چین خود کو دنیا میں انوویشن اور جدت کے ایک مرکز میں
ڈھالنے کے لیے دوررس اہمیت کے اقدامات پر عمل پیرا ہے جن کے تحت آئندہ دس
برسوں یعنیٰ 2035 تک چین ایک گلوبل انوویشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آ
سکے گا۔
چین نے حالیہ عرصے میں جدت پر مبنی ترقی کو آگے بڑھانے میں قابل ذکر پیش
رفت کی ہے، اور ملک کی جدت پر مبنی حکمت عملی تیزی سے زور پکڑ رہی ہے۔
بیجنگ، شنگھائی اور گوانگ دونگ۔ہانگ کانگ۔مکاؤ گریٹر بے ایریا نے بین
الاقوامی سائنس و ٹیکنالوجی جدت مراکز کے طور پر اپنی ترقی میں قابلِ ذکر
نتائج حاصل کیے ہیں۔
اس حوالے سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2024ء میں چین کے انٹیگریٹڈ
سرکٹ (آئی سی) صنعتی شعبے میں تیزی سے ترقی ہوئی، جہاں انٹیگریٹڈ سرکٹس کی
پیداوار میں 22.2 فیصد اضافہ ہوا، اور برآمدات کی مالیت 1.1 کھرب یوآن (153
ارب ڈالر) سے تجاوز کر گئی جو ایک ریکارڈ بلند سطح ہے۔
رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مقامی طور پر تیار کردہ اعلیٰ معیار کی
مصنوعات کی ایک لہر عملی استعمال میں لائی گئی ہے، جس میں مسلسل متغیر
ٹرانسمیشن والے اعلیٰ ہارس پاور ٹریکٹرز کے ساتھ ساتھ بڑے لیکویفائیڈ نیچرل
گیس (ایل این جی) بحری جہاز شامل ہیں۔یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی تکنیکی
جدت اور صنعتی اختراع گہرائی سے مربوط ہیں، اور ملک میں ایک جدید صنعتی
نظام کے قیام کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ، چین نے اپنی سبز اور کم کاربن ترقی کو آگے
بڑھانے میں بھی پیش رفت کی ہے، جہاں 2024ء میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی
ڈی پی) فی یونٹ توانائی کے استعمال میں 3 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی۔ یہ
بات بھی نمایاں ہے کہ ملک میں " نئے معیار کی پیداواری قوتوں" کی پرورش کے
لیے مضبوط بنیادیں اور سازگار حالات موجود ہیں۔
چین کے لیے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اس وقت اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو
فروغ دیتے ہوئے مسلسل پیش قدمی جاری ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر
چین ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس ،کوانٹم
انفارمیشن ، انٹیگریٹڈ سرکٹس ،زندگی اور صحت ، برین سائنسز ، ائیرو اسپیس
سائنس و ٹیکنالوجی اور ارضیاتی و سمندری کھوج کے حوالے سے کئی اہم اسٹریٹجک
منصوبوں کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔
اس دوران چین کی جانب سے یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی
میں خود انحصاری کی جستجو کی جائے اور اعلیٰ معیار کی ترقی پر توجہ مرکوز
کرتے ہوئے نہ صرف چینی عوام بلکہ دنیا بھر کے لیے نت نئے ثمرات لائے
جائیں۔اس مقصد کے حصول کے لیے چین" قومی انوویشن نظام" میں مسلسل بہتری لا
رہا ہے اور ملک کو ایک "سائنسی و تکنیکی پاور ہاوس"میں ڈھالنے کے لیے اپنی
کوششوں کو عہد حاضر کے بدلتے تقاضوں سے بخوبی ہم آہنگ کیا گیا ہے ۔
چین کا یہ موقف ہے کہ اس وقت دنیا میں اہم نوعیت کی تمام ٹیکنالوجیز کو
خریدا نہیں جا سکتا ہے اور نہ کلی طور پر بیرونی ممالک پر انحصار کیا جا
سکتا ہے ، لہذا جدت اورتخلیق میں خودانحصاری ہی دیرپا کامیابی کی ضمانت
ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ترقی
کی کوشش کی جائے گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں سائنسی شعبے میں حاصل شدہ
اہم کامیابیوں اور پیش رفت سے سیکھنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔اس طرح "چینی
دانش" کے تحت عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک مثبت اور تعمیری کردار
ادا کیا جائے گا۔
|