پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے امکانات
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
کیا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے پس پردہ کوششیں جاری ہیں؟دونوں ملکوں کے تعلقات پر نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ باہمی تعلقات کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تحریک جاری ہے۔پاکستان کے عام انتخابات سے پہلے ہندوستانی حلقوں کی طرف سے ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں پیش رفت ممکن ہے۔انتخابات کے بعد نواز شریف وزیر اعظم تو نہ بنے تاہم ان کی جماعت اور ان کے بھائی شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے رابطوں کے امکانات کم نہیں ہوئے ہیں۔یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ پاکستان کے خارجہ اور دفاعی امور کے حوالے سے بھی نئی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہم اہنگی پائی جاتی ہے۔انہی دنوں ایک اعلی امریکی عہدیدار کے بیان سے بھی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے رابطوں کے امکانات کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔امریکی عہدیدار کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پس پردہ کوئی سرگرمیا ں جاری ہیں۔
ہندوستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے15 14-مارچ کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں ، لوگ سبھا کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ کئی ماہ سے انتخابات کے حوالے سے اپنی سرگرمیاں تیز کئے ہوئے ہیں جس میں ایودھیا مندر کے قبل از وقت افتتاح اور مقبوضہ کشمیر کے صدر مقام سرینگر کا دورہ بھی شامل ہے۔انتخابات میں نریندر مودی کی مسلسل تیسری بار کامیابی کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں تاہم انتخابات کے بعد کوئی بھی حکومت قائم ہونے کے باوجود پاکستان اور ہندوستان کے درمیان رابطوں کا سلسلہ شروع ہونے کی توقع ہے۔
پاکستان کے سابق آمر حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میںہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور مسئلہ کشمیر کے حل کی توقعات کے ساتھ کئی ایسے اقدامات کئے گئے جس سے ہندوستان کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری آزادی کی مزاحمتی تحریک کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ہندوستان کو صورتحال کو قابو کرنے میں بڑی مدد ملی۔مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق ہندوستان کے 5اگست2019کے اقدام میںسابق وزیر اعظم عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے کوئی عملی ردعمل نہ کرنے کی غیر اعلانیہ پالیسی اپنائی۔یوں گزشتہ دو عشروں کے دوران ہندوستان سے تعلقات کی بہتری اور مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت کی توقعات کے ساتھ پاکستان انتظامیہ نے ہندوستان کی موافقت میں ایسے کئی اقدامات یکطرفہ طور پر اٹھائے جس سے ہندوستان کومقبوضہ جموں وکشمیر میں تین عشروں سے زائد وقت سے جاری مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے، دبانے میں بڑی مدد ملی۔لیکن پاکستان انتظامیہ کے اس کردار سے نہ تو پاکستان کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی کشمیریوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی کوئی سہولت حاصل ہو سکی۔
اب ایک بار پھر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی باتیں ہو رہی ہیںاور اس کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کی مکمل بحالی اور تجارت شروع ہونے کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان رقبے، آبادی، اقتصادی و فوجی طاقت کے لحاظ سے بھی بہت بڑا اور زیادہ طاقتور ملک ہے ۔ تعلقات کی بہتری میں زیادہ اقدامات کی جائز توقع اور ذمہ داری ہندوستان پہ ہی عائید ہوتی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار بھی پاکستان اور کشمیریوں کو محض لالی پاپ ہی ملے اور بہت کچھ حاصل کرنے کے جواب میں ہندوستان سے کچھ بھی حاصل نہ ہو سکے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|