مزدور کہنے کو تو ایک محنت کش اور غریب طبقہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تو یہ بہت ہی قابل احترام ہے، یہ اپنی دن رات کی محنت سے وہ کارنامے انجام دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جائے لیکن اس کے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو اس کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کی محنت کو تسلیم کیا جاتا ہے، محنت کش افراد گھروں اور عمارتوں کو حسین اور خوبصورت بنا کر ملک اور شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں، کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنے خون پسینے کی محنت سے وہ غلہ اور اناج تیار کرتے ہیں جو ہماری صحت کا ضامن بنتا ہے۔
مزدور اپنی رزق کی خاطر دوسروں کے گھروں کی تعمیر میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنے لیے زمین پر ایک گھر بھی نہیں بنا سکتے، دوسروں کی فرمائشوں کے مطابق گھروں کی تزئین اور آرائش میں ساری زندگی صرف کر دیتے ہیں لیکن اپنے لیے خوشی کا ایک لمحہ بھی نہیں سمیٹ سکتے۔ نہ صرف یہ بلکہ صاحب ثروت افراد کے زیر عتاب بھی رہتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے حقوق بھی اس طرح مانگتے ہیں جیسے کوئی گناہ کررہے ہوں۔ ہمارے یہاں مزدوروں کی مراعات اور سہولیات کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا، یہاں تک کہ مزدوروں کے عالمی دن پر جو خاص ان کے لیے سال میں ایک مرتبہ آتا ہے اس پر بھی یہ غریب مزدور چھٹی نہیں کرتا ، اپنے اور گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے نہ سردی، نہ گرمی، نہ بارش نہ دھوپ کسی چیز کی پروا نہیں کرتا یہاں تک کہ آرام کی پروا بھی نہیں کرتا اور آخری سانس تک محنت کش مزدور ہی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا دامن ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے دنیا بھر میں لیبر ڈے یعنی مزدوروں کا عالمی دن ہر سال یکم مئی کو منایا جاتا ہے، جس کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے ان محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے جنھوں نے اپنے حقوق کی خاطر اپنی زندگیوں کو نہ صرف خیر باد کہا بلکہ بہت سے مزدور ں پر ایسا ظلم بھی کیا گیا جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور ان کے مطالبات کو نہیں مانا گیا۔
انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن 1 مئی ہے۔ 1886ء میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا، مگر ان جاں نثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو بھرپور کر دیا۔ مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہیں۔
*یوم مزدور کا پس منظر*
یورپ اور امریکا میں جب سرمایہ دارانہ نظام نے سر اٹھایا تو اس کا سارا نزلہ محنت کش مزدروں پر گرا، مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جانے لگا اور ان کے کام کے اوقات بھی طے نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں کبھی
ان سے 12، کبھی 14 اور کبھی تو 18 گھنٹے تک بھی ملوں اور فیکٹروں میں کام لیا جانے لگا۔اس پر ستم یہ کہ انھیں کوئی چھٹی بھی کرنے کی اجازت نہیں تھی جس کی وجہ سے بہت سے مزدور محنت کرتے کرتے بیمار ہو جاتے اور پھر انھیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا
مزدوروں سے اتنا سخت کام لیا جاتا اور ان کے ساتھ ایسا غیر انسانی رویہ اختیار کیا جاتا کہ تاریخ بھی رو پڑے۔مزدور بے چارے اپنے پیٹ کی بھوک کو مٹانے اور اپنے گھر کو چلانے کے لیے سرمایہ داروں کی نہ صرف بری بھلی باتیں برداشت کرتے بلکہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کو اپنے لیے جرم سمجھتے ۔مزدوروں پر جب ظلم و ستم کے پہاڑ حد سے زیادہ ٹوٹے تو ان میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد پیدا ہوئی اور انھوں نے اس ظالمانہ نظام سے بچنے کے لیے تحریک کا آغاز کیا۔
یہ 1886کی بات ہے جب یکم مئی کو تمام مزدوروں نے ہمت کرتے ہوئے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔3 مئی کی یہ ہڑتال بہت حد تک پرامن بھی رہی لیکن وہاں کی پولیس کو یہ پرامن ہڑتال گوارہ نہ ہوئی اور اس نے ایک فیکٹری میں گھس کر بے دردی سے 6،7 مزدوروں پر فائرنگ کرتے ہوئے انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مئی کی 4 تاریخ کو ایک روز قبل پیش آنے والے واقعے یعنی 3 مئی کو ہلاک کیے جانے والے مزدوروں اور محنت کشوں سے یکجہتی کے طور پر شکاگو میں پرامن ریلی نکالی گئی جس میں موجود ہر مزدور کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ، کہ "ہماری ڈیوٹی کے ٹائم 8 گھنٹے کیے جائیں" مزدور رہنماؤں نے جلسوں میں تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ وہاں پر پولیس نے اپنی کاروائی کا آغاز کر دیا، پولیس کو فنڈنگ سرمایہ داروں نے اتنی زیادہ کردی تھی کہ پولیس نے مزدوروں کے ساتھ ظلم کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی یہاں تک کہ پولیس نے خود اپنے ہاتھوں سے بم پھینکا جس میں ایک پولیس والا ہلاک ہوا اور اس کا الزام پرامن ریلی نکالنے والے مزدوروں پر ڈال کر ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی۔اس کے بعد پولیس نے وہاں پر موجود مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں برسنا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں لاتعداد مزدور ہلاک اور زخمی ہو گئے، فرش خون سے سرخ ہو گیا، فضا میں اداسی چھا گئی ، تاریخ بتاتی ہے کہ انھی میں سے ایک شخص نے خون میں ڈوبی ہوئی اپنی قمیض ہوا میں لہرائی جس کے بعد سرخ رنگ مزدوروں کا علامتی رنگ بن گیا
اس واقعے میں 6 پولیس اہلکار ہلاک اور 4 بے گناہ محنت کش بھی شامل ہیں یہی وہ لمحہ تھا جب مزدور تحریک کا آغاز ہوا، جسے ہم ہر سال یوم مزدور کے طور پر مناتے ہیں، جس کے بعد مزدوروں پر مقدمے تیار کیے گئے، انھیں پھانسیاں دی گئیں، انھیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں لیکن مزدوروں کی ہمت اور طاقت اور ان کے جذبوں کو کوئی بھی مسمار نہ کرسکا وہ اسی طرح آج بھی اپنی تحریک کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے کوشاں ہیں
دراصل یکم مئی 1886کو امریکی شہر شکاگو میں اپنے حقوق کیلئے جمع ہوئے مزدوروں پر پولیس نے گولی چلا دی تھی۔یہ واقعہ عدالت میں گیا اور اس واقعہ کا مقدمہ 21 جون 1886 کو کریمنل کورٹ میں چلا۔ دفاع میں کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سماج کو بچانے کے لیے ان مزدوروں کو سزا دی جائے جس پر19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی۔
پانچ مزدوروں کو موت کی سزا کے علاوہ کئی اور مزدوروں کو بھی سزائیں سنائی گئیں جس میں ر نیبے کو 15 سال قید، شواب اور فلڈن کو عمر قید سنائی گئی ایک مزدور لیڈر لنگ نے قید میں خودکشی کر لی تھی ۔11 نومبر 1887 کو مزدور رہنماؤں اینجل، اسپائز، پارسنز اور فشر کو پھانسی دے دی گئی، ان میں سے صرف دو افراد امریکی شہری تھے باقی انگلینڈ، آئرلینڈ اور جرمنی کے شہری تھے۔ ان رہنماؤں کے جنازے میں 6 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔
1889میں پیرس میں ’انقلاب فرانس‘ کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقعے پر ریمونڈ لیونگ نے یہ تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے۔ یوم مئی عالمی طور پر منانے کے لیے اس تجویز کو باقاعدہ طور پر 1891 میں تسلیم کر لیا گیا۔ اب دنیا بھر میں قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یکم مئی کو دنیا کے کچھ ممالک لیبر ڈے کے طور پر مناتے ہیں ۔ 1893میں جب ایک نئے گورنر کی تقرری ہوئی جو ترقی پسند تھا اس نے عمر قید کے مزدوروں کو نہ صرف معافی دی بلکہ ان کے مقدمات پر مذمت کا اظہار بھی کیا
اس کی بعد باقاعدہ 1889 میں "انقلاب فرانس" کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمنڈ لیون کی تجویز پر 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں پہلی مرتبہ یکم مئی منایا گیا۔ اب دنیا بھر میں قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے مزدوروں نے اپنی تحریک اور قربانیاں سے بہت سے نتائج حاصل کیے۔
*یوم مزدور پر حاصل ہونے والے حقوق*
1: روزانہ 12سے 18گھنٹے کام کرنے کی بجائے 8 گھنٹے کام کا حق
2: ہفتے میں ایک چھٹی لازمی کرنے کا حق
3: مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ٹریڈ یونین کا حق
4: مزدوروں کی ملازمت کے تحفظ کا حق
5: مزدوروں کے لیے لیبر کورٹ کے قیام کا حق
6: مزدور خواتین کے لیے دروران حمل چھٹیوں کا حق
مزدوروں کا عالمی دن ویسے تو یکم مئی کو منایا جاتا ہے لیکن کچھ ممالک اسے مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں لیکن ان کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے جو یکم مئی کو منائے جانے کا مقصد ہے۔لہٰذا ہر سال یکم مئی کو چھٹی منانے، پروگرام منعقد کرنے سے مزدوروں کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ان کا حق ادا کرنے کے لیے ان کے ساتھ انسانی رویہ اور ان کی معاشی خدمت بہت ضروری ہے
|