کیا کسی کو یاد ہے کہ جمشید انصاری کون تھا؟ ایک مرتبہ پی
ٹی وی کے ایک پروگرام میں بھی اسے احمد فراز کی غزل "دوست ہوتا نہیں ہر
ہاتھ ملانے والا" گاتے دیکھا گیا تھا۔اس کی گائی ہوئی وہ غزل خاصی مقبول
ہوئی تھی۔ یہ جام جم جمشید انصاری تھا، پاکستان کا مایہ ناز کارٹونسٹ۔ زیدی
اور عزیز کارٹونسٹ کے بعد اس نوجوان، جمشید انصاری کا شمار پاکستان کے
تیسرے اور کراچی کے نمبرون کارٹونسٹ میں ہوتا تھا۔ روزنامہ مشرق اور ریڈیو
پاکستان کے ماہنامہ آہنگ سے وابستہ جمشید انصاری تیزی کے ساتھ ترقی کا سفر
طے کررہا تھا۔ صرف 27 سال کی عمر میں وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تھا۔
1977 میں تحریک نظام مصطفیٰ کے نام پر نو سیاسی جماعتوں نے بھٹو حکومت
گرانے کے لئے تحریک شروع کی جو خوں رنگ ہوتی گئی۔ جمشید انصاری حق گو صحافی
تھا، وہ مشرق اخبار میں اس تحریک کے بارے میں اصل حقائق کے مطابق کارٹون
بناتا تھا جس پر اسے شدت پسند علماء و مشائخ کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں
لیکن اس نے اپنا صحافتی فریضہ ایک مشن کے طور پر جاری رکھا۔ اس کے نتیجے
میں اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا۔وہ اس زمانے میں لنٹاس ایڈورٹائزنگ
کمپنی میں آرٹسٹ کے طور پر خدمات انجام دیتا تھا جب کہ ان کا چھوٹا بھائی
کارٹونسٹ انجم انصاری روزنامہ آغاز میں کارٹون بناتا تھا۔ 14/مئی 1977 کو
انجم انصاری دوپہر کو ان کے پاس لنٹاس ایڈورٹائزنگ آگیا ۔ گرمی بہت شدید
تھی، دونوں بھائی وہاں سے اٹھ کر کراچی پریس کلب گئے۔ جہاں انہوں نے کولڈ
ڈرنکس اور ریفریشمنٹ لئے۔ جمشید نے چند ماہ قبل ہی ہنڈا 70 موٹر سائیکل
خریدی تھی۔ دونوں بھائی اس پر بیٹھ کر کلفٹن کے لئے روانہ ہوئے۔ جب وہ
کلفٹن کے پل (جو چاند ماری کے پل کے نام سے بھی معروف ہے ) پر چڑھے تو
جمشید کی نظر ایک کار پر پڑی جو پل پر کھڑی ہوئی تھی۔ کار کے قریب پہنچ کر
جمشید نے اپنی بائیک سائڈ سے نکالنا چاہی لیکن کار اچانک اسٹارٹ ہوئی اور
موٹر سائیکل کو اس طرح سے ٹکر ماری کہ بائیک اپنے سواروں سمیت سڑک کے
درمیان گری۔ پیچھے سے ایک ٹرک تیزرفتاری سے آرہا تھا، وہ موٹر سائیکل کو
دونوں بھائیوں سمیت کچلتا ہوا چلا گیا۔ وہاں سے گزرنے والوں نے دونوں
بھائیوں کو موٹر سائیکل کے نیچے سے نکالا۔ انجم تو جائے وقوعہ پر ہی فوت ہو
گیا تھا جب کہ جمشید انصاری نے کچھ دیر بعد دم توڑ دیا۔ دونوں بھائیوں کی
میتوں کو سول اسپتال پہنچایا گیا۔ جمشید انصاری کی جیب سے ملنے والی ڈائری
میں سے اطہر نفیس کا فون نمبر نکال کر انہیں اطلاع دی گئی جو دیگر ساتھیوں
کو لے کر اسپتال پہنچے۔ اطہر نفیس مسلم لیگ کوارٹرز میں جمشید انصاری کے
پڑوسی تھے۔ انہوں نے اپنے گھر فون کرکے جمشید کے گھر اطلاع کرائی جس کے بعد
قاضی واجد کے بھائی حامد، جمشید اور انجم کا چھوٹا بھائی انور انصاری اور
دیگر احباب اسپتال پہنچے۔ اس وقت تک دونوں بھائیوں کی میتیں پوسٹ مارٹم کے
بعد مردہ خانے منتقل کردی گئی تھی۔ یہ لوگ میتیں لے کر گھر پہنچے اور دونوں
بھائیوں کو سفر آخرت پر روانہ کردیا گیا۔ ان کی تدفین سخی حسن قبرستان میں
سید محمد تقی اور رئیس امروہوی خاندان کے لئے مختص احاطے کے قریب کی گئی۔
جمشید انصاری کی والدہ اپنے دو بیٹوں کی جواں مرگی کا صدمہ نہیں سہہ سکیں
اور بستر سے لگ گئیں کچھ عرصے بعد انتقال ہوگیا۔ انور انصاری جو پی ٹی وی
کے ڈرامے "خدا کی بستی " میں نوشہ کے چھوٹے بھائی "انو" کے کردار میں آیا
تھا، پاگل ہوگیا آج ناظم آباد میں کیفے الحسن کی عقبی سڑکوں پر عجیب و غریب
حرکتیں کرتا ہوا دیکھا جاتا ہے۔ جمشید انصاری کی موت حادثاتی تھی یا اس کے
قتل کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا،ملک کی مخدوش سیاسی صورت حال کی وجہ سے تمام
صحافتی تنظیمیں خاموش رہیں۔ کسی سیاسی جماعت نے دونوں بھائیوں کی موت کی
تحقیقات کرانے کے لئے آواز نہیں اٹھائی۔ چند ہفتے تک " آہنگ" روزنامہ مشرق
اور دیگر اخبارات میں اس کے بارے میں مضامین شائع ہوتے رہے لیکن پھر صحافتی
حلقوں کی جانب سے بھی اسے فراموش کردیا گیا۔
|