جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا گیا تو ان کے لیے دودھ لایا گیا، جیسے ہی آپ نے دودھ پیا تو وہ آپ کی پسلیوں کے زخم سے بہہ نکلا۔ طبیب نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! وصیت فرما دیں، آپ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکیں گے۔
تو انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا اور کہا کہ حذیفہ بن الیمان کو میرے پاس کو بلاؤ۔ حذیفہ بن الیمان حاضر ہو گئے۔ یہ وہ صحابی ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے منافقین کے ناموں کی فہرست عطا کی تھی اور ان ناموں کے بارے میں اللہ پاک، اس کے رسول ﷺ اور حذیفہ بن الیمان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
حضرت عمر نے پوچھا جبکہ خون ان کی پسلیوں سے بہہ رہا تھا۔ کہ اے حذیفہ بن الیمان میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں! کیا اللہ کے رسول ﷺ نے میرا نام منافقین کے ناموں میں لیا ہے یا نہیں؟
یہ سن کر حذیفہ بن الیمان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا! یہ میرے پاس رسول اللہﷺ کا راز ہے جو میں کسی کو نہیں بتا سکتا۔ آپ نے پھر پوچھا! خدا کے لیے مجھے اتنا بتادیں، اللہ کے رسول ﷺ نے میرا نام شامل کیا ہے یا نہیں؟
حذیفہ بن الیمان کی ہچکی بندھ گئی اور کہتے ہیں! اے عمر! میں صرف آپ کو بتا رہا ہوں اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں کبھی بھی اپنی زبان نہ کھولتا اور وہ بھی صرف اتنا بتاتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے اس میں آپ کا نام شامل نہیں کیا۔
حضرت عمر نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا! کہ دنیا میں میرے لیے ایک چیز باقی رہ گئی ہے۔ حضرت عبداللہ نے پوچھا! وہ کیا ہے ابا جان؟
حضرت عمر نے فرمایا! بیٹا میں جوار رسول ﷺ میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔ لہذا ام المؤمنین حضرت عائشہ کے پاس جاؤ، ان سے یہ مت کہنا کہ امیر المؤمنین عمر بلکہ کہنا کہ کیا آپ عمر کو اپنے ساتھیوں کے قدموں میں دفن ہونے کی اجازت دیتی ہیں؟ کیونکہ آپ اس گھر کی مالکن ہیں۔ تو ام المؤمنین نے جواب دیا کہ یہ جگہ تو میں نے اپنے لیے تیار کر رکھی تھی لیکن آج میں اسے عمر کے لیے ترک کرتی ہوں۔
عبداللہ ابن عمر شاداں و فرحاں واپس آئے اور عرض کی، اجازت مل گئی ہے۔ عبداللہ ابن عمر نے دیکھا کہ حضرت عمر کا رخسار مٹی پر پڑا ہے تو انہوں نے آپ کا چہرہ اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا۔ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیوں تم میرا چہرہ مٹی سے بچانا چاہتے ہو۔ عبداللہ ابن عمر نے کہا ابا جان۔ لیکن حضرت عمر نے بات کاٹتے ہوئے فرمایا کہ اپنے باپ کا چہرہ مٹی سے لگنے دو۔ بربادی ہے عمر کے لیے اگر کل اللہ پاک نے اسے نہ بخشا۔
حضرت عمر اپنے بیٹے کو یہ وصیت فرما کر موت کی آغوش میں چلے گئے! اے میرے بیٹے میری میت مسجد نبوی میں لے جانا اور میرا جنازہ پڑھنا اور حذیفہ بن یمان پر نظر رکھنا، اگر وہ میرے جنازے میں شرکت کریں تو میری میت روضہ رسولﷺ کی طرف لے جانا۔ اور میرا جنازہ روضة الرسولﷺ کے دروازے پر رکھ کر دوبارہ اجازت طلب کرنا اور کہنا! اے ام المؤمنین آپ کا بیٹا عمر یہ مت کہنا کہ امیر المؤمنین، ہو سکتا ہے میری زندگی میں مجھ سے حیا کی وجہ سے اجازت دی گئی ہو، اگر اجازت مرحمت فرما دیں تو دفن کرنا ورنہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔
عبداللہ ابن عمر کی نظریں حذیفہ بن الیمان پر تھیں. وہ کہتے ہیں کہ میں حذیفہ بن یمان کو ابا جان کی نماز جنازہ پر دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہم جنازہ لے کر روضہ رسول کی طرف چلے گئے۔ دروازے پر کھڑے ہو کر میں نے کہا۔ "يا أمنا! ولدك عمر في الباب هل تأذنين له"؟ اے ہماری ماں، آپ کا بیٹا عمر دروازے پر ہے، کیا آپ تدفین کی اجازت دیتی ہیں؟ ام المؤمنین نے جواب دیا! مرحبا یا عمر۔ عمر کو اپنے ساتھیوں کی ساتھ دفن ہونے پر مبارک ہو۔ ام المؤمنین نے اپنی چادر سمیٹی اور روضہ رسولﷺ سے باہر نکل آئیں۔ رضي الله عنهم و رضو عنه. اللہ پاک راضی ہو حضرت عمر سے، زمین کا چپہ چپہ جن کے عدل کی گواہی دیتا ہے، جن کی موت سے اسلام یتیم ہو گیا، جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے زندگی میں جنت کی خوشخبری دی ہو پھر بھی اللہ کے سامنے حساب دہی کا اتنا خوف! ہمارا کیا بنے گا؟
|