وہ راستے جن پر ہم چلنا بھول گئے

"جن راہوں سے گزرنے والا گزرنا چھوڑ دیں، وہاں وقت خود رکاوٹیں اُگانے لگتا ہے۔"
یہ ایک سادہ سا جملہ ہے، مگر اس کی معنویت بہت گہری ہے۔ آج جب ایک پرانی، ویران ریل کی پٹڑی کی تصویر دیکھنے کو ملی، جس کے درمیان ایک درخت اگ آیا ہے، تو یہ جملہ ذہن میں بار بار گونجتا رہا۔ وہ پٹڑی جو کبھی حرکت، شور، زندگی اور منزلوں کی علامت تھی، اب خاموش، ویران اور جنگل کے حصے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جیسے وقت نے اُس راستے کو بھلا دیا ہو، یا یوں کہیے کہ راستے نے خود کو بھلا دیا ہو۔
یہ تصویر محض ایک پرانی ریلوے لائن کی نہیں، بلکہ ہماری زندگیوں، معاشروں اور رشتوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ وہ رشتے، جنہیں ہم وقت نہ دے پائیں، وہ خواب جنہیں ہم چھوڑ بیٹھیں، وہ راستے جن پر ہم چلنا بھول گئے، وقت اُن پر خاموشی کی مہر لگا دیتا ہے۔ پھر وہاں دھیرے دھیرے "رکاوٹیں" اُگنے لگتی ہیں۔ شکوے، بدگمانیاں، تنہائیاں، افسوس، یہ سب اُس درخت کی طرح ہوتے ہیں جو ویرانی میں جڑ پکڑ لیتے ہیں۔
کبھی وہ رستے ہمارے جذبوں کے تھے، کبھی وہ پٹڑیاں ہمارے فیصلوں کی تھیں۔ مگر جب ہم رک گئے، ہچکچا گئے، یا پیچھے ہٹ گئے، تو وقت نے ہمیں معاف نہیں کیا۔ اس نے اپنا کام جاری رکھا خاموشی سے، لیکن مکمل یکسوئی کے ساتھ۔ اور یہی وقت کی بے نیازی ہے؛ وہ کبھی رکتا نہیں، وہ ہمیں روکتا ہے۔
ہماری سوسائٹی میں بھی کئی راستے ایسے ہیں جو اب ویران ہو چکے ہیں۔ ثقافتیں، زبانیں، روایات جنہیں اپنانے والا کوئی نہ رہا، تو ان پر بھی وقت نے خاموشی کی گرد ڈال دی۔ اب ان کی جگہ خودغرضی، مادہ پرستی، اور بے حسی کے درخت اُگ آئے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے: ہم اپنے اردگرد کتنے ایسے رستے چھوڑ آئے ہیں جو اب ایک درخت کی طرح ہمیں روک رہے ہیں؟ اور ہم نے کب آخری بار اُن پر چلنے کی کوشش کی تھی؟ کب آخری بار کسی پرانے خواب کی پٹڑی پر قدم رکھا تھا؟ کب کسی رشتے کی جھاڑیاں ہٹانے کی کوشش کی تھی؟
یہ کالم دراصل ایک یاد دہانی ہے کہ وقت ہمیں نہیں چھوڑتا، ہم وقت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور وقت کا انتقام بڑا خاموش مگر گہرا ہوتا ہے۔ وہ ہمارے چھوڑے ہوئے راستوں کو خود ہی بند کر دیتا ہے۔
تو آئیے، اس سے پہلے کہ ہمارے تمام راستے درخت اُگا لیں، ہم پھر سے اُن پر قدم رکھیں، اُنہیں صاف کریں، جڑیں مضبوط کریں تاکہ زندگی دوبارہ رواں ہو جائے، شور پھر گونجے، اور منزلیں ایک بار پھر قریب آ جائیں۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 100 Articles with 75914 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.