فیصل آباد سے متعلق' اشرف اشعریؔ بہت لائق اور محنتی ادیب ہیں اور ہمہ وقت کسی نہ کسی سنجیدہ کام میں مصروف رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری بھی اہل ذوق اور صاحبان فکرونظر کی توجہ کا مرکز رہی کہ فطری رجحان طبع، نظریاتی جھکاؤ اور انسانیت نوازی کی وجہ سے ان کا شعری مزاج بھی واضح طور پر ایک مخصوص انفرادیت کا حامل ہے کہ انسانی رشتوں، جذبوں اور اقدار کے حوالے سے وہ ایک بہت درد مند ، ذمے دار اور صاحب طرز لکھاری ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی زیست اور فن کے حوالے سے ان سے ایک طویل نشست ہوئی ۔جو نذر قارئین ہے ۔۔
پیدائش: اشرف اشعریؔ یکم جنوری 1966ء میں پیدا ہوئے۔ "فیصل آباد کی تاریخ" میں اشرف اشعری کے مختصر تعارف بارے لکھا ہے: ’’آپ کی پیدائش 1966ء میں چک نمبر ۲۰۳ رب مانانوالہ خورد ، شیخوپورہ روڈ فیصل آباد میں ہوئی۔‘‘(۱) اپنی خودنوشت ’’یادوں کے میلے‘‘ میں اشرف اشعری ؔـ رقم طراز ہیں: سنی حکایتِ ہستی تو درمیان سے سنی نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا کی خبر میری پیدائش ۱۹۶۶ء کو میرے ننھیال واقع مانانوالہ چک نمبر ۲۰۳ رب (خورد) نزد نشاط آباد میں ہوئی۔مجھے نہیں معلوم کہ میری پیدائش پر گھی کے چراغ جلائے گئے یا خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے تھے۔‘‘(۲) نام و تخلص ہر عام انسان جب تک اُسے اپنے فن کا ادراک نہ ہو اس کی پہچان وہ نام ہوتا ہے جو اُسے والدین کی طرف سے ملتا ہے۔ آپ کا اصل نام محمد اشرف ہے۔ ’’اشعری‘‘ تخلص کرتے ہیں۔ بقول اشرف اشعریؔ: اپنی شاعری کے آغاز میں ’’اشرف فیصل آبادی‘‘ کا تخلص اپنایا تھا۔ ۱۹۸۷ء سے ’’اشعری‘‘ تخلص اپنایا۔‘‘(۳) خاندان، پیشہ اپنے خاندان کے بارے میں اشرف اشعریؔ اپنی ’’خود نوشت‘‘ میں لکھتے ہیں: میرے آباؤ اجداد قیامِ پاکستان سے قبل ہی امرتسر سے ہجرت کر کے ۸ چک کمال پور (پنجگرائیاں) سرگودھا روڈ پر آباد ہو گئے تھے جو کہ ذات کے گادھی (گادی، گدی) راجپوت تھے۔‘‘(۴) ایک بڑا ذہن وہی ہوتا ہے جو تخلیقی بھی ہو اور تاریخی بھی۔ اشرف اشعریؔ نے اپنے آباؤ اجداد ان کی ذات اور پیشے کو تفصیل سے اپنی خودنوشت ’’یادوں کے میلے‘‘ میں لکھا ہے۔ اپنی ذات اور اُن سے جڑے تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میرے بڑے بزرگ ذات کے گادھی راجپوت اور پیشے کے لحاظ سے اپنے گاؤں اور اس کے گردو نواح کے دیہات چک رام دیوالی، بھولے وال، کڑی ولاں، ملاں پور اور پھمی پور وغیرہ میں چھیمبے (دھوبی) مشہور تھے۔ میرے بڑوں نے اپنی دن رات کی محنت شاقہ کے باوصف ملوں کی ملازمت کو خیر باد کہا اور ۱۹۶۷ء میں شہر میں پرنٹنگ پریس کا کام شروع کر دیا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پورے ایشیا میں بڑے فخر کے ساتھ اس ادارے (اعظم پرنٹنگ پریس) کا نام لیا جاتا ہے۔‘‘(۵) بچپن : بچپن ہر انسان کی زندگی کا ایک ایسا دور ہوتا ہے جس کو وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا پھر چاہے تو اس سے اچھی یادیں جڑی ہوں یا بُری۔اشرف اشعریؔ بتاتے ہیں: ’’میرا بچپن زیادہ تر ددھیال واقع پنجگرائیں ۸ چک کمال پور، سرگودھا روڈ فیصل آباد میں گزرا۔میرے دادا فضل دین مرحوم مجھے بتایا کرتے تھے کہ ہمارے آباؤ اجداد امرتسر کے رہنے والے تھے مگر ہم شروع سے اسی گاؤں میں رہتے تھے۔ یہ گاؤں شروع شروع میں ایک بہت بڑے جھونپڑے کی طرز پر بنا ہوا تھا۔ جہاں لوگ بڑے سلوک و اتفاق سے رہتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک گاؤں کی شکل اختیار کر گیا۔‘‘ (۶) موجودہ رہائش: اشرف اشعریؔ کی موجودہ رہائش گاہ چنیوٹ بازار گلی نمبر۳ جامع کلاتھ مارکیٹ میں ہے۔ آپ بتاتے ہیں: ’’غالباً ۱۹۷۳ء میں میرے بڑوں نے گاؤں والا مکان بیچ کر چنیوٹ بازار والے مکان میں مکمل سکونت اختیار کر لی۔ اس مکان کی رجسٹری ۱۹۳۲ء کی ہے جو میرے پردادا ’’بابا جھنڈا‘‘ کے نام تھی۔‘‘ (۷) تعلیم: اپنے تعلیمی حالات کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’۱۹۷۵ء میں والد صاحب (محمد اسماعیل) میری اور میرے بڑے بھائی محمد ارشد (مرحوم) کی انگلی پکڑ کر ہمیں ایم سی پرائمری سکول منشی محلہ لے گئے۔ یہاں ہمیں پہلی کلاس میں داخل کروا دیا اور کلاس میں بٹھا کر واپس گھر آئے تو والدہ کو ہمارے سکول داخل ہونے کی خوشخبری سنائی تو والدہ نے خوشی میں گھی کے درجنوں چراغ جلائے۔‘‘(۸) تعلیم کے بارے میں بتاتے ہیں: ’’ابتدائی تعلیم ایم سی پرائمری سکول منشی محلہ فیصل آباد سے حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ پاکستان ماڈل ہائی سکول کچہری بازار سے پاس کیا۔ ایف۔اے اور بی۔اے کی ڈگری میونسپل ڈگری کالج عبداللہ پور فیصل آباد سے حاصل کی۔‘‘(۹) اشرف اشعری اپنی تعلیم کو مکمل نہ کر سکے۔ آپ بتاتے ہیں: ’’کچھ وجوہات کی بنا پر میں ایم اے اردو اور ایل ایل بی کے امتحانات نہیں دے سکا۔‘‘ (۱۰) روزگار شاعری جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ یہ علمی زندگی کا حصہ ہے نہ کہ عملی زندگی کا اور اس بات کو اشرف اشعری نے خوب سوچ سمجھ کر عملی زندگی میں قدم رکھا۔ آپ لکھتے ہیں: ’’۱۹۸۹ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد والد صاحب نے مجھے کہا کہ تم کو اب کوئی کام اختیار کرنے کے لیے غوروخوض کرنا چاہیے ۔ میں ابتدائے عمر ہی سے آزاد منش قسم کا آدمی تھا۔لہٰذا میرا شروع ہی سے یہ پروگرام تھا کہ مزید پڑھ لکھ کر اردو کا پروفیسر بنوں مگر قسمت کی دیوی مجھ سے ایسی ناراض ہوئی کہ میری تمنا پوری نہ ہو سکی۔اس وقت میری حالت غالب کے مصرع سے یوں متصادم تھی:ـ ع ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے(۱۱) اشرف اشعری اپنے کام کے بارے میں بتاتے ہیں: ’’بی۔اے کے بعد والد صاحب نے مجھے ۱۹۹۰ء میں اپنی ذاتی کپڑے کی دکان بنا کر دی۔ ایک سال تک یہ کام کیا۔ پھر لاہور میں ۱۹۹۱ء سے لے کر ۱۹۹۴ء تک آر۔این۔سکینر اینڈ پروسس ۵۰ لوئرمال میں مقیم رہا۔ وہاں پرنٹنگ پریس کی ٹریننگ مکمل کی۔مگر واپس آکر کپڑے کے کاروبار کے ساتھ ساتھ پرنٹنگ پریس کا کام بھی شروع کیا۔‘‘ (۱۲)
ازدواجی زندگی:
رشتہ ازدواج زندگی میں نئی راحتوں، مسرتوں اور رحمتوں کے باب کھولتا ہے۔ اشرف اشعری دوبار اس رشتہ سے منسلک ہوئے۔ آپ بتاتے ہیں: ’’پہلی شادی ۱۰ دسمبر ۱۹۹۲ء میں میری خالہ زاد (چچا زاد بھی ہیں)فوزیہ اشرف کے ساتھ ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے ۳ بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔‘‘ (۱۳) آپ کی خودنوشت کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ آپ اس شادی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے اور والدین کی خواہش کے احترام میں شادی کے لیے حامی بھرلی۔ آپ لکھتے ہیں:ـ ’’اس نشاط و طرب کے کسی لمحے میں میری کوئی دلچسی نہ تھی شاید کہ میرا ہی لکھا ہوا یہ شعر میرے آڑے آگیا جس نے مجھے متذبذب و متزلزل کر کے رکھ دیا تھا۔‘‘ کھیلا کرتا تھا میں شیشے کے کھلونوں سے کبھی آج احباب کے قدموں میں ہوں پتھر کی طرح(۱۴) اشرف اشعری کی شادی میں نادر جاجوی مرحوم ، بابا عبیر ابو ذری مرحوم اور فراز صدیقی مرحوم نے سہرے لکھے۔بابا عبیر ابو ذری کے لکھے ہوئے ’’سہرے‘‘ کا ایک بند: پڑھ بسم اللہ فرش دھوائے کلی پھرائی رنگ کرائے جھنڈیاں لائیاں گیٹ سجائے رنگ برنگے لاٹو لائے رشتہ دار قریبی آئے سجن وی تشریف لیائے نوٹ پرو کے ہار لیائے نینگر چن دے گل وچ پائے آنڈھ گواھنڈیاں جشن منائے اشرف اشعریؔ سہرے لائے(۱۵) نادرؔ جاجوی نے ’’دُعائے شکرانہ‘‘ کے نام سے سہرا لکھا: صفت ثناواں لکھ دُعاواں ربدے پاک دوارے جیہدی ذات کریم کرم تھیں سبدے کاج سنوارے لاجاں آپ نبیؐ سرور نوں جیہڑا نبیؐ پیارا جیہدے صدقے دو جگ اندر کن دا کل پسارا ایہہ سنت پیغمبرؐ والی جیہدی شان نیاری ایہہ ویلا سَے خوشیاں والا شکر کراں سَے واری _______ ۱۔ اللہ نے اج کرم کمایا سوہنا ویلا آیا موج خوشی ہر دل چوں اٹھی ہویا شوق سوایا ش۔ شادی بہت سعادت والی شاناں والی شادی اللہ قائم دائم رکھے ایہہ خانہ آبادی(۱۶) فراز صدیقی مرحوم کا لکھا ہوا سہرا کچھ یوں ہے: ہے بوئے گل بہارِ گلستان سہرے کے پھولوں میں ہے فردوسِ بریں کا اک سماں سہرے کے پھولوں میں حقیقت میں ہے اشرف اشعری اک چاند سا چہرہ درخشاں ہے برنگِ کہکشاں سہرے کے پھولوں میں سکونِ دل ہے اسماعیل کا نورِ نظر بھی ہے جو صدرِ انجمن ہے نوجواں سہرے کے پھولوں میں مسرت سے نہیں پھولے سماتی مادرِ اشرف کہ اُس کا لاڈلا ہے شادماں سہرے کے پھولوں میں(۱۷) اس شادی میں سب کی نیک تمنائیں شامل تھیں مگر خدا کی طرف سے کچھ آزمائشیں بھی تھی اور اپنی زندگی کی اس آزمائش کے بارے میں اشرف اشعری بتاتے ہیں: ’’میری بیوی عرصہ ۲۳ سال سے مبہوت الحواس کی زندگی گزار رہی ہے۔ میں آج تک شیرازۂ حیات کو سمیٹنے میں مشغول ہوں مگر بقول شاعر: زندگی ایک دیوار ہے کوئی شوریدہ سر چاہئے(۱۸) ان آزمائشی لمحوں میں اشرف اشعری کو ایک سہارے کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہی بات ان کی دوسری شادی کی وجہ بنی۔ اشرف اشعری کی دوسری شادی ۲۱ نومبر ۲۰۱۶ء میں ان کی کزن نازیہ اشرف کے ساتھ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ۲ بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔ (۱۹) ابتدائے شعر گوئی کچھ فن انسان دُنیا میں آکر سیکھتا ہے اور اس فن کو سمجھنے کے لیے عمر کا ایک حصہ بھی ضروری ہوتا ہے اور خاص تجربہ بھی مگر وہ صلاحیتیں جو قدرتی ہوں وہ آفاقی ہوتی ہیں اور ان صلاحیتوں سے آگہی بہت جلدی ہو جاتی ہے۔ یا یوں کہہ لے کہ جیسے ہی آپ اپنے شعور کی منزل پر پہلا قدم رکھتے ہیں۔ آپ کو اپنی صلاحیت کا ادراک ہو جاتا ہے۔ اشرف اشعری بھی ایسی ہی تخلیقی اور قدرتی صلاحیتوں کے مالک شاعر ہیں جن کو اپنے اس فن سے آگہی زمانہ طالب علمی میں ہی ہو گئی تھی۔یہ اُس دور کی بات ہے جب آپ نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ’’یادوں کے میلے‘‘ میں آپ رقم طراز ہیں:ـ ’’میں ۱۹۸۳ء میں نویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ یہ دور میرے لیے اس لیے بھی اہمیت کا حامل دور ہے کہ اسی سال مجھے شاعری کا شغف پیدا ہوا۔ دل بے غم کجا جوئم مجھے کب دردِ جاناں کی کسک نے جھنجھوڑا اور کس وقت دل میں جنس غیر کی ٹیس اٹھی۔ میں کلاس روم میں بچشم ِنم بیٹھا ہوا تھا۔ کسی کو میری حالت زار سے کوئی سروکار نہ تھا۔مگر بیک جنبش میرے منہ سے فی البدیہہ یہ شعر نکلا: تمہاری یاد آنے سے یہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں میرے منہ سے نکلا ہوا یہ شعر مجھے کسی استاد شاعر کے اس شعر کے مفہوم کے عین قریب لگا۔ اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے اس وقت مجھے بالکل بھی پتہ نہ تھا کہ اس کا وزن کیا ہے اور یہ کون سی بحر ہے۔‘‘(۲۰) یہ طالب علمی کا وہ زمانہ تھا جب اشرف اشعریؔ کو خود اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ ان کے اندر الفاظوں کا نیا پودا پنپ رہا تھا جن کی شاخیں شعروں کے روپ میں کھلیں گی اور دیکھتے ہی دیکھتے اب تناور درخت بن جائیں گی اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے اشرف اشعریؔـ نے یہ بوند بوند الفاظ سے شاعری کا ایک ایسا سیلابی ریلا بنایا جس کا تیز بہاؤ اپنا راستہ بناتا گیا اور اپنا نقش چھوڑتا گیا۔ ہر شاعر اپنے جذبات کو قلم بند تو کر لیتے ہیں مگر ان کے جذبات کی تسکین تب تک ممکن نہیں ہو پاتی جب تک وہ ان کا اظہار نہ کرے۔ ایک انٹرویومیں آپ بتاتے ہیں: ’’سیکنڈ ائیر (۱۹۸۶ء) میں میری شاعری لکھنے کی رفتار کسی کو بھی کسی فرسِ سبک رفتار سے کم نظر نہ آتی تھی۔ میں نے کالج دورمیں بتخلص اشرف فیصل آبادی‘‘غزلیں کہنا شروع کیں۔‘‘(۲۱) اشرف اشعریؔ کے استادِ محترم اشرف اشعریؔ نادر جاجوی مرحوم کے تلامذہ میں سے ہیں۔ آپ ان سے شاعری کی اصلاح لیتے رہے۔ نادر جاجوی سے ملاقات کا احوال اشرف اشعری کچھ یوں سناتے ہیں: ایک دن میں بشیر طلعت (کرایہ دار) کے دفتر گیا تو وہاں میرے سکول دور کے اردو کے ٹیچر نادر جاجوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے اس دن مجھے پتا چلا کہ آپ پاکستان کے اردو ، پنجابی کے مشہور و معروف صاحب کتب شاعرہیں۔ بشیر صاحب نے میرا ان سے تعارف کروانے اور ساتھ ہی مدعا بیان کرنے کے دوران اُن کامشہور زمانہ شعر سنایا۔ یہ شعر زبانِ زدِ عام ہوچکا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: تم آ گئے ہو تمہیں یاد کر رہا تھا میں تمہاری عمر بڑی ہو میرے دکھوں کی طرح انھوں نے میرے احساسات اور میرے طرزِ تغزل کو دیکھ کر مجھے اپنے حلقۂ تلامذہ میں لینے پر رضا مندی کا اظہار کیا ۔ میں نے نشاط و طرب میں فوراً مٹھائی منگوا کر شاگردی کی رسم کو پورا کرنے کی سعی بسیار کی۔ ایک مہینے کے اندر بشیر صاحب نے ان کی اصلاح شدہ غزلوں کی کتابت مکمل کر کے مجھے تھما دی۔میں اس دن بہت خوش تھا جب اکیس بائیس دنوں کے اندر میری پہلی شاعری کی کتاب ’’آہیں‘‘ دسمبر ۱۹۸۶ء میں چھپ کر میرے ہاتھوں میں آئی۔‘‘(۲۲) اشرف اشعری ایک منکسر المزاج شاعر ہیں جو فن اور فنکار دونوں کی قدر کرتے ہیں۔ اپنے استاد نادر جاجوی کے توسط سے اشرف اشعری کی ملاقات انورؔعلی بھٹی سے ہوئی اس ملاقات میں ہونے والے ایک واقعہ کو اشرف اشعری یوں بیان کرتے ہیں: ’’اچانک نادر جاجویؔ صاحب نے ان (انور علی بھٹی) سے کہا کہ یہ میرا شاگرد اشرف اشعری ہے اور آج کل مشقِ سخن کی طرف بہت متوجہ ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا! کوئی غزل ہی سناؤ۔ میں نے جھٹ کاغذ جیب سے نکالا اور یوں گویا ہوا۔ نہیں فِتویٰ جہاں میں تیرگی ہی کام آتی ہے بس ابھی مطلع کا مصرع اولیٰ ہی کہا تھا کہ وہ فوراً بولے۔ واہ واہ۔۔۔ کیا مصرع ہے۔۔ بہت خوب بیٹا! ایک بار پھر پڑھوں۔میں نے جب دوبارہ مصرع پڑھا تو جاجویؔ صاحب کی طرف منہ کر کے بولے۔ نادرؔ صاحب: اشعری صاحب نے کیا مصرع کہا ہے۔ اشعری صاحب کے کیا کہنے ہیں۔ جب انھوں نے تیسری بار مصرع پڑھنے کا کہا تو میں تذبذب کا شکار ہو گیا اور دل میں سوچا کہ آخر ایسی کیا بات ہے جو انورؔ علی بھٹی صاحب مجھے آگے پڑھنے ہی نہیں دے رہے میں نے مصرع کو تیسری بار یوں پڑھا: نہیں فَتویٰ جہاں میں تیرگی ہی کام آتی ہے تب انھوں نے کہا کہ ہاں! یہ بات ہوئی ناں۔ دراصل بات صرف تلفظ کی تھی میں بار بار فَتویٰ کو فِتویٰ پڑھ رہا تھا۔ بہر کیف پوری غزل پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے بڑی شاباش دی اور میرے لیے دُعاگو بھی ہوئے۔ میں ایک لفظ کا درست تلفظ بتانے پر آج بھی ان کو ’’ایک لفظ کا استاد‘‘ تسلیم کرتا ہوں۔‘‘(۲۳) اور یہ بات ہی اشرف اشعری کے مزاج میں عاجزی اور انکساری کا ثبوت ہے کہ وہ ایک لفظ درست کرنے پر بھی کسی کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ دیگر مشاغل ہر شاعر پہلے ایک عام انسان ہوتا ہے اُس کے دیگر معمول کے شوق ہوتے ہیں اور پھر کبھی اُس میں کچھ ایسا ہنر پیدا ہو جائے جو اُسے عام سے خاص کر دے۔ معمولی کو غیر معمولی کر کے معاشرے میں اُس کی حیثیت کو ممتاز کر دیتا ہے۔اشرف اشعری کو نو عمری میں ہی شاعری کا شغف پیدا ہو گیا جب اُن کا ذہن ان خیالات و احساسات کو صحیح نام نہ دے پا رہا تھا۔ آپ کا کہنا ہے: ’’کہ اُس زمانے میں اپنے جی کو بہلانے کے لیے میں نے سکول کی ہاکی ٹیم میں شمولیت اختیار کر لی۔میں نے سکول لائف میں بڑے یادگار میچز کھیلے اور سکول کے بعد کالج کی ہاکی ٹیم کا حصہ بھی رہا اور ساتھ ساتھ کالج کی قرآن سوسائٹی کے پروگراموں میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتا تھا۔‘‘ (۲۴) ادبی خدمات; انسان ابتدائے آفرینش سے ہی اپنے حساس ہونے کا ثبوت دیتا چلا آرہا ہے۔ وہ اپنے جسم کو پتوں سے ڈھانپتا ڈھانپتا سلکی، سوتی کپڑوں تک آ گیا۔پتھروں سے آگ پیدا کرتا کرتا سوئی گیس کا استعمال جان گیا۔ غاروں، پہاڑوں اور ویرانوں سے نکل کر آج پکے مکانوں میں زندگی گزار رہا ہے۔اس طرح اپنی زبان اور ہاتھ کی حرکات سے ایک دوسرے کو بات سمجھاتے سمجھاتے کئی زبانیں سیکھ گیا ہے۔آج ہر انسان سمجھتا ہے کہ اس میں حساسیت کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے۔وہ اپنے شعوری جوہر کسی نہ کسی طرح بروئے کار لانے میں مستغرق دکھائی دیتا ہے اور اپنے جذبات کی عکاسی مختلف پیرایوں میں کرتا نظر آتا ہے۔کوئی تصویر کشی کرتا ہے تو کوئی موسیقی کو ذریعہ اظہار بناتا ہے۔ کوئی مجسمہ سازی میں مگن ہے تو کوئی سخن وری کے ساگر میں غوطہ زن ہو کر لفظوں کو موتیوں کی طرح چن رہا ہے۔مگر ان سب عمل سازوں کا مطلب فطرتی طور پر باشعور ہونا ہی نکلتا ہے۔ اشرف اشعریؔ نے بھی اپنی ادبی خدمات سے خود کو ایک باشعور انسان ثابت کیا ہے۔شاعری کے ساتھ ساتھ مختلف ادبی حلقوں میں اپنا نام منوایا۔ اشرف اشعریؔ نے ہمیشہ ایسی شاعری کی جو موجودہ معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ اخبارات و رسائل میں آپ کے تبصرے اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اشرف اشعری کا ایک اہم کارنامہ ماہنامہ ادبی مجلہ ’’محور‘‘ ہے۔ اس کے ایڈیٹر خود اشرف اشعری تھے۔ اس رسالے کے بارے میں اشرف اشعریؔ بتاتے ہیں: ’’میں ، فراز صدیقی اور اصغر یگانہؔ نے مل کر ادبی کتابی سلسلے ’’محور‘‘ کا آغاز کیا۔ اس رسالے ’’محور‘‘ کے تین شمارے نکالے گئے۔ پہلا ۲۰ ؍اپریل ۱۹۸۹ء میں، دوسرا مئی ۱۹۸۹ء میں اور تیسرا جون ۱۹۸۹ء میں نکالا گیا۔‘‘ (۲۵) ۱۹۸۶ء سے لے کر اب تک اشرف اشعری اردو ادب میں اپنا کافی حصہ ڈال چکے ہیں جس میں شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی چند نثری تحریریں بھی کتابی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ان میں سے کچھ مطبوعہ تصانیف ہیں اور کچھ غیر مطبوعہ تصانیف ہیں: مطبوعہ تصانیف: ۱۔آہیں۲۔دھوپ کا شجر ۳۔ حدودِ افکار۴۔ آدم زاد ۵۔ اسلامی اکھر۶۔ بے نام چاہتیں ۷۔ رقص بہار۸۔ فیصل آباد (لائلپور) تاریخ کے آئینے میں ۹۔ زندانِ سحر۱۰۔ بابائے مزاح بابا عبیر ابوذری (فن و شخصیت) غیر مطبوعہ تصانیف ۱۔ انملے ہیرے (فیصل آباد دے پنجابی شاعراں دا مختصر تعارف) ۲۔ شعرائے فیصل آباد (اردو شعراء) ۳۔ کاغذی تتلیاں (اردو نظمیں) ۴۔ مضامین و مکتوباتِ فراز صدیقی لغات القافیہ (لغت) ۵۔ انمول بندھن (ارد و ناول) ۶۔ مشاہیر کے خطوط (اردو شعراء کے خطوط) ۷۔ یادوں کے میلے (خودنوشت) ۸۔ اکھاں وچ تارے (پنجابی شاعری) ۹۔ پنجابی اکھان ۱۰۔ مشاہیر دے خطوط (پنجابی شاعراں دے خط) ۱۱۔ مٹی لتھڑے پُتلے (پنجابی کہانیاں) اعزازات: فن کوئی بھی ہو ایک فنکار کے لیے اس کے فن کی قیمت اس کو ملنے والی عزت اور اُس کے فن کی پذیرائی ہوتی ہے۔شاعر بھی ایک فنکار ہوتا ہے۔ جس طرح ایک سنگ تراش پتھر کو تراش کے اُسے ایک شکل دیتا ہے۔ ایک مصور اپنی تصویروں میں اپنے احساسات و جذبات کو رنگوں کی مدد سے ظاہر کر کے اُسے ایک حقیقی اور فطری شکل عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح شاعر بھی خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر لفظوں کی مدد سے اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں۔ اشرف اشعریؔ نے بھی اپنی شاعری کے ذریعے اپنے فن کو منوایا بھی اور پذیرائی بھی حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی ان کی شاعری ان کی پہچان بننے لگی۔جس کا ثبوت متعدد اخبارات و رسائل میں اشرف اشعری کے کلام کا شائع ہونا ہے۔ یہ بات کسی شاعر کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں کے ادب کی دنیامیں اس کے کلام کو پذیرائی مل رہی ہے۔ اشرف اشعری کو قدرت نے ادبی صلاحیتوں سے نوازا۔ آپ کو شاعری کا ذوق بہت جلد حاصل ہو گیا جس کی وجہ سے ادبی زندگی میں آپ کو ایک مقام حاصل ہوا۔ اشرف اشعری کو ان کی شاعری اور دیگر ادبی خدمات کی بنا پر بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ بہترین غزل لکھنے پر دو گولڈ میڈل حاصل کیے اور PSA (Pakistan Social Asscociation) کی طرف سے ستارۂ سماج سے نوازا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’قرآن سوسائٹی‘‘اور دیگر ادبی تنظیموں کی طرف سے بے شمار اسناد ملی۔ اشرف اشعری کو ایوارڈز اور شیلڈز سے بھی نوازاگیا۔ ٭ پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کی طرف سے قائداعظم شیلڈ سے نوازا گیا۔ ٭ ۱۹۹۴ء میں 2nd Quaid-e-Azam Award 94 ٭ ۱۹۹۶ء میں بہترین غزل پر لٹل ماسٹر ویلفیئر سوسائٹی کی طرف سے غزل ایوارڈ ملا۔ ٭ ۲۹ دسمبر ۲۰۱۲ء میں فیصل آباد آرٹ کونسل کی طرف سے نقیبی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ٭ ۲۰۱۳ء میں سخن ور فاؤنڈیشن پاکستان اینڈ فیصل آباد آرٹ کونسل کی طرف سے سخن ور فاؤنڈیشن ایوارڈ ملا۔ ٭ ۹ دسمبر ۲۰۱۷ء میں نقیبی کاروانِ ادب کی طرف سے نقیبی ادبی ایوارڈ حاصل کیا۔ (۲۶) اشرف اشعری کے اعزاز اور ان کے فن کی پذیرائی میں ان پر ایک نظم بھی لکھی گئی۔ آپ بتاتے ہیں: ’’طالب بخاری جن کا تعلق راولپنڈی سے ہے انھوں نے ۱۹۹۳ء میں ’’فکر و فن‘‘ کے عنوان سے یہ نظم لکھی۔‘‘ جس میں فرماتے ہیں: اشعریؔ بس یہ دعا طالبؔ کی ہے شعر کا سرمایہ ہو تیرا بدن(۲۷) بزرگ شعراء کی صحبت دور کوئی بھی ہو اپنے ہمنوا اور ہم خیال لوگوں کی صحبت ہی انسان کو سکون اور راحت مہیا کرتی ہے۔ ایک شاعر جب اپنے ادبی سفر پر نکلتا ہے تو اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اکیلا ہے۔لیکن اُسے اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ کب وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے ہوئے ادبی کاروان کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور وہ کاروان اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے صحیح منزل کی طرف لے جاتا ہے۔جیسے کہ مجروحؔ سلطانپوری کا زبانِ زدِ عام شعر ہے: میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا(۲۸) یہ بات تو طے ہے کہ ادبی دوستی میں عمر کی کوئی قید نہیں ۔ بس ذوق اور من کی کشش ہے جو تمام شاعر حضرات کو ایک رشتے میں باندھتی ہے۔ اشرف اشعری کو بھی اپنے اس شعری سفر میں بہت سے نامور شعرا کی صحبت حاصل رہی جن سے انھوں نے بھرپور فیض حاصل کیا۔ اشرف اشعری کے بزرگ و خورودو میں: ’’طالقؔ ہمدانی لدھیانوی، اصغر یگانہؔ، فرازؔ صدیقی، انورؔعلی بھٹی، طالبؔ جالندھری، بابا عبیرؔ ابوذری ، سید پھلؔ آگروی، قتیلؔ شفائی، ڈاکٹر انورؔسدید، شکیلؔ اورنگ آبادی ، شوقؔ عرفانی، بسملؔشمسی، زیارت حسین جمیلؔ، جگنو گورداسپوریؔ۔‘‘(۲۹) تصانیف کا تعارف اشرف اشعری کی تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ وہ ادب سے کتنے قریب ہیں۔ان کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اس فن پر عبور حاصل ہے۔ اشعریؔ نے غزلیں، نظمیں اور قطعات کہے جو کہ ان کے شعری مجموعوں میں شامل ہیں۔ اشرف اشعری اردو شاعری کے ساتھ ساتھ پنجابی میں بھی شعر کہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی نثری تحریریں بھی شائع ہو چکی ہیں۔جس میں قابلِ ذکر ’’فیصل آباد (لائلپور) تاریخ کے آئینے میں‘‘اور ’’بابائے مزاح بابا عبیرؔ ابوذری (فن و شخصیت)‘‘ ہے۔ اشرف اشعریؔ کا زیادہ تر کلام اردو زبان میں ہے۔ پنجابی زبان میں بھی آپ نے مشقِ سخن کی ہے۔ آپ کے پنجابی کلام میں بابا عبیرؔ ابو ذری کے رنگ کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔آپ اردو شاعری کی اصلاح نادرؔ جاجوی سے لیتے رہےہیں (۱۹۸۶ء) ’’آہیں‘‘ اشرف اشعریؔ کی سب سے پہلی تصنیف ہے۔ یہ دسمبر ۱۹۸۶ء میں شائع ہوئی جب اشعریؔ سیکنڈ ائیر کے طالب علم تھے۔ یہ کتاب ۴۹ غزلیات اور ۲ نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے کو بشیر طلعتؔ نے کتابت کیا اور الرفیق افضالی پرنٹنگ پریس فیصل آباد نے شائع کیا۔ ’’آہیں‘‘ کا دیباچہ ’’پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالقیوم حسانؔ عفی اللہ عنہ (مرحوم) زرعی یونیورسٹی اور بیک ٹائٹل فلیپ معروف شاعر و ڈرامہ نگار پروفیسر یونسؔ جیلانی نے لکھا تھا۔ کتاب کا آغاز ’’دُعا بحضور باری تعالیٰ‘‘ کے ان اشعار سے ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: یا الٰہی اک سہارا چاہیے زندگانی کو کنارا چاہیے ناخداؤں سے توقع اُٹھ گئی اب سہارا بس تمہارا چاہیے جو بدل ڈالے مری تقدیر کو کوئی پلکوں پر ستارا چاہیے میرے مولا میں نہیں بااختیار تیری رحمت کا اشارہ چاہیے(۳۰) اس کتاب کا انتساب ’’محترم والد صاحب کے نام‘‘ ہے۔ اس میں اشرف اشعری اپنے استاد نادر جاجویؔ سے اظہار تشکر کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: ’’میں جناب نادر جاجوی صاحب کا بے حد ممنون ہوں جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت میں مجھے مفید مشورے دیئے اور میری حوصلہ افزائی فرمائی۔‘‘(۳۱) اس کتاب میں شامل تمام غزلوں اور نظموں میں ’’اشرف‘‘ ہی تخلص کیا۔اس کتاب کے آخر میں اصلاحی نظم ’’اے آدمی سنبھل‘‘ کے نام سے شامل ہے۔ اشعار ملاحظہ کیجیے: نیت ہو تو کام بھی اکثر ہوتے ہیں ورنہ لوگ تو کانٹے رہ میں بوتے ہیں محنت کی جانب نہ اُٹھیں ہاتھ اگر کھونے والے اپنا سب کچھ کھوتے ہیں کاہل لوگوں کی کیا باتیں کرتے ہو رات تو رات وہ دن کو اکثر سوتے ہیں(۳۲) دھوپ کا شجر (۱۹۸۷ء) ’’دھوپ کا شجر‘‘ اشرف اشعریؔ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ یہ کتاب غزلوں اور نثری نظموں کا شعری مجموعہ ہے۔ اس میں ۵۳ نظمیں اور ۲۱ غزلیں شامل ہیں۔ ’’دھوپ کا شجر‘‘ کو ’’طلعتؔ کتابت سنٹر‘‘ نے کمپوز کیا اور الرفیق افضالی پرنٹنگ پریس فیصل آباد نے شائع کیا۔ یہ کتاب ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اشرف اشعریؔ اس مجموعہ کلام کے متعلق بتاتے ہیں: ’’اس کتاب کا نام ’’دھوپ کا شجر‘‘ میں نے خود تجویز کیا تھا۔ اس کتاب پر ملک کے کئی نامور شعراء نے تبصرے بھی کیے تھے۔ جن میں نصرتؔ چوہدری ، ندیمؔ نیازی، فرازؔ صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔‘‘ (۳۳) اس کتاب کا انتساب کچھ یوں ہے: اس کے نام جو میرے لیے حاصلِ شعر ہے(۳۴) اظہارِ تشکر میں اشرف اشعریؔ یوں رقم طراز ہیں: ’’شکریہ ان مخلصین کا جن کی حوصلہ افزائی میرے شامل حال ہے اور جن کی دعائیں میرے بہتر مستقبل کی ضامن ہیں۔‘‘(۳۵) اس کتاب کا آغاز ’’حمد باری تعالیٰ‘‘ اور ’’نعت رسول مقبولﷺ‘‘ سے کیا گیا ہے۔ حمدیہ اشعار ملاحظہ کیجیے: لمحہ لمحہ رہے اُداس پھر بھی رہی کرم کی آس تیری یاد میں مولائے کل آنسو بھی آئے ہیں راس میں اشرفؔ اک شاعر ہوں جاگ رہا ہے ہر احساس(۳۶) نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے: شاہِ اُممؐ نہ آتے کچھ بھی یہاں نہ ہوتا کوئی زمیں نہ ہوتی کوئی زماں نہ ہوتا(۳۷) نادرجاجوی اس کتاب کی تقریظ میں یوں رقم طراز ہیں: ’’دھوپ کا شجر‘‘ ہلکی پھلکی غزلوں اور سیدھی سادھی نظموں کا مجموعہ شعر ہے۔ ڈھیر ساری آزاد نظموں میں کچھ نظمیں بڑے خاصے کی ہیں۔ ان میں تجسس، فکر اور حقائق کی سانسیں ہونکتی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘(۳۸) حدودِ افکار (۱۹۸۸ء) ’’حدودِ افکار‘‘ اشرف اشعریؔ کی تیسری شعری کتاب ہے جو کہ اپریل ۱۹۸۸ء کو منظر عام پر آئی۔ یہ مجموعہ شعری قطعات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو طلعت کتابت سنٹر نے کمپوز کیا اور سنگت پبلی کیشنز فیصل آباد نے شائع کیا۔ اس کے کل ۹۶ صفحات ہیں۔اس میں ۸۰ قطعات شامل ہیں۔ پانچ چھ تجرباتی بحور کے علاوہ باقی تمام قطعات مستعمل بحور میں لکھے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل قطعات میں پہلا قطعہ ملاحظہ کیجیے: تم نے اس کو کیا جیسے بیاں لکھ دی ہے خونِ دل سے یہ تیری داستان لکھ دی ہے ایک اک شعر میں رونے والے نے اشرفؔ شورشِ موجِ بحرِ بیکراں لکھ دی ہے(۳۹) اس کتاب کا انتساب اشرف اشعریؔ کے دادا جان فضل دین مرحوم کے نام ہے۔ اس شعری مجموعہ کی تقریظ و دیباچہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالقیوم حسانؔ مرحوم نے ’’ٹھنڈی دھوپ‘‘ کے عنوان سے اور اخلاقؔ حیدرآبادی نے ’’حدودِ افکار اور اشرف اشعری‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ بے نام چاہتیں اشرف اشعری کی یہ کتاب ۱۲۷ غزلوں پر مشتمل شعری مجموعہ ہے اور صرف ایک نعت شامل ہے۔ اس کی اشاعت مارچ ۲۰۰۳ء میں ہوئی اور اس کتاب کو شرکت پریس لاہور نے شائع کیا۔اس کا سرورق ریاظؔ نے تیار کیا اور یہ ۱۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔اس مجموعہ کا آغاز ایک شعر سے ہوا۔ ملاحظہ کیجیے: نکلا تھا شہر میں جو ضیاؤں کو بانٹنے وہ شخص میرے گھر کا دِیا ہی بجھا گیا(۴۰) اس کے بعد نعت رسول مقبولﷺ کے اشعار ملاحظہ کیجیے: طیبہ میں بلا لیں مجھے ایک بار محمدؐ ہو جائے مجھ عاصی کو بھی دیدار محمدؐ حد سے ہے لگی بڑھنے یہ بے مائیگی میری اب کیجیے رفو دامنِ صد تار محمدؐ(۴۱) اس کتاب کا انتساب بقول اشرف اشعریؔ: ’’میں یہ بیاضِ حقیر زندگی کی اُس ایک ساعت کے نام کرتا ہوں جس نے مجھے بے نام نہ ہونے دیا۔‘‘(۴۲) ’’بے نام چاہتیں‘‘ کا دیباچہ طالب بخاری نے ’’اشرف اشعریؔ کا سرمایہ سخن‘‘ کے عنوان سے لکھا اور پروفیسر شبیر احمد قادری نے ’’بے نام چاہتیں …ایک تاثر‘‘ کے عنوان سے دوسرا دیباچہ لکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سجاد مرزا اور احمد شہباز خاور نے اس کتاب پر مختصر آراء لکھیں ہیں۔ اس کتاب کا بیک ٹائٹل فلیپ معروف شاعر قتیلؔ شفائی نے لکھا۔ آدم زاد ’’آدم زاد‘‘ اشرف اشعری کی طویل نظم پر مشتمل تصنیف ہے۔ اس نظم کے ۳۸ بند ہیں۔ اس کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تینوں ایڈیشن بالترتیب ۱۹۹۰ء، ۱۹۹۱ء اور ۲۰۱۵ء میں شائع ہوئے۔ اس کتاب کی کمپوزنگ ثقلین احمد اور تزئین منتظر اقتدار مہدی نے کی جبکہ فضہ پبلی کیشنز فیصل آباد نے اسے شائع کیا۔یہ کتاب ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ آدم زاد نظم کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: تفکر میں رہتے ہیں مٹی کے پتلے غریبی کو سہتے ہیں مٹی کے پتلے یمِ غم میں بہتے ہیں مٹی کے پتلے تہی دست کہتے ہیں مٹی کے پتلے یہ آدم کی اولاد کیا کر رہی ہے(۴۳) اس کتاب کا انتساب آج کے آدم کی دم توڑتی سسکیوں کے نام ہے۔ نامور شعرا نے اس نظم پر تبصرے کیے جو کہ اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں نصرت چوہدری (سرگودھا)، ڈاکٹر انور سدید (لاہور)، ندیم نیازی (عیسیٰ خیل ، رحیم یار خان)، عبدالوہاب شارق صدیقی (نواب شاہ )، فراز صدیقی (چک جھمرہ)، پروفیسر سہیل اختر (بہاولپور)، پروفیسر شبیر احمد قادری ( روزنامہ عوام فیصل آباد فروری ۱۹۹۱ء)، پروفیسر محمد اقبال (سرگودھا)، شاہد اسلام دانش (سرگودھا)، ناصر بشیر (لاہور)، م میلسیؔ (ماہنامہ ارتباط میلسی ستمبر ۱۹۹۲ء)، خالد محمود بھوترال ( ہفت روزہ انس اسلا م آباد جولائی ۱۹۹۲ء)، صفدر اقبال وڑائچ (ماہنامہ ارتکاز ملکوال اپریل ۱۹۹۱ء)، رانا غلام شبیر (جھنگ) کے نام شامل ہیں۔ اس کتاب کا اختتامیہ ’’ادبی بصیرت‘‘ کے عنوان سے بیدلؔ پانی پتی نے کیا جس میں وہ رقم طراز ہیں: ’’مولانا الطاف حسین حالیؔ کی ’’مسدس‘‘ اور نظیر کی ’’آدمی نامہ‘‘ کے بعد اشرف اشعریؔ کی طویل نظم ’’آدم زاد‘‘ کے ٹیپ کا شعر ہے:ـ ع یہ آدم کی اولاد کیا کررہی ہے(۴۴) زندانِ سحر ’’زندانِ سحر‘‘ اشرف اشعری کی ۳ نظموں اور ۷۷ غزلوں پر مشتمل کتاب ہے۔ نظموں میں ایک حمد اور دو نعتیں شامل ہیں۔ اس کتاب کے ابتدائیہ میں اشرف اشعریؔ کا شعر ہے: اِس تنگی زمین سے اُکتا کے اشعریؔ لوگوں نے آسماں پہ بسا لی ہیں بستیاں(۴۵) اس کتاب کو فضہ پبلی کیشنز فیصل آباد نے ۲۰۱۵ء میں شائع کیا۔ یہ ۱۴۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پہلا دیباچہ پروفیسر عارف رضا نے لکھا۔ یہ دیباچہ ۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا عنوان ’’اشرف اشعریؔ اپنی غزل کے آئینے میں‘‘ ہے۔ دوسرا دیباچہ ’’اصغر یگانہ‘‘ نے ’’اشرف اشعری شاعر زندانِ سحر‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ تیسرا دیباچہ ’’اشعری اور فکر و خیال کی رعنائیاں‘‘ کے عنوان سے نور محمد علیمؔ نے لکھا۔ اس شعری مجموعے کا آغاز ’’حمد باری تعالیٰ‘‘ کے ان اشعار سے کیا گیا ۔ ملاحظہ کیجیے: اللہ! ایسی شانِ کریمی کے واسطے میں رو رہا ہوں تیری رحیمی کے واسطے دیتا ہوں یہ صدائیں زمیں سے میں اے خدا کس طور پر میں آؤں کلیمی کے واسطے کس ہاتھ میں ہے میرا علاجِ غم و بکا مجھ کو بتا دے اپنی حکیمی کے واسطے(۴۶) رقصِ بہار ’’رقص بہار‘‘ اردو نظموں پر مشتمل مجموعہ کلام ہے۔ یہ کتاب ۷۴ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ۳۳ نظمیں ہیں۔ ابتدا کی چند نظمیں قرآنی حوالوں کے ساتھ ہیں۔ ان نظموں کے عنوانات اور اشعار ملاحظہ کیجیے: ٭ فلاحی دائمی (بحوالہ سورۃ التکاثر) حصولِ جاہ نے تم کو کیا غافل قیامت سے اِسی غفلت نے غافل کر دیا اُس کی اطاعت سے(۴۷) ٭ نارِ دوزخ (بحوالہ سورۃ الماعون) وہ دیتے ہیں دعوت عذابِ خدا کو کہ جھٹلا رہے ہیں جو روزِ جزا کو(۴۸) ٭ یومِ محشر (بحوالہ سورۃ العصر) حقیقت میں نقصان میں ہیں یہ انساں سوا اُن کے جو لوگ لائے ہیں ایماں(۴۹) دیگر نظمیں جو شامل ہیں۔ تسبیح، شہدائے کربلا کے نام، حضرت بابا نور شاہ ولی العربیؒ، میں جام ہوں میں جام ہوں، گمان، انسان، فریب، ریکھا، زادِ تخیل، ناتمامی ، قسم، مٹھاس، آدھی رات، سلکِ حیات، قیاس آرائی، جوانی ، سوزِ دروں، سپنا، وصیت، مآل، پژمردگی، بوئے ناب، جنونِ نارسا ، مایوسی، شوریدگی، کھوکھلی تربت، تعزیر، عقبے، نگہتِ سخن، مرگِ ناگہاں۔ اس کتاب کے ناشر احمد رضا بھٹی ہیں اور یہ فضہ پبلی کیشنز کے تحت شائع ہوئی۔اس کو پروف ثقلین احمد نے کیا اور اس کا ٹائٹل منتظر اقتدار مہدی نے منتخب کیا۔ اس کتاب کا انتساب استادِ محترم علامہ نادر جاجوی مرحوم کے نام ہے۔ اس مجموعے کا دیباچہ بیدل پانی پتی نے ’’شاعر، شعر، شعور‘‘ کے عنوان سے لکھا جس کے آخر میں دعائیہ کلمات میں وہ لکھتے ہیں: ’’ہم اچھی خواہشات اور نیک تمناؤں کے ساتھ اس شعری مجموعے کا خیر مقدم اس توقع کے ساتھ کرتے ہیں کہ اشرف اشعریؔ دُنیا میں ایک نہ ایک دن اپنی شناخت مکمل کرانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘(۵۰) اشرف اشعریؔ فکر و فن کے اسی معیار کو اپنی شاعری بالخصوص اپنی غزلوں میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ اشرف اشعری سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ ہم انہیں معاشرتی ، گھریلو اور سماجی مسائل پر بات کرتے ہوئے زیادہ پائیں گے ۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالم نگار کی ذمہ داری ہے ۔ جسے وہ پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اسی سلسلے میں ان کی گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر ان کے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ان کے فن کے بارے میں لکھتے ہیں: ”اشرف اشعری فن شعر گوئی میں اپنے منفرد لہجے اور اسلوب کی بدولت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔۔ ان کی شخصیت کا احاطہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ وقار و تمکنت ان کا خاصہ اور شائستگی ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ وہ لفظوں سے کھیلنا خوب جانتے ہیں ۔جہاں ان کے لفظوں کی کاٹ قاری کو بڑھکاتی ہے وہاں رم جھم سے گنگناتے ہوئے اشعار ذہنوں پر مثبت اور روحانی سکون چھوڑتے ہیں ۔ انسان بہتے پانیوں کی طرح ان کے سحر انگیز کلام کے زیر اثر شعری تصور کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔اور یوں ایک قاری اور سامع ان کا کلام دل و دماغ میں یوں اٹھائے پھرتا ہے جیسے وہ کوئی جاگیر لئے پھرتا ہے کیونکہ ان کا انداز واقعی دلپذیر ہے ۔ اشرف اشعری کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے محسوسات ،مشاہدات اور عملی تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتے ہیں ۔انھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز بیان کو اختیار کر کے مختلف مگر بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی فرمائی ہے جو کہ قابل داد ہے” ۔
اشرف اشعری نے "فیصل آباد" (لائل پور) تاریخ کے آئینے میں" لکھ کر بہت بڑا تحقیقی کام سر انجام دیا ہے ۔ ڈاکٹر منیر عاصم جن کا تعلق اس نسل سے ہے جو ابھی تک فیصل آباد کو "لائل پور" کہنے پر مصر رہے ہیں ۔ انہوں نے "فیصل آباد (لائل پور) تاریخ کے آئینے میں" ایک مستند اور معلوماتی کتاب میں ایک جگہ اس کے مصنف اشرف اشعری کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "انہوں نے اس شہر کو لٹھے ، ملیشیا اور جگت بازوں کی بجائے تاریخ کے حوالے سے تابندہ شہر بنا کر پیش کیا ہے"۔ یہ درست ہے کہ جن لوگوں نے لائل پورکی فضائوں میں سانس لی،اس کے گلی کوچوں میں کھیلے یا اس کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کیا،اس کی مجلس آرائیوں میں شریک ہوئے یا مجھ ایسے لوگ جس کے دوستوں کا ایک وسیع حلقہ اس شہر میں کبھی موجود رہا،وہی اندازہ کرسکتا ہے کہ لائل پور کو علمی،ادبی اور سیاسی سحر انگیزی میں ایک خاص طرح کا کمال حاصل تھا۔شہر کے نام کی تبدیلی کے بعد اس کی علمی،ادبی اور سیاسی فضائوں کو ضیاء الحق کی نظر لگ گئی۔پھر دوبارہ "ساندل بار" کے اس علاقے سے کوئی دوسرا بھگت سنگھ ، سرگنگارام اور نصرت فتح علی خاں پیدا نہ ہوسکا۔ ہر وقت کے اپنے اپنے تقاضے اور اپنی اپنی دوستیاں ہوتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں مقامی طلباء کے بعد سب سے زیادہ تعداد لائل پورکے طلباء کی ہوتی۔۔۔۔۔
اشرف اشعری نے "فیصل آباد" (لائل پور) تاریخ کے آئینے میں لکھ کر بہت کچھ یاد دلوا دیا ہے ۔ لائل پور کی تاریخ اس کے "فیصل آباد" بننے کا واقعہ اس کی تحصیلیں، قصبات، عجائبات، عمارات، آٹھ بازاروں کے حیرت کدے اس کی مسجدیں، خانقاہیں، یہاں سے اٹھنے والی تحریکیں، یہاں کے ہیرو، شہر کی زراعت، اس کی صنعت کی ترقی، ادب و ثقافت، لوک کہانیاں، اس شہر کی سیاست، صحافت، شخصیات، علماء، صوفیاء ادبائ، شعراء غرضیکہ زندگی کا وہ کون ساگوشہ ہے جس پر اشعری صاحب نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ یہ کتاب نہ صرف فیصل آباد بلکہ دیگر شہروں کے باسیوں کیلئے بھی دلچسپی کا سبب ہے کہ ایک چھوٹا ساجنگل کن کن مراحل سے گزر کر زندہ و تابندہ انسانوں کا مسکن بنا۔ انسان کس طرح ترقی کرکے قدم قدم آگے بڑھ سکتا ہے، اک داستان ہے حیرت وتعجب کی اور مولا کریم کی انسان پر کرم نوازیوں کی۔۔۔۔
|