غلطیوں کا ہونا ایک تشویشناک بات ہے ۔
نظام امتحان میں اصلاح
پاکستان میں مختلف الخیال لوگوں نے مختلف ادوار میں نظام امتحان کی اصلاح کے لیے مختلف تجاویز پیش کی ہیں ۔اگرچہ ان تجاویز پہ شا ذہی عمل درامد ہوا ہے ۔ذیل میں چند تجا ویز دی جاتی ہیں تاکہ ہمارا نظام امتحان کم از کم باقی دنیا کے مادی تعلیمی نظام کے ہم پلہ تو ہو سکے ۔
1) تمام ملک میں یکساں نصاب ہو اور ایک ہی مقتدرہ ہو جو امتحان لے ۔ البتہ امتحان کے لیے تربیت یافتہ عملہ لیا جائے جو امتحان کے فلسفے اور اس کی روایات کو سمجھتا ہو۔
2) جامعات چونکہ خودمختار ادارے ہیں اس لیے کسی بورڈ کی پابند نہیں ہوتیں اس لیے ایچ ای سی کو چاہیے کہ ان کے نظام امتحان پہ خصوصی نظر رکھے ۔سمسٹر سسٹم کے تحت در آنے والی خامیوں کو دور کرے اور جائزے کا فعال نظام اس کے متبادل کے طور پر سامنے لائے۔
3) امتحانات کی اصلاح کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ جدید اصولوں کے مطابق اسے نئے سرے سے استوار کیا جائے۔ اور انسانی دخل اندازی کو خارج از امکان کر دیا جائے۔
4) پرچوں کی کی تحقیق وتشکیل کے لئے ایک الگ آزاد و خود مختار بورڈ بورڈ تشکیل دیا جائے۔ جو ہر مضمون کے الگ الگ آئٹم بینک تیار کرے۔ جو قومی ایس ایل اوز (SLOs)کے مطابق میعاری پرچہ جات تیار کرے۔ ہر پرچہ کے کئی متبادل تیارکیے جائیں تاکہ نقل کو روکا جا سکے۔
5) امتحانات میں بد عنوانی روکنے کے لئے ان کے انعقاد کے لئے اساتذہ میں سے بہتر عملہ معقول معاوضے پر تعینات کیا جائے۔ اقربا پروری اور بدعنوانی کرنے والے کا فوری احتساب ہو۔
6) مارکنگ کے نظام کو کنڈکٹ سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ مارکنگ کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔
7) جامعات میں امتحانات کا اعلی تعلیم یافتہ عملہ تیار کرنے کے لئے نئے شعبہ جات قائم کیے جائیں۔
اگر ہم کوئی خیر کا نظام چاہتے ہیں تو ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہو گا ۔ ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ عمل میں لائیں ۔ اسلامی نظام تعلیم کا نظام امتحان وہی ہو گا جس کا تذکرہ ابتدائی چند سطور میں کیا جا چکا ہے ۔اس نظام تعلیم تک پہنچنے کے لیے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل ناگزیر ہے جس کے بغیر یہ منزل حاصل نہیں کی جا سکتی ۔وطن عزیز کے پڑھے لکھے طبقے پہ لازم ہے کہ وہ ان حلقوں کے دست و بازو بنیں جو تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اور وہ اسلامی نظام تعلیم کو نافذ کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہوں ۔ان شاء اللہ وطن عزیز میں وہ وقت ضرور آئے گا جب ایک معیاری اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ عمل میں آئے گا اور ملک کے طول و عرض میں ہر شخص اس کے ثمرات سے فیض یاب ہو گا۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105306 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More