بھکر: تھل یونیورسٹی کی طالبہ سے اجتماعی زیادتی اور مستقبل کے خدشات

تھل یونیورسٹی کی طالبہ جن کے سر سے والد کا سایہ پہلے ہی اُٹھ چکا ہے، مسلسل دو سالوں سے جنسی بھیڑیوں کی حوس کا شکار ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا پر کچھ احباب اسی بات کو لے کر طوفان برپا کیے ہیں کہ دو سال تک چپ کیوں رہی؟ عورت معاشرہ کی حساس ترین جنس ہے، وہ اپنی اور خاندان کی عزت و ناموس کی خاطر کم فہمی میں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جن کا مقصد جنسی تسکین نہیں بلکہ اس راہ میں حائل کانٹے اور بلیک میلنگ کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ عام طور پر انسان اپنی ایک غلطی چھپانے کے لیے متعدد غلطیاں کرجاتا ہے اور پھر یہ غلطیاں اُسے برائی کے آگے بلیدان بنادیتی ہیں۔

بھکر: تھل یونیورسٹی کی طالبہ سے اجتماعی زیادتی اور مستقبل کے خدشات

اسلام کی آمد سے قبل پیدا ہونے والی نومولود بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔جس کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا تھا اور وہ اپنی بیوی پر غصے سے بھڑک اٹھتا۔ آقائے دوجہاں ؐ کی آمد کے بعد عورت کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوگیا۔ گھر میں بیٹھی عورت ماں بھی ہے، بہن بھی ، بیوی بھی اور بیٹی بھی ہے۔ انسان دنیاوی معاملات میں اپنا ہر نقصان برداشت کرلیتا ہے مگر اپنی ماں، بہن بیٹی کی عزت و ناموس پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ گھر کے آنچل میں میں بڑی ہونے والی بچی جب کسی تعلیمی ادارے میں حصول علم کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو پھر تعلیمی اداروں میں موجود ذمہ داران اُس کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ اُستاد کو باپ کا درجہ حاصل ہے، یہ سوچ کر والدین اپنی بچیوں کو تعلیمی اداروں خاص کر جہاں مخلوط تعلیم ہے ، اس یقین کے ساتھ بھیجتے ہیں کہ وہاں اُن کی بیٹیاں محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرپائیں گی۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مخلوط تعلیم پر انگلیاں تو اٹھائی جاتی ہیں مگر معاشرتی بگاڑ کو ختم کرنے کی عملی جدوجہد نہیں کی جاتی۔ ہماری یونیورسٹیوں، کالجز اور حتیٰ کہ سکولوں میں بھی طلبہ گروپس اساتذہ کی نگرانی میں " مبینہ طور پر بدمعاشی کا چورن" بیچتے ہیں۔ بڑے شہروں میں تو مبینہ نشہ (آئس) تک سپلائی کی جاتی ہے مگر آج تک حکومتی سطح پر ان مجنوئے بے کراں کے خلاف کوئی موثر قانون سازی نہیں کی گئی۔ آئے روز اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔ اب تک یہ واقعات کراچی، لاہور، پشاور جیسے بڑے شہروں تک محدود تھے مگر اب اس برائی نے چھوٹے شہروں کا رُخ بھی کرلیا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں مافیاز اور بگڑے شہزادے حوا کی بیٹیوں کی عزت تار تار کرنے کے بعد مکھن سے بال کی طرح قانون کے ہاتھوں نکل جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے چند روز قبل بھکر جو کہ مشرقی روایات کا امین تھا، یہاں بھی ایک حوا کی بیٹی کی عزت و تار تار کرنے والے بگڑے شہزادوں نے معاشرہ کے ماتھے پر کلنک لگادیا ہے۔

تھل یونیورسٹی کی طالبہ جن کے سر سے والد کا سایہ پہلے ہی اُٹھ چکا ہے، مسلسل دو سالوں سے جنسی بھیڑیوں کی حوس کا شکار ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا پر کچھ احباب اسی بات کو لے کر طوفان برپا کیے ہیں کہ دو سال تک چپ کیوں رہی؟ عورت معاشرہ کی حساس ترین جنس ہے، وہ اپنی اور خاندان کی عزت و ناموس کی خاطر کم فہمی میں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جن کا مقصد جنسی تسکین نہیں بلکہ اس راہ میں حائل کانٹے اور بلیک میلنگ کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ عام طور پر انسان اپنی ایک غلطی چھپانے کے لیے متعدد غلطیاں کرجاتا ہے اور پھر یہ غلطیاں اُسے برائی کے آگے بلیدان بنادیتی ہیں۔
 
ہم ایک ایسے معاشرہ کا حصہ ہیں جہاں اپنے انصاف کے لیے آواز اٹھانا جرم بن جاتا ہے۔ اسی جرم کے خدشہ کے پیش نظر عورت بدنامی کے خوف سے چپ رہ جاتی ہے اور جب آواز اٹھاتی ہے تو اُسی کی کردار کشی شروع ہوجاتی ہے۔ تھل یونیورسٹی کی طالبہ کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کی انہونی ہوئی ہے۔ دو سال تک امیر زادے اُسے برائی کے چنگل میں لپیٹ کر مبینہ بلیک میل کرتے رہے اور جب پانی سر سے گزرا اور بچی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو وہ اپنی بدنامی اور معاشرہ کی طرف سے متوقع نشتروں کی پرواہ کیے بغیر علم بغاوت بلند کربیٹھی اور انصاف کے حصول کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ حسبِ معمول ہماری سوچ کی سوئیاں وہی جاکے اٹکیں جن کا میں پہلے ہی ذکر کرچکا ہوں۔ سو سو بہتان اور سو سو تاولیں پیش کی جانے لگیں، بچی کے کردار پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں ۔ مگر کسی نے اُن جنسی بھیڑیوں کی درندگی کا ذکر تک نہ کیا۔ صرف مذمتی بیان جاری کیے گئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے بھی تاخیر سے جاری ہونے والے بیان میں کوئی جان نہین۔ ایسا مبہم اور غیر مقبول فیصلہ عوام میں نہ تو مقبولیت حاصل کرسکا اور نہ ہی بچیوں کے والدین کا اعتماد بحال ہوسکا۔ اس فیصلے سے نہ صرف متاثرہ بچی کے والد بلکہ دیگر بچیوں کے والدین میں بھی مایوسی پھیل گئی ہے اور بچیاں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگی ہیں۔تھل یونیورسٹی انتظامیہ کے اعلامیہ کے مطابق "اجتماعی زیادتی کا واقعہ یونیورسٹی حدود سے باہر کا ہے، بچوں کا داخلہ بند کردیا ہے ، ان کا رزلٹ روک دیا گیا ہے" یہ بیان غیرت مند بچیوں اور ان کے والدین کے اعتماد کے لیے ناکافی ہے اور یہ موقف بچیوں کے عدم تحفظ کے احساس کو کم کرنے میں کسی صورت معاون ثابت نہیں ہوسکتا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کتنا تعاون کیا گیا؟ معاملہ کو مبینہ طور پر دبانے کی کیوں کوشش کی گئی؟ اس سے قبل ہونے والے مبینہ واقعات پر یونیورسٹی انتظامیہ نے کیا نوٹس لیا؟ اجتماعی زیادتی میں نامزد ملزمان کے یونیورسٹی انتظامیہ کے کس فرد سے یارانے کی مبینہ کہانیاں ہیں؟ صرف یہی نہیں اب دیگر کئی متاثرین بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اجتماعی زیادتی کے ملزمان کا کال ، میسج اور وٹس ایپ ڈیٹا چیک کیا جائے تو ایسے ہوشربا انکشافات سامنے آئیں گے کہ سب کی ہوائیاں اُڑ جائیں گی۔ رہی سہی کسر ضلعی پولیس کی طرف سے مقدمہ اندارج میں تاخیر اور کمزور دفعات پر مبنی ایف آئی آر کا اندراج ہے۔ ڈی پی او بھکر محترم عبداللہ لک صاحب کی طرف سے ذاتی دلچسپی کے بعد ہی مقدمہ کا اندراج ہوسکا ۔ اس وقت متاثرہ یتیم بچی ، اس کے لواحقین اور اہلیان بھکر کی امیدیں ڈی پی او بھکر پر مرکوز ہیں، امید ہے وہ ان مکروہ کرداروں کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ ابتدائی طور پر مقدمہ کے اندراج کے بعد رات گئے ڈی ایس پی کی قیادت میں پولیس کی طرف سے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے تو مارے گئے مگر آخری اطلاعات تک کوئی گرفتاری نہ ہوسکی کیونکہ کچھ ملزمان کے والدین سرکاری دفاتر میں بیٹھ کر بگڑے نوجوانوں کا مبینہ دفاع کررہے ہیں۔ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہے تو پھر اِن امیرزادوں کو بھی جلد گرفتار کرکے حوالات بند کیا جائے اور پبلک کے سامنے ان کی تفتیش کی جائے۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوسرے ملک میں ایسا "گینگ ریپ" کا واقعہ پیش آیا ہوتا تو اس سے کیسے نمٹا جاتا؟ خصوصی طور پر تعلیمی اداروں میں پیش آنے والے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کس قسم کے اقدامات ہونا ضروری ہیں، یہ سوچنا اور پھر عمل کرنا ارباب اختیار کے لیے ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایسے واقعات کی ایف آئی آر کا اندراج، ملزمان کی نشاندہی سمیت دیگر عدالتی امور میں بھی "سپیڈی ٹرائل سسٹم" لاگو کیا جانا چاہیے تاکہ ایسے کیسز کا فیصلہ جلد از جلد ہوسکے اور ملزمان کو نشانِ عبرت بنایا جاسکے۔

یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ تھل یونیورسٹی بھکر جیسے پسماندہ ضلع میں کسی نعمت سے کم نہیں، بلاشبہ یہاں کا سٹاف شب و روز تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کے لیے مسلسل سبیل رواں ہے۔ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ والدین اور بچیوں کا اعتماد بحال کرکے بھکر کے عوام کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ تھل یونیورسٹی یہاں کی بچیوں کے لیے محفوظ تعلیمی درسگاہ ہے۔ امید ہے یونیورسٹی انتظامیہ اس حوالے سے موثر حکمت عملی اپنائے گی۔

 

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 62 Articles with 99084 views i like those who love humanity.. View More