قوم منتظر رہی۔ پہاڑوں پر جمی
برف پگھلتی رہی مگر قومی قیادت کے جذبوں اور حوصلوں کی یخ بستگی تھی کہ ختم
ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ دھارے کے ساتھ ساتھ بہتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ اِس میں کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔ سارا دُکھڑا اِس بات
کا ہے کہ لوگ دھارے کے خلاف بہنے سے کتراتے ہیں۔ برف پگھلتی ہے تو ریلے
بہتے ہیں، سیلاب کی سی کیفیت نمودار ہوتی ہے۔ یہ اصول انفرادی اور اجتماعی
ہر دو سطح پر یکساں کار فرما رہتا ہے۔ کوئی ”میں نہ مانوں“ کے فلسفے پر
کاربند ہو تو اور بات ہے!
پوری دُنیا ایک گلی ہے اور امریکہ ”لمبو گلی کا دادا“ ہے۔ سبھی جانتے ہیں
کہ گلی کا دادا بھی انسان ہی ہے۔ بد معاش سے نمٹنے کا وہی اصول ہے جس پر ہر
بد معاش خود عمل پیرا رہتا ہے.... طاقت کی زبان! ہم یہ زبان استعمال کرنے
میں تساہل برتتے رہے، حقانی گروپ بازی لے گیا، میدان مار گیا۔ امریکی بد
معاشی کا جواب جب طاقت کی زبان سے دیا گیا تو کابل سے واشنگٹن تک کھلبلی مچ
گئی۔ 10 سال سے حالت یہ تھی کہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔
عالمی برادری پاک افغان بربادی کا صرف تماشا دیکھ رہی تھی اور معصوم
انسانوں پر برسائے جانے والے میزائلوں کے جواب میں رسمی نوعیت کے مذمتی
بیانات داغ رہی تھی۔ اِن بیانات میں بھی کمزوروں ہی سے کہا جارہا تھا کہ
طاقتور کے آگے سر جھکائے رکھیں، مزاحمت کا نہ سوچیں، ذرا اُس کی سِطوت اور
حَشمت کا تو سوچیں! یہ بات طالبان اور حقانی گروپ کو سمجھائی نہ جاسکی! وہ
میدان جنگ ہی میں رہے۔ ڈٹے رہنے کی روش کا نتیجہ اب برآمد ہوا ہے۔ گلی کے
دادا کو احساس ہونے لگا ہے کہ جب زور کی چوٹ لگتی ہے تو درد بھی ہوتا ہے
اور زخم ناسُور بھی بنتا ہے!
دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر امریکہ کی جو جنگ ہم ایک عشرے سے لڑ رہے ہیں
اُس کا خطرناک ترین محاذ کھلوانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ پاکستان سے حقانی
گروپ کے خلاف صف آراءہونے کے لیے کہا جارہا ہے۔ ایک عشرے سے یہی تو ہو رہا
تھا کہ امریکہ اور یورپ دباؤ ڈال کر بات منوا رہے تھے اور ہماری قیادت دباؤ
میں آکر ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہتی جارہی تھی۔ اب انکار کی صورت نکلی ہے
تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے غنڈوں نے رضیہ
کو گھیر لیا تھا۔ پاکستانی قوم کو بات بات پر صرف یہ باور کرایا جاتا تھا
کہ مغربی امداد بند ہوگئی تو کیا ہوگا، کھائیں گے کیا اور پئیں گے کیا؟ عام
آدمی بھی اِس دھمکی پر سہم سا جاتا تھا۔ اب قوم کو خیال آیا ہے کہ دہشت
گردی ختم کرنے کی جنگ کے نام پر استعمال ہوتے ہوتے ہم اپنا سب کچھ تو گنوا
بیٹھے ہیں، پھر ڈرنا کیا اور کیوں؟ جس کی جیب میں کچھ نہ ہو وہ بھلا کیوں
ڈرے؟ اور جب کچھ بھی اپنے پَلّے ہے ہی نہیں تو پنگا لینے میں کیا ہرج ہے؟
تصادم کی راہ پر گامزن ہونے سے تو وہ ڈرتے ہیں جن کے دامن میں زمانے بھر کی
آسائشیں ہوں۔
بات اِتنی سی تھی اور ایوان ہائے اقتدار میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ پائے کے
دانشوروں اور بُزرجمہروں کی سمجھ میں اب آئی ہے۔ بد معاش کی اکڑفوں اُسی
وقت جاتی ہے جب اُسے منہ دیا جاتا ہے۔ جو طاقت کی زبان میں بات کرے اُس سے
طاقت ہی کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔
افغانستان ایک اوکھلی ہے اور اِس اوکھلی میں سر دینے کا شوق دور افتادہ
قوتوں کو زیادہ لاحق رہتا ہے۔ امریکہ اِس اوکھلی میں سر دے بیٹھا ہے۔ کہاں
سُپر پاور اور کہاں افغان مُوسل کا خوف! اب سر کی فکر لاحق ہوئی ہے تو
امریکہ بہادر کو پھر پاکستان یاد آیا ہے۔ کہاں ایک ملک اور ملک بھی سُپر
پاور.... اور کہاں محض چند سر پھروں کا گروہ، حقانی گروپ! سُپر پاور چاہتی
ہے کہ ہم اُس کی جان محض ایک گروپ سے چھڑا دیں! ایک طرف طالبان اور دوسری
طرف حقانی گروپ۔ یک نہ شُد، دو شُد! یعنی دونوں طرف سے مار پڑ رہی ہے۔ کبیر
داس کہہ گئے ہیں۔
دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے
ہماری حالت یہ رہی ہے کہ چور کسی نہ کسی طرح نکل بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے
اور ہم اُسے بھاگ نکلنے میں مدد دے رہے ہیں۔ کیا ہماری قیادت کو اِتنا بھی
معلوم نہیں کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی بھی اُتار لی جاتی ہے! مگر شاید یہ
ہماری اخلاقی تعلیمات کا ”قصور“ ہے کہ کسی کو سر راہ برہنہ کرتے ہمیں شرم
دامن گیر ہوتی ہے.... خواہ سُپر پاور ہو!
سیاسی اور عسکری قیادت نے ہم آہنگ اور ہم زبان ہوکر بات کی ہے تو دو دن میں
سُپر پاور کا لہجہ بدل گیا ہے۔ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل
مائیکل مولن نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تو وائٹ ہاؤس بھی پیچھے ہٹ گیا!
امریکی سیاسی قیادت کو بھی اندازہ ہے کہ عسکری قیادت کسی نہ کسی طور
افغانستان کا طوق گردن سے اُتار پھینکنا چاہتی ہے۔ مگر اُسے یہ بھی معلوم
ہے کہ اِس معاملے میں اندازے کی غلطی کیا گل کھلا سکتی ہے! ایک لاکھ امریکی
فوجی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر اِن کی ہلاکتیں بڑھ گئیں تو قوم کو
کیا جواب دیں گے؟ راتوں رات انخلاءممکن نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے عالمی
برادری میں ناک کٹ جائے گی! یعنی نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن!
جب معاملہ سر پر آن پہنچے اور بندے کو ہوش آئے تو اِسے انگریزی میں
گیارہویں گھنٹے پر ہوش میں آنا کہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری قیادت
بھی گیارہویں گھنٹے پر ہوش میں آگئی اور سب مل بیٹھے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے
نام پر ”نشستند و گفتند و برخاستند“ ہی سہی، کچھ نہ کچھ پیغام تو گیا ہے!
امریکہ کے خلاف جانا ہو تو تمام جماعتیں یک زباں اور یک سُو دِکھائی دیتی
ہیں۔ یہ مل بیٹھنا قوم کو مبارک ہو۔ اگر کوئی گیارہویں گھنٹے پر بھی ہوش
میں نہ آئے تو بارہ بجنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی! |