جوہر سے جوہڑ تک ناولٹ - دوسرا حصہ

نواب صاحب یہ لڑکی آپ کی بیٹی ہے کیا؟ خاتون نے بل بنوانے کے بعد شائستگی سے اس کی طرف غیر محسوس انداز میں اشارہ کیا۔ ہزار کا نوٹ بل کے ساتھ بڑھاتے ہوئے انہوں نے گردن گھما کر دیکھا’’ نوہزار ایک سو روپے کا بل ہے،سو کھُلا دیجئے‘‘ نواب ممتاز نے نگاہ ہٹا کر ان سے کہا۔

’’ کیا کرتی ہے آپ کی بیٹی؟‘‘ ایک اور سوال ۔حالانکہ ابھی یہ جواب بھی نہ ملا تھا کہ کھڑی ہوئی لڑکی کون ہے لیکن جس اپنائیت بھری نگاہ سے دیکھا گیا تھا وہ ایک باپ ہی کی نگاہ تھی۔

چادر اور چاردیواری سے باہر عورت ایک ایسی مٹھاس کی مانند بن جاتی ہے جس کا ذائقہ کتنی ہی نگاہیں اپنے اپنے انداز سے جانچتی ہیں ۔مختلف پیمانے،مختلف باٹ،مول لگائے جاتے ہیں ،سر عام بھی اور آڑ لیکر بھی۔

خاتون نے نواب ممتاز کو پیسے دیتے ہوئے اپنے سامان کی ٹرالی ریمپ کی طرف دھکیلی۔انداز بانو کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کے چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ آگئی۔

’’فائل کا رخ بدلو۔تمہارا نیم ٹیگ نظر نہیں آنا چاہئے انداز بانو‘‘ ٹھٹک کر اس کو مخاطب کیا گیا جس کی نگاہ بدستور باپ پر تھی۔

’’شکریہ جی!‘‘ نگاہیں ممنون اور دھیمی آواز

’’تمہارا نام بہت پیارا ہے بالکل تمہاری آواز کی طرح‘‘ انہوں نے اس کی نگاہوں کے رُخ پر سرسری نظر ڈالی اور بیگ سے نکالے کارڈ پر کچھ نمبر لکھ کر اس کی طرف بڑھادیا ’’ یہ میرا کارڈ ہے۔ہوسکتا ہے کبھی تمہیں ضرورت پڑ جائے۔‘‘ اس نے حیرت سے انہیں اور کارڈ کو دیکھا تو وہ آگے بڑھ گئیں۔

کالج سے بی اے اکنامکس کے بعد پورے تین سال اس نے محلے کے اسکول میں نوکری کی، مجال ہے کہ خالہ نے شادی کا کوئی ہلکا سا اشارہ بھی کیا ہو۔ ہاں ہر ماہ آنے والے فون پر وہ یہ پوچھنا نہ بھولتیں کہ انداز کی نوکری کیسی چل رہی ہے۔

’’کوثر کیوں یہ لڑکی اپنے آپ کو ان چھوٹی موٹی جگہوں پر ضائع کررہی ہے۔‘‘ تو کوثر کا دل چاہتا کہ وہ بہن سے پوچھیں کہ آپا آپ کو اصل میں غم کیا ہے؟ میری بیٹی کے ضائع ہونے کا،یا اس کو کم تنخواہ ملنے۔۔۔۔ اگر وہ اسی طرح منگنی کے نام پر ٹنگی رہی تو اس کا ضائع یقینی ہے‘‘۔وہ سوچ کر رہی جاتی مگر پوچھنے کی ہمت کبھی نہ کرسکیں۔’’نادر بھی کہہ رہا تھا کہ انداز کو اپنا بی اے اکنامکس ان گلی محلوں میں رُل کر ضائع نہیں کرنا چاہئے‘‘ آپا کے پاس ہمیشہ ہی کوثر کی بیٹی کے متعلق نصیحت کے لئے بہت کچھ ہوتا،اب تو انہوں نے ہونے والے داماد کا نام لے کر احساس دلانا شروع کردیا تھا۔

’’نواب ممتاز تمہارا اور تمہاری اولاد کے نام نرالے ہیں،کیا فائدہ ایسے ناموں کا ؟‘‘ ماں کو سکھر سے آپا کے فون سننے کے بعد دھیرے دھرے بڑبڑاتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے دباتے دیکھ کر کاپیاں چیک کرتی ہوئی انداز بانو نے سر اٹھایا۔ ماں اسی کو دیکھ رہی تھیں۔

’’کیوں ان چند پیسوں کے لئے ہلکان ہوتی ہو، اور کوئی اچھی سی نوکری کرو،کسی کمپنی میں یا کسی بینک میں ،یہ اسکول والے تو تمہیں تو نچوڑ ہی لیں گے بانو‘‘ ماں کی آواز میں تھکان بھری تھی ۔ اس نے حیرت سے ان کو دیکھا۔

’’ہر عورت کوہِ نور ہوتی ہے میری بچیوں‘‘ وہ بے توجہی سے چادر اوڑھی بیٹیو ں کو گھر سے باہر جاتا دیکھ کر ٹوکا کرتیں۔

’’رب نے اسی لئے اسے پردے میں رکھا تاکہ وہ محفوظ رہے۔اس پر کسی ایرے غیرے کی غلط نگاہ نہ پڑے ورنہ وہ بھی کوہِ نور کی طرح اچک لی جاتی ہے،جیسے اسے اُچک کر انگلستان پہنچا دیا گیا،عورت کو بھی وہاں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں کے لئے وہ نہیں ہوتی‘‘ تو انداز بانو کی چادر تو فوراً ہی کھسک کر ماتھے تک آجاتی اورسامنے دیوار پر بیٹھی چیل کا دھیان آجاتا جو موقع ملتے ہی کاکا کے پالے چوزے صحن سے دوچار مرتبہ نظروں کے سامنے اچک کر لے جاچکی تھی۔

اور اب وہی ماں تھیں جو اسے اچکوں اور ٹھگوں کی دنیا میں قدم بڑھانے کا کہہ رہی تھیں ۔اس نے گہری سانس لیکر ماں کی دلی کیفیت بہ خوبی محسوس کرلی تھی۔ ’’شائد کہ میری بیٹی ضائع ہونے سے بچ جائے‘‘ ان کہے الفاظ ،ان سنی بات جیسے وہ جان چکی تھی۔

نئی نوکری اور وہ بھی بَڑھیا نوکری کہاں اور کیسے ملتی ہے وہ تو یہ بھی نہ جانتی تھی ،کوئی بھی ایسا نہ تھا جس سے مدد ملتی ۔سب ہی انداز بانو جیسے گھرانے تھے۔چادر اور چار دیواری میں پائی جانے والی عورتیں! ایسے میں اسکول کی نوکری کے علاوہ کہیں نوکری حاصل کرنا اس کو ناممکن ہی لگتا تھا۔

کوثر ممتاز کو ہر ماں کی طرح بیٹیوں کی شادی کا بڑاہی خیال رہتا تھا ۔اس لئے وہ انداز بانو کی تنخواہ کا بڑی احتیاط سے استعمال کرتے ہوئے اس کے لئے کچھ نہ کچھ چیزیں جوڑتی رہتیں تھیں مگر بہن کے اس قدر انجان بنے رہنے کے رویے نے ان کو دلبرداشتہ کردیا تھا،ا س کے باوجود وہ اس کے رشتے کو ختم کرنے کی ہمت اپنے اندر نہ پاتی تھیں۔خاندان بھر میں جو فساد وہ کوثر کے لئے برپا کرسکتی تھیں،اس کا خمیازہ ان کی بیٹیوں کو بھگتنا پڑتا۔کوئی بھی آئندہ کے لئے اندازکو کیا گوہر اور شاداب تک کو نہیں پوچھتا۔بس یہ ہی خدشات تھے جو ان کو کوئی بھی فیصلہ کن بات کہنے سے باز رکھتے تھے۔

نوکری کی سچی طلب ہی تھی جو اس دن اپنی پرانی فائلوں میں سے اندزاز بانو کو ایک کارڈ ملا۔کسی بینک مینجر کا کارڈ تھا۔’’سبین ضیاء‘‘ لمحہ بھر کو وہ الجھ سی گئی،اسے یاد نہ آرہا تھا کہ کیوں یہ کارڈ اس کے کالج کے کاغذات کے درمیان احتیاط کے ساتھ رکھا ہے۔اچانک ذہن میں جھماکا ہوا ۔
Nusrat Yousuf
About the Author: Nusrat Yousuf Read More Articles by Nusrat Yousuf: 16 Articles with 14143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.