(یہ مضمون’دانش گاہ اقبال‘ جس کے رُوحِ رَواں ڈاکٹر عابد
شیرانی ہیں کی تیسری نشست
منعقدہ 25اپریل 2024ء کو پڑھا گیا)
آج کی نشست اور موضوع میرے لیے کئی اعتبار سے منفرد اور اہم ہے۔ میں اقبال
کی چاہت اور اس کا عاشق ضرور ہوں لیکن علامہ اقبال پر میرا مطالعہ اتنا
وسیع اور عمیق نہیں، مجھے اپنی کم مائیگی کا پوری طرح ادراک ہے۔مَیں اقبال
پر مختصر مختصر لکھتا رہا ہوں، بر سبیل ِ تذکرہ بات 1988ء یعنی 36سال قبل
کی ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی کتاب ”اقبال اور جدید دنیائے اسلام:
مسائل، افکار اور تحریکات“پر میں نے تفصیلی تبصرہ لکھا تھا جو کراچی کے ایک
جریدہ میں شائع بھی ہوا تھا۔ اس کتاب نے مجھے اقبال سے صحیح معنوں میں
روشناس اس طرح کرایا کہ میں نے اقبال کوجاننا شروع کیا، پہچاننا شروع کیا،
اس کی شاعری اور اقبال کی نثر کا مطالعہ کرنے لگا۔ اس کتاب پر یہ تبصرہ
اقبال پر میری اولین تحریر تھی۔ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے بعد ایک اور
اقبال شناس جناب ”افضل رضوی“صاحب جو میرے کرم فرمااور چاہت رکھنے والے ہیں،
آسٹریلیا میں مقیم ہے اقبال پر ان کا کا م تعداد اور معیار کے اعتبار سے
بہت اعلیٰ ہے، میں نے ان کی تحریروں کا بھی عمیق مطالعہ کیا اور اقبال کو
نباتات کے حوالے سے جان سکا۔ ان کی کتاب ”دَربَرگِ لالہ و گل: کلام اقبال
میں مطالعہ نباتات“ جس میں 100 سے زائد مختلف النوع پھولوں، پھلوں، جڑی
بوٹیوں، اشجاار، اجناس کے علاوہ 60 جانوروں جن کا ذکر اقبال کے اشعار میں
ملتا ہے۔ چند ہی دن ہوئے ان کی ایک اور کتاب اقبال کے حوالے سے شائع ہوئی
جس کا عنوان ہے ”آسٹریلیا میں اقبالیات کی خشتِ اول“ جو افضل رضوی اور
ڈاکٹر عزیز الرحمن نے مرتب کی اور مجھ ناچیز کو اس کا دیباچہ لکھنے کا
اعزاز بھی حاصل ہوا۔ کچھ ہی عرصہ ہوا ایک اور اقبال شناس سے شناسائی ہوگئی
وہ شناسائی مجھے آج اس محفل میں لے آئی۔ وہ شخصیت ہے ایڈووکیٹ ڈاکٹر عابد
شیروانی صاحب کی۔ اقبال پر ان کی تصانیف میرے مطالعہ میں رہیں اور اب بھی
ہیں۔ ان اقبال شناساؤں کے توسط سے میں نے اقبال کو اس کی نثر و نظم اور
اقبال شناساؤں کی تحریروں سے جانا، پہچانا اور اس
قابل ہوسکا کہ اقبال پر کچھ بول سکوں اور لکھ سکوں۔
اب میں آج کے موضوع کی جانب آتا ہوں جس کا موضوع اقبال اور محنت کش طبقہ
یعنی مزدور ہے۔
اقبال نے اپنے نظریات، خیالات اور فکر میں مزدورکی قدر و منزلت کے حوالے سے
بہت کچھ کہا۔ اقبال کی ذہانت، سوچ، فکر، فلسفہ، شاعری نے اقبال کو اقبال
بنادیا۔یہ سچ ہے کہ اقبال خود سے بھی آگاہ نہیں تھا کہ وہ کوئی عام انسان
نہیں۔مزدور کے حوالے سے اقبال کے ہاں محنت کش کی عظمت کا ادراک پایا جاتا
ہے۔ اقبال نے اس عمل کا ادراک کرتے ہوئے اپنے بارے میں کہا ؎
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اس نے کم وقت میں جن جن موضوعات پر نثر اور نظم میں لکھا اس کی مثال کم کم
ملتی ہے۔ اقبال نے 16 برس کی عمر سے شاعری شروع کی، 1877ء میں پیدا ہوا
اور1938ء میں وفات پائی، کوئی ۱۶ سال وہ اس دنیا میں رہا، اگر16سال نکال
دیں تو اس کی زندگی کے بچتے ہیں 45 سالوں میں اس کے علمی، ادبی اور سیاسی
میدان میں جتنا کچھ علمی ادبی سرمایا اقبال چھوڑ گیا وہ تعداد اورمعیار کے
اعتبار سے مثالی ہے۔ کونسا موضوع ہے جس پر اقبال نے نثر یا نظم میں کچھ
نہیں کہا، بڑوں کے لیے، بچوں کے لیے، جوانوں کے لیے، مزدوروں کے لیے غریبوں
کے لیے، امیروں کے لیے، سیاست دانوں کے لیے، معیشت دانوں کے لیے، چرند
پرند، چوپائے، پھول، پتیاں، جڑی بوٹیاں، آسمان، ستارے، دنیا الغرض جہاں
دیکھو اقبال ہی اقبال
دکھائی دیتا ہے۔
شعر و ادب میں اقبال ہی اقبال دکھائی دیتا ہے
نہ وہ کسی جیسا ہے نہ کوئی اس جیسا دکھائی دیتا ہے
(ڈاکٹر رئیس صمدانی)
علامہ اقبال کا ایک شعر جو اقبال کے بندہ ئ مزدور کی پہچان کراتا ہے۔
تو قادرو عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کس قدر حق وسچ، دل کو لگتی بات اقبال نے محنت کش طبقہ کے بارے میں کہی ہے۔
اقبال تو مزدور کا درداور کسک رکھتا تھا اس نے محنت کش کی محنت کا احساس
کیا اور اسے اشعار میں پیش کردیا۔ ہمارے معاشرہ میں ایسے بھی تو شاعر گزرے
ہیں ممکن ہے اب بھی ہوں جو عملی طور پر محنت مزدوری کر کے گزر بسر کیا کرتے
ہیں۔ جسمانی محنت اور مشقت کرنے والے مزدوور کی تعریف میں آتے ہیں۔یہاں دو
شاعروں کی بات کرنا چاہوں گا۔ ایک میرے ہم وطن جہان دانش کے خالق ”احسان
دانش“ کسے نہیں معلوم کہ احسان دانش نے کیا کیا محنت، مزدوری کی،اس کی
تفصیل میں نہیں جاؤنگا، ایک شعر احسان دانش کامزدور کے حوالے سے ؎
شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
کراچی کے ایک اور شاعر استاد قمر جلالوی سائیکلوں کی دکان اور پنکچر لگایا
کرتے تھے، جب فرصت کے لمحات میں سیگریٹ کی ڈبیہ کو کھولتے اور اس پر شعر
لکھ لیا کرتے۔ محنت مزدوری کا عملی مظاہرہ اور شاعری کے اعتبار استاد کی
کیا بات تھی۔ ایک واقعہ اور اس سے جڑا یک شعر عرض کر نا چاہوں گا۔ معروف
افسانہ نگار وحیدہ نسیم نے ایک دن استاد سے ازراہ مزاق کہا کہ استاد جی آپ
پوری پوری غزل کہتے ہیں، مزاہ تو جب ہے کہ مشاعرہ میں صرف ایک شعر پڑھیں
اور مشاعرہ میں واہ واہ ہوجائے۔ یہ بات استاد کے دل کو لگ گئی، کچھ دن بعد
مشاعرہ تھا، استاد قمر جلالوی اسٹیج پر تشریف لائے، وحیدہ نسیم بھی سامنے
مہمانوں میں تشریف فرما تھیں۔ استاد نے مائیک سنبھالہ اور یہ شعر پڑھا ؎
پچھتا رہا ہوں میں نبض دکھا کر حکیم کو
نسخے میں لکھ د یا ہے وحیدہ نسیم کو
داد دینے والوں نے کھڑے ہوکر خوب داد دی، اس دوران وحیدہ نسیم مشاعرہ سے
جاچکی تھیں۔
شگاگوکا واقع 1886ء میں رونما ہوا جس میں مزدوروں نے اپنے لہو سے تاریخ رقم
کی کہ ان کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید ہوگیا۔ اقبال اس وقت 9 سال کے تھے
لیکن اس واقع کے اثرات، مزدوروں کا درد اور مغرب میں اٹھنے والی محنت کشوں
کی تحریک کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی ایک نظم ”خضر
راہ“ میں سرمایہ اور محنت میں محنت کشوں کو امید کا پیغام دیتے دکھائی دیتے
ہیں۔ مغرب کے مزدوروں کی طرح
مشرق کے مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ دیا ؎
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
سرمایہ دار ی نے محنت کش طبقہ کاجو استحصال کیا اس پر اقبال اپنے شدید دکھ
کا احساس کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں۔ وہ اشتراکیت مخالف سوچ رکھتے تھے۔
سرمایا جمع کرنے سرمایہ داری اوجاگیر داری، مزدور کے استحصال کو ناپسند کیا
کرتے۔ اس حوالے سے اقبال نے کہا ؎
تدبر کی فسُوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بِنا سرمایہ داری ہے
مزدور کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں ؎
بندہ مزدور کو جاکر میراپیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائینات
پھرسرمایہ پرستی کے ڈوبنے کی بات کرتے ہوئے سوال بھی کرتے ہیں ؎
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
اسی حوالہ سے ایک اور شعردیکھئے ؎
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
ان الفاظ کے ساتھ اپنی گفتگو کا اختتام کرتاہوں۔ کوئی لفظ، جملہ غلط پڑھا
گیا ہو تو اس کی معزرت چاہتا ہوں۔ (25ء مئی2024ء)
|