بوڑھے بھی اب دعا نہیں دیتے

بقول شخصے وقت کے ساتھ اقدار اور روایات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ خاندان،معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس اکائی کو توڑنے میں تجدد پسندوں(مغرب پرستوں) نے اپنا پورا زور لگایا۔طویل عرصے سے جاری مذموم کوششوں کے مسموم نتائج اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔

نانا، نانی ،دادا، دادای کی محبتوں کا ذکر ہی کیا پھوپھو،خالہ،ماموں،چچا، خالو، پھوپھا وغیرہ حتیٰ کہ بڑے بھائی بہن اور کزنز بھی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتے تھے کہ اس کی مثال اب شاید ہی مل سکے۔سچی محبت و لگاؤٹ سے بھرے ان رویوں نے رشتوں کی عظمت و تقدس کو چار چاند لگائے تھے۔

اچھنبے والی بات تو یہ ہے کہ ماموں،چچا،خالہ و پھوپھو اور کزنز کی عمروں میں کوئی خاص تفاوت نہ ہونے کے باوجود بھی ان کا محبت آمیز اور شفقت سے بھرا رویہ رشتوں کو تقدس اور بزرگی عطا کرتا تھا۔اپنی اولاد کی طرح چھوٹوں سے خیرخواہی کے جذبے نے معاشرے کو مثالی اور خوب صورت بنائے رکھا۔بات یہاں تک ہی محدود نہیں تھی پڑوسیوں کی بھی خونی رشتے داروں کی طرح عزت کی جاتی تھی۔ ہرگلی میں موجودخالو،ماموں اور چچا بچوں کی تربیت میں اپنا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور ڈالا کرتے تھے۔ بچے حقیقی رشتہ داروں ہی کی طرح ان کی عزت اوران سے محبت بھی کیا کرتے تھے۔چچا، خالو، ماموں اردو کے ان محبت آمیز رشتوں کی جگہ جب سے انگریزی کے انکل اور آنٹی نے لی ہے تب سے یہ بزرگی و شفقت سے بھرے رشتے بھی فیشن زدہ معاشرے کا ایک حصہ بن کر اٹکل پچو حرکات کرنے پر اتر آئے ہیں۔اب بوڑھیاں آنٹی ازم اور بوڑھے انکل ازم سے بچنے اور خود کو عمر میں کم اور عقل میں زیادہ ثابت کرنے کی چکر میں ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگے ہیں کہ لاکھ روکنے پر بھی ہنسی نکل ہی جاتی ہے۔

بزرگی پر پردہ کیا پڑا،رشتوں اور محبت پر بھی نقب لگ گئی۔محبت،بزرگی و شفقت بھرے رویوں سے جہاں رشتوں کے تقدس میں مزید اضافہ ہوتا تھا وہیں اِس کمی نے رشتوں کو بے وقعت کردیا اوربڑوں کی بے ادبی کو فیشن کے زمرے میں شامل کردیا گیا۔

محبت شفقت اور لگاؤٹ سے بھرے رشتوں کی بچے دل سے قدر کرتے تھے اور ان کی محبت و شفقت کا جواب بھی نہایت عزت تکریم و قدردانی سے دیا کرتے تھے۔

عمروں میں پائے جانے والے برائے نام تفاوت کے باوجود رشتے کی بزرگی اور تقدس کا اتنا پاس و لحاظ تھا کہ اپنے سے دو تین سال چھوٹے بھائی بہن کو بھی بیٹا بیٹی،بابا،بچی،بچہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔آج عمروں میں پائے جانے والے نمایاں فرق کے باوجود خود کو جوان ظاہر کرنے کے چکر نے، نہ صرف رشتوں سے مٹھاس اور تقدس کو نچوڑ لیا بلکہ خود ساختہ جوانوں (بوڑھے مردوزن) نے معاشرے کی ایک بہت ہی خوب صورت اور مضبوط کڑی کو بھی توڑ ڈالا۔ آج کے طرز زندگی اورطرزتخاطب سے رشتوں میں دوریاں پیدا ہونااور رشتوں کا تقدس پامال ہونا ایک فطری امر ہے۔

نانی نانا، دادا، دادی پھوپھو،خالہ بڑے بھائی بہن کزنز و دیگر رشتے محبت اور ایثار و قربانی کا پیکرتھے۔ان کی محبت وعنایات کسی بھی صلے ستائش عطا و جزا کے جذبے سے بالکل پاک تھی۔اس بے لوث محبت کو فرمانبرداری، اطاعت عزت و تکریم کی صورت میں انھیں واپس بھی لوٹایا جاتا تھا۔
بزرگوں اور بڑوں کے لبوں پر سجی دعاؤں اور پند و نصائح سے ہر ایک فیضیاب ہوتا تھا۔بزرگ اپنی دعاوں سے چھوٹوں کی زندگیاں سنوارتے تھے۔ انھوں نے صرف دعاؤں پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ عملی اقدامات سے اپنے رشتے اور محبت پر صداقت کی مہر بھی ثبت کی۔

جیتے رہو،عمر دراز ہو،جگ جگ جیو،اﷲ رزق میں برکت دے،چاند سی دلہن دے،نصیبہ نیک کرے(لڑکیوں کے لیے)،جس گھر میں جاؤ راج کرو(لڑکیوں کے لیے)،اﷲ چاند سی دلہن دے،اﷲ چاند سا بیٹا دے،،اﷲ اولاد کی نعمت سے نوازے،اﷲ اولاد کا سکھ دے،دودھو نہاؤ پوتو پھلو،سدا سلامت رہو، شادو آبادرہو،سداخوش رہو۔یہ ایسی دعائیں تھیں جن سے بزرگ اور بڑے اپنے چھوٹوں کی زندگیاں سنوارتے تھے۔

بزرگوں کے لبوں سے اب ایسی دعائیں میں نے بہت کم ہی نکلتے ہوئے دیکھی ہیں۔میری نظر میں بوڑھوں کو اپنی دعاؤں کے قبولیت میں کوئی شک ہے نہ ان کے دل ابھی اتنے تنگ ہوئے ہیں کہ وہ دعاؤں میں کنجوسی و بخالت سے کام لے رہے ہیں۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ اب بوڑھے بزرگی و بَڑپن (بوڑھے تو ہورہے ہیں لیکن بزرگی کی دہلیز پر قدم رکھے بغیر) تک پہنچ ہی نہیں پارہا ہے اور بالفرض اگر پہنچ بھی گئے ہوں تو اسے تسلیم کرتے ہوئے انہیں عار آتا ہے۔ اگر اپنے بڑھاپے کو تسلیم بھی کرلیا ہو توجس معاشرے میں وہ پروان چڑھے ہیں ہے اس نے ان کو بزرگی(بَڑپَن) کی عظمت سے ہی محروم کردیا ہے۔
ابھی دلوں کی طنابوں میں سختیاں ہیں بہت

ابھی ہماری دعا میں اثر نہیں آیا
 

farooq tahir
About the Author: farooq tahir Read More Articles by farooq tahir: 133 Articles with 265611 views I am an educator lives in Hyderabad and a government teacher in Hyderabad Deccan,telangana State of India.. View More