بادامی رنگ کے ٹائیگر پرنٹ سوٹ
کے ساتھ اسے بڑی تلاش کے بعد اپنا من پسندہینڈ بیگ مل سکا تھا۔پورے ہزار
روپے کے اخراجات اور گھنٹوں کی محنت کے بعد جب وہ گھر پہنچی تو بجلی غائب
تھی۔اپنی کی گئی شاپنگ دونوں بہنوں کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے اپنے تھکے
ہوئے وجود کو بستر پر گرادیا۔
’’بانو چائے!‘‘ گوہر،اس کی بہن چائے کا مگ تھامے کھڑی تھی،’’دروازہ بند
کردو صحن کا‘‘ اس نے صحن کے کھلے دروازے کو دیکھ کر کہا جو چچا اور ان کے
گھر کے درمیان کھلتا تھا،’’کاکا بہت شور مچاتا ہے اب‘‘ اس نے چائے کا مگ
تھامتے ہوئے ہلکی ناگواری دکھائی دی۔
’’رہنے دو،دروازہ بند ہوجانے سے گھر میں سناٹا سا ہوجاتا ہے۔کاکے کی آواز
سے زندگی جاگتی ہوئی لگتی ہے۔‘‘
بانو نے ٹرنک میں رکھے جمع شدہ قیمتی کپڑوں کے ساتھ مصروف ماں کی بات سن کر
لب بھینج لئے۔’’اللہ جانے امی واقعی مصروف ہیں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی
کوشش میں ہیں‘‘ سوچ تو آئی مگر اس نے کچھ بولا نہیں۔چائے کے گھونٹ لیتے
ہوئے وہ ان کو دیکھنے لگی۔ایک ایک کپڑے کو بڑی احتیاط سے نکالتیں۔اس کی تہہ
درست کرکے واپس ٹرنک میں رکھ دیتیں۔
’’نہ جانے کیا سوچ رہی ہیں‘‘ ماں کو دیکھتے ہوئے وہ ان کے ماتھے پر ابھرنے
والی لکیروں پر غور کرنے لگی۔
*****
’آپا بینک سے واپسی پر میرے لئے بادامی رنگ کی کوئی چپل لیتی آنا۔اسی شیڈ
میں جو تمہارے نئے بیگ کا ہے،میرے سوٹ کے ساتھ تمہارا بیگ تو فٹ ہے لیکن
تمہاری چپل نہیں جچے گی۔تمہیں پتہ نہیں ہے نا کالج میں فنکشن کا ۔۔۔۔۔اسی
کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘
سب سے چھوٹی شاداب نے سویرے کالج کے لئے نکلتے ہوئے امی سے کرایہ لیتے ہوئے
کہا تو امی نے اسے خاصی کڑی نظروں سے دیکھا۔’’ آنکھ کھولتے ہی کپڑوں جوتوں
کی لگ گئی ،نہیں دیکھ رہی کہ مصروف ہے بہن ‘‘ شاداب کو ٹوکتے ہوئے ان کی
نظریں انداز بانو کو تلاش کرنے لگیں جو اسٹور میں رکھے اسٹینڈ پر کپڑے
پھیلائے استری میں مصروف تھی۔
’’انداز بانو!‘‘ ابو ہمیشہ بیٹیو کو اسی طرح پکارتے تھے۔
’’انداز بانو! گوہر بانو ! شاداب بانو ! ‘‘ بھلا یہ ’’انداز‘‘ کس انداز کا
نام ہے؟‘‘ وہ اکثر جھنجھلا کر سوچتی ۔’’یہ بھی کوئی رکھنے کا نام
ہے۔۔۔۔فرناز ہی رکھ دیتے‘‘۔اپنا نام بتاتے وقت اسے ہمیشہ سے ہی خفت کا
احساس ہوتا تھا۔ اس لئے اس نے وقت کے ساتھ ساتھ نئے مقام پر نئے انسانوں کے
ساتھ اپنا تعارف بانو بنتِ نواب ممتاز کرایا۔
اب بھی حسبِ معمول انہوں نے اسے اس کے پورے نام سے مخاطب کیا۔
’’جی ابو جی آئی‘‘ اس کے بجائے چھوٹی گوہر نے جواب دیا تو وہ چونک کر بہن
کو دیکھنے لگی جو کمرے میں رکھے صوفوں کے سیٹ کور تیزی سے اتار کر دھونے کے
لے ڈھیر کررہی تھی۔پرانے اسٹائل کے صوفوں کی یہی خوبی ہے کہ سیٹ کشن فکس نہ
ہونے کی بنا پر جب چاہو ان کو دھو دھلا کر چمکالو۔گھر بھی اجلا اور چیز کا
ضیاع بھی نہیں جو نئے اسٹائل کا مقدر ہے۔جب تک کپڑا تبدیل نہ کراؤ اس وقت
تک فرنیجر پر میل کچیل ہی جما رہتا ہے۔
’’انداز بانو کو آواز دی ہے میں نے ‘‘ ابو نے گوہر کو جتایا۔
’’ ابو جی بانو تیاری میں مصروف ہے میں آتی ہوں بس دو منٹ میں ‘‘ ۔انداز
بانو نے محبت سے بہن کو دیکھا جو ہمیشہ سب گھر والوں کے کام بنا جتائے اس
طرح کردیتی تھی کہ انداز بانو کو یقین ہوجاتا کہ نام کا اثر انسانوں پر
ضرور آتا ہے۔
’’گوہر تم واقعی گوہر نایاب ہو!‘‘ وہ بہن کو کہنا نہ بھولتی ۔جب جاب پر
جاتے وقت اسے ٹفن میں کچھ نہ کچھ ضرور دیتی،اس کے لائے کپڑوں کو بنا کہے سی
کر اس کی الماری میں رکھ دیتی ،آفس سے واپسی پر گرم گرم چائے حاضر کرتی یا
اس جیسے کئی اور کام گوہر اس طرح کرتی جیسے یہ سب اس کا فرض عین ہو۔
گھڑی کا اسٹرپ بند کرتی جب وہ باہر آئی تو گوہر ابو کو ناشتہ دے رہی
تھی۔ابو کو ڈبل روٹی کا ناشتہ کبھی پسند نہ تھا،انداز بانوکے ہاتھ کے
پراٹھے ان کا مرغوب ناشتہ تھا۔آج وہ ڈبل روٹی کا ناشتہ کررہے تھے۔انداز
بانو کے پاس احساس کرنے کا وقت بھی نہ بچاتھا۔بجلی کی غیر متوقع لمبے
دورانئے کی غیر حاضری نے سارا شیڈول چوپٹ کردیا تھا۔
’’امی آج واپسی پر مجھے دیر ہوجائے گی۔‘‘ عجلت بھرے انداز کے ساتھ کہتی
ہوئی وہ باہر نکل گئی۔
تنگ سی گلی کے سرے پر کھڑی سرمئی ایف ایکس کا انجن اسٹارٹ کرتے ہی سیل فون
کی مخصوص رنگ ٹون نے اس کے چہرے پر مسکرہٹ بکھیر دی۔’’ہاں شام کو ملیں گے‘‘
اس نے فون ریسیوکرتے ہوئے مختصر سی بات کی اور گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی۔
انداز بانو نے بنک کی نوکری کے 4سال بسوں میں سفر کرکے ہی پورے کئے تھے
۔نوکری کرنا طبقہ امراء کی خواتین کی طرح اس کا شوق نہیں تھا مگر پھر وہ
پھر بھی نوکری کرتی تھی۔ابو کسی سپر مارکیٹ میں سالہا سال سے کیشئر تھے۔کیش
ان کی انگلیوں کے درمیان سے ڈھیروں گزرتا تھا لیکن ان کے اپنے ہاتھ میں بس
اتنا ہی رکتا تھا جس سے وہ گھر کا کھانا پینا،سال بھر کے دوچار جوڑے اور
ایک آدھ یوٹیلٹی بل ادا کرسکیں۔بیٹا کوئی تھا نہیں ،بس تین بیٹیاں تھیں
بیٹا ہوتا بھی تو کیا ضروری تھا کہ گھر میں ہُن برستا۔لڑکیوں کو ان کی بیوی
کوثرنے سلائی میں مہارت کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح محلے کے اسکولوں میں
پڑھایا وہ بہ خوبی جانتے تھے۔بے خبر نہ تھے مگر باخبر ہونا ظاہر نہ کرتے
تھے ۔جس بوجھ کو اٹھا نہیں پاتے تھے اس کا ذکر بھی تکلیف دہ تھا۔ا س لئے جب
کوثر نے انداز بانو کی اپنی بہن کے بیٹے سے نسبت طے کرنا چاہی تو وہ خاموش
رہے ’’ اور بھلا میں بولوں بھی تو کس بنا پر ،بچوں کی ساری محنت تو یہ نیک
بخت ہی کرتی ہے،اب اس کی خوشی میں کیا رخنہ ڈالنا‘‘نواب ممتاز نے بیوی کے
بڑی قدردانی سے سوچا۔
18سالہ انداز بانوکو سکھر والی خالہ نے بڑے ارمان کے ساتھ اپنے اکلوتے بیٹے
کے نام کی انگوٹھی پہنائی تو کوثر ممتاز عرصے بعد آسودگی کا احساس ہوا۔ سچ
ہے ماں باپ کی خوشیاں اور غم تو جیسے بچوں سے بڑے ہوتے ہیں ۔وہ خوش تو ہم
خوش وہ افسردہ ۔نواب ممتاز نے آف وائٹ سوٹ میں گجرے پہنی بیٹی کو دیکھا جو
دلہن سی بنی کسی بات پر مسکراتی گڑیا لگ رہی تھی۔
انداز بانو کے انداز واقعی مختلف ہی تھے جبھی سپر مارکیٹ میں آنے والے لگے
بندھے گاہکوں میں سے ایک خاتون بینک آفیسر کی نگاہ اس پر پڑی۔کالج یونیفارم
میں شیشے کے دروازے کے قریب کھڑی مسلسل باپ کو دیکھ رہی تھی۔کالی چادر میں
لپٹی وہ اس جگہ سے قطعاً میچ نہیں کررہی تھی۔ اس کے چہرے پر چھایا تاثر اسے
ماحول ہم آہنگ نہیں ہونے دے رہا تھا۔
’’نواب صاحب یہ لڑکی آپ کی بیٹی ہے کیا؟‘‘خاتون نے بل بنوانے کے بعد
شائستگی سے اس کی طرف غیر محسوس انداز میں اشارہ کیا۔
جاری ہے |