پاکستانی سیاستدانوں کو بھی قائداعظم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے

قائداعظم سفرِ ریل کے دوران اپنے لیے دو برتھیں مخصوص کرایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ کسی نے ان سے وجہ دریافت کی تو جواب میں انھوں نے یہ واقعہ سنایا ’’میں پہلے ایک ہی برتھ مخصوص کراتا تھا۔ایک دفعہ کا ذکر ہے، میں لکھنٔو سے بمبئی جا رہا تھا۔ کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر ریل رکی تو ایک اینگلو انڈین لڑکی میرے ڈبے میں آکر دوسری برتھ پر بیٹھ گئی۔ چونکہ میں نے ایک ہی برتھ مخصوص کرائی تھی، اس لیے خاموش رہا.

ریل نے رفتار پکڑی تو اچانک وہ لڑکی بولی ’’تمھارے پاس جو کچھ ہے فوراً میرے حوالے کردو، ورنہ میں ابھی زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہوں گی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرنا چاہتا ہے۔

“ میں نے کاغذات سے سر ہی نہیں اٹھایا۔اُس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں پھر خاموش رہا۔ آخر تنگ آ کر اُس نے مجھے جھنجھوڑا تو میں نے سر اٹھایا اور اشارے سے کہا ’’میں بہرہ ہوں، مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ جو کچھ کہنا ہے، لکھ کر دو۔‘‘اُس نے اپنا مدعا کاغذ پر لکھ کر میرے حوالے کر دیا۔میں نے فوراً زنجیر کھینچ دی اور اسے مع تحریر ریلوے حکام کے حوالے کردیا۔ اس دن کے بعد سے میں ہمیشہ دو برتھیں مخصوص کراتا ہوں۔‘‘

ا یک بار قائد اعظم محمد علی جناح سکول و کالج کے طلبا سے خطاب کر رہے تھے , ایک ہندو لڑکے نے کهڑے ہو کر آپ سے کہا کہ آپ ہندوستان کا بٹوارہ کر کے ہمیں کیوں تقسیم کرنا چاہتے ہیں , آپ میں اور ہم میں کیا فرق ہے.؟

آپ کچھ دیر تو خاموش رہے , تو اسٹوڈنٹس نے آپ پر جملے کسنے شروع کر دئیے , کچھ نے کہا کہ آپ کے پاس اس کا جواب نہیں , اور پهر ہر طرف سے ہندو لڑکوں کی ہوٹنگ اور قہقہوں کی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں .
قائد اعظم نے ایک پانی کا گلاس منگوایا , آپ نے تهوڑا سا پانی پیا پهر اسکو میز پر رکھ دیا , آپ نے ایک ہندو لڑکے کو بلایا اور اسے باقی بچا ہوا پانی پینے کو کہا , تو ہندو لڑکے نے وہ پانی پینے سے انکار کر دیا،

پهر آپ نے ایک مسلمان لڑکے کو بلایا , آپ نے وہی بچا ہوا پانی اس مسلم لڑکے کو دیا , تو وہ فوراً قائد اعظم کا جوٹها پانی پی گیا.

آپ پهر سب طلباء سے مخاطب ہوئے اور فرمایا , یہ فرق ہے آپ میں اور ہم میں .
ہر طرف سناٹا چھا گیا . کیونکہ سب کے سامنے فرق واضح ہو چکا تها

محمد علی جناح نے کبهی کسی کو گالی نہ دی اور نہ کبهی آپ نے بداخلاقی کی . آپ اپنی بات اس قدر ٹهوس دلائل سے پیش کرتے تهے کہ بڑے بڑے منہ میں انگلیاں دبا لیتے اور آپ کے سامنے لاجواب ہو جاتے .
قائد اعظم سے لوگوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی آپ سے ہاتھ ملا لیتا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا , اور سارا دن لوگوں کو بتاتا پهرتا کہ آج میں نے قائد اعظم سے ہاتھ ملایا ہے.

قائد اعظم محمد علی جناح اتنی مخالفت کے باوجود ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں گئے۔۔
اور کبھی بھی ایسے الفاظ اپنے منہ سے نہیں نکالے جن کے بعد یہ کہنا پڑے کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں...!!

یہ ہیں اصل میں ہماری قوم کے ہیرو ہماری نئی نسل کو پتہ ہونا چاہیے کہ لیڈر کیا ہوتا ہے اور سیاستدان کسے کہہ تے ہیں.

کاش آجکل کہ ہمارے سیاستدانوں کو بھی قائداعظم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما. آمین
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 378 Articles with 160308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.