انسان اور سوچ کا زندگی بھر کا ساتھ ہے۔سوچیں انسان کے ساتھ ساری زندگی رہتی ہیں۔انہی سوچوں کا انسان کی ترقی وتنزلی میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہی سوچیں انسان کوکردار عزت قدر کے لحاظ سےعظمت کی بلندیوں پرپہنچا دیتی ہیں تو کبھی کبھی انہی سوچوں کی بناء پر انسان( خسر اور اسفل السافلین)کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔تعمیری سوچیں انسان میں کامیابی ،ہمت،خوشی،پیار ومحبت،عظمت،بلندی ،خوبصورتی اورکردار کی پختگی جیسی صفات کا باعث بنتی ہیں تو بری سوچیں کم ہمتی ،بغض،حسد،کینہ،ضد،غم وغصہ،ناکامی،نفرت،کردار کی خرابی کا باعث ہوا کرتی ہیں۔سوچ کی تبدیلی سے انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہےاور بعض اوقات یہی سوچیں انسان کے لئے عذاب بھی بن جاتی ہیں َ۔بقول شاعر
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
انسانی ذہن اور سوچ انسانی ذہن سوچوں کی آماجگاہ ہے ۔جہاں دن بھر میں کڑوڑوں سوچیں آتی جاتی اورسماتی رہتی ہیں۔اس ذہن کو اگر آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ شتر بے مہار کی طرح جس سمت منہ اٹھائے چلا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ کسی ایسی گھاٹی کے دہانے پر پہنچ جائے جہاں سے گرنے کے بعد اٹھنا ممکن نہ ہوسکے ۔اور اگر اس ذہن کو مقید کر دیا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ کنویں کامینڈک بن جائےاور یونہی لکیر کا فقیر بنا زندگی کو بتا دے۔لہذا یہ دونوں ہی کام غلط ہیں اور دونوں ہی کا خمیازہ ناکامی ہے۔بھلا اب کیا کیا جاسکتا ہے ؟یہ تو کچھ ایسی صورت پیش آگئی جیسی شاید کبھی غالب کو پیش آئی تو انہوں نے کہا کہ:
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرےپیچھے توکلیسا میرے آگے
لہذااب کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے ذہن پر مذہب کا پھندا ڈال کر اسے شریعت کے کھونٹے سے باندھ کر رکھا جائے۔کہ نہ تو وہ شتر بے مہار کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا پھرےاور نہ ہی کنویں کا مینڈک بن جائے یا لکیر کا فقیر بنا پھرے۔اس کے پر کاٹ کر رکھنے چاہیئں۔بقول شاعر:
پر کاٹ کے صیاد نے جب باب قفس کھول دیا
مجھ کو اڑنے کے بہت یاد زمانے آئے
سوچیں اور تبدیلی آج ساری دنیا میں اک شور برپا ہے کہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ہم کیسے اس دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ان بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں کچھ ایسا کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے ماحول اور حالات کو تبدیل کر سکیں؟ کیا ہم اپنے ماحول اور خود سے محرومیوں اور ناکامیوں کے اثرات کو ذائل کرکےدنیا میں حقیقی خوشی اور کامرانی حاصل کرسکتے ہیں؟ تو کیسے؟ ان تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے سوچ کی تبدیلی سے ……! سوچ کی تبدیلی ہی وہ انقلاب لاسکتی ہے کہ جس کی آج ہم سب کو ضرورت ہے باہر سے آکر کوئی ہمارے دکھوں اور محرومیوں کا مدا وا نہیں کرے گا۔بدلتے ہوئے حالات کے تناظرمیں ہم اپنی سوچوں کی تبدیلی سے ہی اس قابل ہو سکیں گے کہ بیرونی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں ۔
سو چوں کی اقسام سوچوں کی دو بڑی اقسام ہیں ۔پہلی مثبت سوچ دوسری منفی سوچ اپنے نام کی طرح یہ سوچیں انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انسان میں مثبت یامنفی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں۔
مثبت سوچ مثبت سوچیں انسان میں مثبت تبدیلیاں لے کر آتی ہیں ۔انساں جب مثبت انداز سے سوچتا ہے تو یہ مثبت سوچنا اس کی کارکردگی کو تبدیل کر دیتا ہے یوں جب کارکردگی تبدیل ہوتی ہے تو انسان ہدف کی جانب رواں دواں ہونے لگتا ہے۔ یوں وہ نئی نئی منزلوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ پھر آخر اس کا یہ مثبت سو چنا اسے کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔مثبت سوچ رکھنے والا انسا ن کبھی ناکامیوں سے دو چار نہیں ہوتا کیونکہ وہ نا کا می سے کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوتا۔اسے ہر ناکامی کے بعد ملنے والی مثبت سوچ کامیابی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔اس طرح سے سوچ کی تبدیلی انسان پر کامیابیوں کے دروازے کھول دیتی ہے۔
منفی سوچ منفی سو چیں انسان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوا کرتی ہیں۔انسانی ذہن منفی سوچوں کو لے کر اسی پس وپیش میں مبتلا رہتا ہے کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا قدرت کے اس کارخانے میں ایک میں ہی رہ گیا تھاجس پر یہ مصیبت آنی تھی؟ کچھ ایسی ہی قسم کی سوچیں اس کے ذہنں اور روح کے ساتھ زندگی بھر چمٹی رہتی ہیں اور اس کے ذہن ودل کو اسقدر کمزور کر دیتی ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے اس طرح منفی سوچیں اس کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیںَ۔اور یہی سوچ کی تبدیلی اسے زندگی بھر ناکامیوں سےکودوچار کئے رکھتی ہے۔
سوچیں اور ہماری ترقی وتنزلی مولانا الظاف حسین حالی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ صرف دو سوچیں ہیں کہ جنہوں نے دنیا کی ترقی وتنزلی پر بڑا اثر ڈالا پہلی سوچ یہ کہ(ہم کچھ نہیں کر سکتے) دوسری سوچ یہ کہ(ہم سب کچھ کر سکتے ہیں) مولانا فرماتے ہیں کہ پہلی سوچ کا اثر یہ ہوا کہ انسان نے اپنی انہی سوچوں کے ساتھ بناء کچھ کئے زندگی بتا دی اور کوئی کامیابی نہ حاصل کر سکا اسے اس کی منفی سوچ نے کچھ کرنے ہی نہ دیا۔ جبکہ دوسری سوچ کا اثر یہ ہوا کہ انسان نے ترقیوں کے دروازے اپنے اوپر کھول لئے اس نے چاند تک رسائی حاصل کر لی اور ستاروں پر کمندیں ڈالنی شروع کر دیں۔سوچیں یا تو ہمیں ترقیوں سے ہمکنار کرتی ہیں یا پھر تنزلیوں سے دوچار کرتی ہیں۔سوچ کی تبدیلی ہی ہماری کامیابی وناکامی کا ذریعہ ہے۔
ایک واقعہ دو سوچیں مثال کے طور پر تین دوست ہیں ان میں سے ایک کو دل کا دورہ پڑ جاتا ہے دونوں دوست اسے لے کر دل کے ہسپتال پہنچتے ہیں ڈاکٹر معائنے کے بعد کہتا ہے کہ انہیں زیادہ چکنائی کھانے اور باہر کے کھانے.کھانے سے دل کا دورہ پڑا اب اس کے دونوں دوستوں میں سے ایک نے یہ سوچا کہ میں چکنائی اور باہر کے کھانے استعمال نہیں کرونگا جبکہ دوسرے کے دل میں یہ خیال آیا کہ میں بھی چکنائی اور باہر کے کھانے کھاتا ہوں یقینا میرے ساتھ بہی ایسا ہی ہوگا۔اب پہلا دوست اپنی مثبت سوچ کی بناء پر صحت کے مسائل کا شکار نہ ہوگا جبکہ دوسرا ایک نہ ایک دن دل کے ہسپتال ضرور جا پہنچے گا۔یہی سوچ کی تبدیلی(سوچوں کا منفی یا مثبت ہونا) زندگی کے ہر معاملے میں ہماری ترقی وتنزلی یاکامیابی وناکامی کا باعث ہوتی ہے۔
دو دوست ایک سوچ بل اور ایلن دو دوست تھے۔ دونوں ایک ہی جیسا سوچتے تھے۔بل سے اساتذہ نالاں رہتے تھے کہ وہ کسی کام کا نہ تھا۔یونیورسٹی کا آخری دن تھا جب استاد نے بل سے کہا کہ وہ صرف ٹرک ڈرائیور بن سکتا ہے اور بس….!اب یہ دونوں دوست ایک جھیل کے کنارے بیٹھے اپنی اس منفرد سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ رہے تھے کہ جس سے ان کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا شخص آگاہ نہ تھا اپنی ان سوچوں کو جب ان دونوں نے مل کر عملی جامہ پہنایا تو یوں ہوا کہ دنیا ان میں سے آج ایک دوست کو بل گیٹس کے نام سے جانتی ہے۔جی ہاں..! وہی بل گیٹس جسے ہاورڈ یو نیورسٹی کے استاد نے یہ کہ کر رخصت کیا تھا کہ وہ صرف ڈرائیور بن سکتا ہے۔ آج وہ بل گیٹس دنیا کی سب سے بڑی مائیکرو سوفٹ کمپنی کا مالک ہے۔اور آج اس کا نام ہاورڈ یونیورسٹی میں ٹاپ آف دی لسٹ ہےکہ یہ ہونہار ہمارا طالبعلم تھا ۔سوچ کی تبدیلی کی بناء پر ہی بل گیٹس نے آج دنیا میں وہ مقام پایا کہ دنیا میں وہ مقام کوئی دوسرا نہ حاصل کر سکا۔
جاپان کی مثال جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے۔ اگر جاپانی بھی منفی سوچ رکھتے ہوئے انتقامی کاروائی کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نےایسا نہیں کیا ۔انہوں نے سوچ کی تبدیلی سے وہ انقلاب برپا کیا کہ ان کا دشمن آج تک ان کا محتاج ہے۔انہوں نے انتقامی کاروائی کی منفی سوچ کوتخلیقی صلاحیتوں کےحصول کی مثبت سوچ سے بدل ڈالا پھر یہی سوچ کی تبدیلی دشمن کو ان کے قدموں میں لے آئی۔
مایوسی کفر ہے مایوسی کفر ہے ۔اپنی سوچ کی تبدیلی سے آپ کامیابیاں حاسل کرسکتے ہیں۔ ناکامیوں سے کامیابی کی منزل تک کا سفر صرف سوچ کی تبدیلی پر منحصر ہے۔اگر ہم غالب کی طرح تصور جاناں سے نہ نکلے تو کامیابی سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گی
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
ایک مایو سانہ صورتحال یہ بھی ہے کہ اگر یوں ہوتا تو ایسے ہوجاتا اگر ایسے ہوتا تو کیسا ہوتا۔ایسی سوچوں کے حامل افراد سے گذارش ہے کہ وہ سوچ کی تبدیلی کے زیور سے خود کو آراستہ کریں۔ حضرت غآلب بھی یہی کہتے کہتے گزر گئے
مر گیا غالب مگر اب یاد آتا ہے
وہ ہر بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
حرف آخر بحیثیت قوم یا فرد ہمارے جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے سوچ کی تبدیلی اپنی سوچوں کو تبدیل کیجئے بڑی بڑی کامیابیاں اور منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔آئے آج ہی سے ہم سوچ کی تبدیلی کے ساتھ اپنے کامیابی کے سفر کاآغاز کریں۔
|