جنوبی افریقہ ،عالمی عدالت اور فلسطین پر جاری اسرائیلی مظالم

جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر 2023 کو انصاف کی عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ عدالت یہ واضح کرے کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینی گروپ حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں مبینہ نسل کُشی کر رہا ہے۔

جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر 2023 کو انصاف کی عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ عدالت یہ واضح کرے کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینی گروپ حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں مبینہ
نسل کُشی کر رہا ہے۔ غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے 4 مارچ 2024 کی رات 10:30 کے درمیان، کم از کم 30,534 فلسطینی ہلاک اور 71,920 فلسطینی زخمی ہوئے۔ جن میں ایک کثیر تعداد بچوں کی ہے۔
مقدمے میں جنوبی افریقہ نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عارضی یا قلیل مدتی اقدامات کرے جس میں اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی مہم روکنے کا حکم دیا جائے، غزہ کو معاوضے کی پیشکش کی جائے اور تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔

جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت میں یہ کارروائی کیسے شروع کی؟

اس مقدمے کا مرکزی نکتہ 1948 کی اس کنونشن پر مبنی ہے جو نسل کُشی کے جرائم کی روک تھام اور سزا سے متعلق دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کے بعد تیار کیا گیا تھا۔
اس کنونشن کے مطابق ’کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے قتل کا ارتکاب نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔‘
جنوبی افریقہ اور اسرائیل نے 1948 میں اس کنونشن پر دستخط کیے تھے۔ جس کے آرٹیکل نو کے مطابق قوموں کے درمیان تنازعات کو اس کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے جنوبی افریقہ نے اپنی 84 صفحات پر مشتمل دائر کردہ درخواست میں کہا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات مبینہ نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ اس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے اس پورے ہولناک منظر نامہ میں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم اورعرب حکومتوں کی بے حسی ،بے غیرتی اور نجی مفاد کی افیم کے نشے میں دھت ہونا ہے۔ایک جانب اسرائیل کو امریکہ کی کھلم کھلا عسکری اور مالی امداد حاصل ہے تو دوسری طرف مسلم حکومتوں نے اپنے دینی اور مظلوم بھائیوں کو انکے حال پر چھوڑ دیا ہے
۔امریکی فوجی حکام تمام تر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اسرائل میں موجود ہیں۔اسکے ساتھ ہی امریکہ نے میرینز کو مقبوضہ ساحل پر تعینات کردیا ہے۔"سی این این" کی رپورٹ کے مطابق 2000 امریکی میرینز پر مشتمل یہ فورس ملک کے ان دو طیارہ بردار بحری جہازوں میں شامل ہو جائے گی جو اس وقت مشرقی بحیرہ روم میں تعینات ہیں۔اور دوسری طرف نام نہاد مسلم ملک مصر رفع بارڈر کو کھول کر غزہ کے تباہ حال فلسطینیوں تک کسی قسم کی مدد پہونچنے دینے پر راضی نہیں ہے۔ایک ہزار ٹن انسانی امداد لے جانے والے تقریباً 100 ٹرک مصر سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کےلئے اجازت کے منتظر ہیں۔ ایک جانب کولمبیا جیسا غیر مسلم ملک ہے جس نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کردیا ہے اور دوسری طرف ترکی،مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، اومان، سوڈان اور مرا کش جیسے وہ نام نہاد مسلم ملک ہیں جنکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ انکا حال یہ ہیکہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر اسرائیل سے سفارتی رشتے توڑنے کی بات تو دور انکے حکمرانوں کے منھ سے غزہ پر اسرائیلی مظالم پر افسوس تک ظاہر نہیں کیا گیا۔ان مسلم ملکوں نے امریکی اور یوروپی اسلحہ ساز کمپنیوں سےلاکھوں ڈالر مالیت کے جدید ترین ہتھیار تو خرید رکھے ہیں لیکن انکی اتنی ہمت نہیں ہیکہ ان ہتھیاروں سے وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کا صیہونی ظالموں سے دفاع کر سکیں۔

کیس کی تفصیلات:

غزہ پر کئی ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا یہ مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا تھا، جس کی سماعت کا آغاز 11 جنوری 2024 کو ہوا تھا۔
ابتدائی سماعت میں جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو دلائل کا موقع فراہم کیا گیا، جس کے دوران اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔

عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت دو روز تک جاری رہی، جس کے دوسرے دن اسرائیل کو بھی دفاع کا موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا موقف پیش کرے

اہم سوالات:

اس مرحلے پر عالمی عدالت انصاف صرف یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اسرائیل پر ہنگامی احکامات (عدالت کی اصطلاح میں عارضی اقدامات) نافذ کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔
اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں، اس بارے میں فیصلہ طریقہ کار کے دوسرے مرحلے کے لیے ہو گا اور اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کی لیکچرر جولیٹ میکانٹائر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس مرحلے پر جنوبی افریقہ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، انہیں صرف یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ اگر عدالت اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ یہ نہیں کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔‘
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر نو احکامات نافذ کرے، جس میں فوری طور پر فوجی سرگرمیاں معطل کرنا اور مزید انسانی رسائی کو ممکن بنانا شامل ہے۔
عدالت تمام نو احکامات کا حکم دے سکتی ہے یا ان میں سے کوئی بھی نہیں یا مکمل طور پر مختلف احکامات بھی صادر کر سکتی ہے۔
لیڈن یونیورسٹی میں عوامی بین الاقوامی قانون کی اسسٹنٹ پروفیسر سیسلی روز نے کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ عدالت جنوبی افریقہ کی طرف سے استدعا کی گئیں کچھ درخواستوں کو منظور کر لے گی۔ اسرائیل نے سماعتوں کے دوران دلیل دی کہ جنگ بندی غیر حقیقی ہے کیونکہ عدالت صرف ایک فریق کو حکم دے سکتی ہے جیسا کہ حماس اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہے۔‘
ایک اور ماہر قانون میک انٹائر نے کہا: ’عدالت جنگ بندی کا حکم دے سکتی ہے، لیکن میری رائے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل سے ایسے اقدامات کا کہا جائے تاکہ مناسب خوراک، پانی اور انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
اہم بات یہ ہے کہ آیا اسرائیل عالمی عدالت کے کسی ممکنہ فیصلے کی پاسداری کرے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ عدالت کے پابند نہیں ہیں۔
تاہم میک انٹائر نے کہا کہ اسرائیل کے ردعمل سے قطع نظر اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کے بقول: ’اگر عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ نسل کشی کا ’خطرہ‘ ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے لیے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کی فوجی یا دیگر حمایت واپس لے سکتی ہیں۔‘
رکن ممالک عالمی عدالت انصاف کے احکام پابند ہیں لیکن اس کے پاس ان کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور کچھ ریاستیں انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہیں، مثال کے طور پر روس نے یوکرین پر حملے روکنے کا حکم نظر انداز کر دیا تھا۔
آخر میں اس کا ایک علامتی پہلو بھی ہے جس کے پیش نظر اسرائیل اخلاقی حمایت کھو سکتا ہے۔
ہولناک منظر نامہ اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی


اس پورے ہولناک منظر نامہ میں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم اورعرب حکومتوں کی بے حسی ،بے غیرتی اور نجی مفاد کی افیم کے نشے میں دھت ہونا ہے۔ایک جانب اسرائیل کو امریکہ کی کھلم کھلا عسکری اور مالی امداد حاصل ہے تو دوسری طرف مسلم حکومتوں نے اپنے دینی اور مظلوم بھائیوں کو انکے حال پر چھوڑ دیا ہے۔امریکی فوجی حکام تمام تر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اسرائل میں موجود ہیں۔اسکے ساتھ ہی امریکہ نے میرینز کو مقبوضہ ساحل پر تعینات کردیا ہے۔"سی این این" کی رپورٹ کے مطابق 2000 امریکی میرینز پر مشتمل یہ فورس ملک کے ان دو طیارہ بردار بحری جہازوں میں شامل ہو جائے گی جو اس وقت مشرقی بحیرہ روم میں تعینات ہیں۔اور دوسری طرف نام نہاد مسلم ملک مصر رفع بارڈر کو کھول کر غزہ کے تباہ حال فلسطینیوں تک کسی قسم کی مدد پہونچنے دینے پر راضی نہیں ہے۔ایک ہزار ٹن انسانی امداد لے جانے والے تقریباً 100 ٹرک مصر سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کےلئے اجازت کے منتظر ہیں۔ ایک جانب کولمبیا جیسا غیر مسلم ملک ہے جس نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کردیا ہے اور دوسری طرف ترکی،مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، اومان، سوڈان اور مراقش جیسے وہ نام نہاد مسلم ملک ہیں جنکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ انکا حال یہ ہیکہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر اسرائیل سے سفارتی رشتے توڑنے کی بات تو دور انکے حکمرانوں کے منھ سے غزہ پر اسرائیلی مظالم پر افسوس تک ظاہر نہیں کیا گیا۔ان مسلم ملکوں نے امریکی اور یوروپی اسلحہ ساز کمپنیوں سےلاکھوں ڈالر مالیت کے جدید ترین ہتھیار تو خرید رکھے ہیں لیکن انکی اتنی ہمت نہیں ہیکہ ان ہتھیاروں سے وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کا صیہونی ظالموں سے دفاع کر سکیں۔

دوسری جانب فلسطینیوں کی حمایت میں لبنان کی جنگجو تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔حزب اللہ نے لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان سرحد پر واقع "المنارہ" بستی پر دھاوا بول دیا ۔حزب اللہ کے مجاہدین نے شمالی سرحد کے ساتھ صیہونی فوج کے کئی مضبوط ٹھکانوں پر حملہ کیا، جس سے کئی صیہونی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے اور مانیٹرنگ اور ٹریکنگ سسٹم کو نقصان پہنچا اور سرحد پر لگے 30 کے قریب کیمرے اور انٹیلیجنس ٹاور بھی تباہ کردیئے گئے جبکہ کئی مرکاوا ٹینک اور فوجی سازوسامان بھی تباہ کردیا گیا۔اس درمیان حزب اللہ نے اپنے ایک اور مجاہد حسین کمال المصری کی شہادت کا اعلان کیا ہے۔ جو شتیلا کے علاقے میں صیہونی فوج کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ہیں۔ اس طرح اسرائل کے خلاف لڑائی میں حزب اللہ کے شہدا کی تعداد 13 ہوچکی ہے۔ لبنانی ذرائع نے یہ بھی بتایا ہیکہ جنوبی لبنان میں غیر قانونی طور پر قابض کفر شوبا کی پہاڑیوں میں صیہونی فوجی ٹھکانوں پر میزائلوں کے ذریعے حملے کیے جا رہے ہیں۔

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 63519 views "I write to discover what I know.".. View More