زندگی بھر کی محبت

آج یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئے ایک انتہائی دلفریب اور خوبصورت منظر دیکھا. جب میری بس کینٹ اسٹیشن سے کلفٹن جانے والی پل کے بالکل بیچ پر آئی تو وہاں دیکھا ایک آدمی اپنی بائیک کو روک کر اپنے بیٹے کو ریل گاڑی دکھا رہا تھا جو اپنی منزل پر رواں دواں تھی. اس دوران اس شخص کا چہرہ روشن تھا اور وہ بچہ بھی بہت خوش نظر آیا. اپنے بچوں کی خوشی کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے ہمارے والدین خاص کر کے والد محترم. لیکن یہ سب دیکھ کر مجھے اپنے بابا کی یاد آنے لگی. ان کی کی ہوئی نوازشیں، مہربانیاں، قربانیاں، خدمات اور وہ سب کچھ جو انہوں نے فقط میری مسرت اور ترقی کے لیے کیا.

مجھے یاد ہے وہ وقت جب میں چھوٹا تھا بابا جان مجھے گاؤں کی سیر کرانے نکل پڑتے تھے. ہم دونوں ساتھ مل کر اپنے کھیتوں پر جاتے تھے، پھر واپسی پر چچا جان اور دیگر رشتہ داروں کے گھر جاتے تھے. اس دوران ان کی کی ہوئی باتیں مجھے آج بھی یاد ہیں اور میرے لیے وہ باتیں کافی اہمیت کی حامل ہیں. پھر وہ وقت بھی یاد آیا جب بابا جان میری فرمائش پر مجھے ساتھ بٹھا کر کہانیاں، شاہ عبداللطيف کی شاعری اور مہدی حسن کی غزلیں سنایا کرتے تھے. وہ لمحے کس طرح بھلا سکتا ہوں جب وہ کراچی سے واپس گھر آتے تھے اور میرے لیے کھلونے اور کتابیں لیکر آتے تھے. مجھے وہ سب کچھ یاد آ رہا تھا اور میری آنکھوں میں آنسو رواں تھے.

میری ہر خواہش کو پورا کرنے والے میرے بابا ہیں اور ان کے احسانات ابھی تک جاری ہیں. اگر وہ نہ ہوتے تو میں شاید ہی اسکول سے آگے پڑھ پاتا اور وہ سب حاصل کر پاتا جو میرے پاس اس وقت ہے. باوجود اس کے کہ جب آپ اکیلے کمانے والے ہوں گھر میں، پھر بھی آپ اپنے بیٹے کو یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کروائیں وہ بھی ایک پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹی میں، اس سے بڑی بات اگر کوئی ہوسکتی ہے تو مجھے بتائیں. لیکن میں کیوں نہ اس عظیم انسان کی مدح سرائی کروں، کیوں احسان فراموش بنوں؟ میں ان کے احسانات کا قدردان ہوں اور ہمیشہ رہوں گا. اس کے برعکس سوچنے پر مجھے کوئی بھی چیز نہیں اکسا سکتی، کبھی بھی نہیں.

ہمارے والدین ہمارے لیے اتنا سب کرتے ہیں. آج کے نوجوان اکثر ان کی بے شمار قربانیوں اور انتھک کوششوں کے باوجود اپنے والدین کی اٹل لگن کو تسلیم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ والدین کے لئے احترام اور تعریف کی کمی کا مشاہدہ کرنا مایوس کن ہے ، جو اپنے بچوں کے دلوں میں کسی خاص مقام کے مستحق ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین کے ساتھ بد سلوکی کا نشانہ بننے کی اطلاعات بھی موجود ہیں۔ ہمیں اپنے والدین کی پرورش اور عزت کرنے کی اہمیت پر زور دینا چاہئے ، جنہوں نے پوری زندگی بے لوث پرورش کی اور ہماری مدد کی۔

Mir Muhammad Adil
About the Author: Mir Muhammad Adil Read More Articles by Mir Muhammad Adil: 3 Articles with 2387 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.