جوہر سے جوہڑ تک ناولٹ - تیسرا حصہ

نوکری کی سچی طلب ہی تھی جو اس دن اپنی پرانی فائلوں میں سے انداز بانو کو ایک کارڈ ملا۔کسی بینک مینجر کا کارڈ تھا۔ ’’سبین ضیاء‘‘ لمحہ بھر کو وہ الجھ سی گئی،اسے یاد نہ آرہا تھا کہ کیوں یہ کارڈ اس کے کالج کے کاغذات کے درمیان احتیاط کے ساتھ رکھا ہے۔ اچانک ذہن میں جھماکا ہوا اور اسے ابو کے اسٹور پر برسوں پہلے کسی خاتون سے ہوئی ملاقات یاد آگئی۔ یہ کارڈ انہوں نے ہی دیا تھا جو اس نے فائل میں رکھ لیا تھا اب چھے سال بعد وہ ایسے نکل آیا جیسے ظاہر ہونے کے لئے وقت کا انتظار کررہا تھا۔اس نے کارڈ کو بڑی احتیاط سے اپنے ہینڈ بیگ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا ،حفطِ ماتقدم کے طور پر تفصیلات گھر میں رکھی ڈائری میں بھی نوٹ کرلی تھیں۔ طلب خود بخود تمام مراتب سکھا دیتی ہے۔ سبین ضیاء سے وہ حاثاتی ملاقات سُود مند ثابت ہوئی ۔ان کا تبادلہ کسی اور علاقہ میں ہوچکا تھا لیکن ان کے ذاتی سیل نمبر نے ان تک رسائی کو آسان بنا دیا تھا۔

’’اوہ تم انداز بانو ‘‘ ان کے پُرجوش لہجے سے انداز بانو حیران سی تھی کہ وہ کیوں سبین ضیاء کو یاد رہ گئی ۔ ’’لگتا ہے کہ قسمت واقعی تم پر مہربان ہے میری پرانی برانچ میں آج ہی کوئی جگہ خالی ہوئی ہے۔کوئی بہت ہی اعلیٰ پوسٹ نہیں ہے لیکن اور جگہوں سے بہتر ہے حالانکہ تم کو اس فیلڈ کا تجربہ نہیں لیکن میں کوشش کرونگی کہ تم کو وہاں سیٹل کراسکوں‘‘ سبین ضیاء نے اس کے سی۔وی پر نظر دوڑاتے ہوئے ایک امید دلائی۔ ان سے مل کر جب وہ باہر روڈ پر آئی تو چشم تصور سے اس نے اپنے آپ کو ایسی ہی کسی جگہ بڑے پرسکون انداز میں کام کرتے دیکھا اور پھر جیسے اس کے لئے راستے کھلتے ہی چلے گئے۔بات حیران کن تھی لیکن سبین ضیاء کے توسط سے اس کو بینک میں نوکری مل ہی گئی ۔

’’لگتا ہے خاصی تگڑی سفارش لگی ہے اس کے لئے ورنہ یہ سیٹ تو میں نے اپنے بھائی کے لئے سوچ رکھی تھی۔تجربہ کار بھی ہے اور سمارٹ بھی ‘‘۔

اس قدر پردے لگے ہیں تو جاب کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟‘‘ اس نے سراسیمہ نظروں سے آوازوں کے رُخ پر دیکھا جہاں اس کے آفس کولیگ رضا اور مہر اس پر دبی دبی زبان سے تبصرے کررہے تھے مگر آوازیں بخوبی پہنچ رہی تھیں۔خائف سی انداز بانو نے چادر کو بے اختیار ماتھے سے اور نیچے کھینچ لیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ انداز بانو کو بھی نئی جگہ ،نئے ماحول میں ڈھلنا پڑا ۔پہلے چادر اُتری اور اسکارف آیا، اسکارف نے جگہ چھوڑی تو سوٹ کا دوپٹہ سر پر آیا اور پھر وہ بھی محض شانو ں پر پھیلا رہ گیا۔ یہ تبدیلی سب ہی دیکھ رہے تھے لیکن خاموش تھے ۔اعلیٰ اور عمدہ جاب سات پردوں میں رہنے والی عورت کو کب ملتی ہے ،انداز بانو کے گھر والے بھی اس کلئے سے واقف تھے۔

خالہ نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا تھا۔الٹا بہن کو بیٹی کے بارے میں فکر مند ہوتے سُن کر سمجھاتیں ’’ ہمارا زمانہ نہیں ہے کوثر یہ کہ کمانا صرف مردوں کی ذمہ داری ہو ماشاء اللہ پڑھی لکھی ہے ہماری انداز، آئندہ اسے نادر کے ساتھ ہی بوجھ میں شریک ہونا ہے ‘‘۔

اب تو انداز کے ساتھ ہماری لگنے لگا تھا ورنہ تو ’’تمہاری بیٹی ‘‘ کا صیغہ ہی استعمال ہوتا تھا۔ بہن کی بات سن کر کوثر چپ کی چپ رہ جاتیں۔ ’’آپا کیا کر رہا ہے نادر آجکل ؟ ‘‘ بہت سنبھل کر سوال کیا۔

’’ساری ساری رات کمپیوٹر پر بیٹھا یورپ امریکہ کی کمپنیوں میں جاب تلاش کرتا رہتا ہے۔کہتا ہے یہاں کیا رکھا ہے؟‘‘

’’کیا مطلب آپا ؟ کیا وہ بھائی جی کے پولٹری فارم پر نہیں جائے گا ،اپنا کاروبار ہے پھر نوکری کیوں؟ ‘‘

’’کیسی باتیں کرتی ہو کوثر میرا شہزادہ بیٹا کیا اچھا لگے گا بدبو دار اور سڑاند والا مرغی خانہ چلاتا ہوا‘‘ خالہ کے لہجہ میں فخر کا انبار کوثر کو عجیب ہی لگا، تب ہی سامنے بیٹھی شاداب کو انہوں نے بہن سے ہونے والی گفتگو من و عن سنادی ورنہ عموماً وہ سکھر سے آئے فون سننے کے بعد خاموش ہی رہتی تھیں۔

’’ہنہہ نوکریاں ڈھونڈتا پھرتا ہے ساری ساری رات ! اِدھر اُدھر دل لگی کرتے ہی انٹر نیٹ پر، یوں کہنا چاہئے تھا خالہ کو کہ میرا شہزادہ راتیں کالی کرتا ہے‘‘ شاداب نے دوسرے کمرے میں باپ کی الماری ترتییب دیتی ہوئی گوہر کے پاس جاکر دل کی بھڑاس نکالی۔’’پچھلے سال امی کے ساتھ سکھر عیدی دینے گئی تھی تو نادر بھائی کی غیر موجودگی میں ان کا ڈیسک ٹاپ استعمال کرنا چاہا تو ’’زبردست ‘‘ کے نام سے بنے کچھ فولڈرز پر کلک کر دیا۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی چھوٹی آپا اس میں کیا کیا مواد تھا ۔ خالہ کی بیٹیوں زرین،فرحین نے تو خیر زندگی میں کبھی بھی کمپیوٹر کا استعمال سیکھا ہی نہیں، سوائے گھریلو سیاست کے وہ کچھ نہیں جانتیں۔ اب نادر بھائی کیا کیا گُل ساری رات کھلاتے ہیں بے چارے ’’معصوم ‘‘ گھر والے کیا جانیں ۔شادی وادی مجھے نہیں لگتا وہ کبھی کریں گے‘‘۔

شاداب چھپائے راز افشاء کر رہی تھی اچانک گوہر کی نظر دروازے پر کھڑی انداز بانو پر پڑی جو سفید پڑتے چہرے کے ساتھ ہولے ہولے کپکپا رہی تھی۔ بہن سے نادر کے متعلق اتفاقیہ طور پر سننے کے بعد انداز بانو نے خاموشی سے انگوٹھی اتارکر، اگلے دن اسٹور میں رکھے کسی ٹرنک میں دبا دی تھی۔

منگنی شدہ سے شادی شدہ کا سفر اس انگوٹھی کے ساتھ وہ کرپائے گی یا نہیں ،شبہ تو اسے اکثر ہونے لگا تھا مگر اب توچپ کی مہر ہی لگ گئی تھی۔

سال گزر چکا تھا اسے انگوٹھی اتارے،حیرت تھی کہ اماں نے کبھی اس سے کچھ پوچھا نہیں ،ہاں وہ مزید خاموش ہوگئیں چپ چاپ اپنے ہنر کے ساتھ مصروف۔ لگتا تھا کہ جیسے برف کی طرح خاموشی سے اندر گُھل رہی ہو۔ پوچھا تو کس نے؟ مہرالنساء نے۔کی بورڈ پر اس کی متحرک خالی انگلیاں دیکھ کر وہ پوچھنے لگی تو انداز بانو پہلو بدل کر رہ گئی۔

سال بھر ہوچکا ہے مہر انگوٹھی گم ہوئے تم نے آج غور کیا ہے۔‘‘ اس نے آواز میں شائستگی سمونے کی کوشش کی۔ ’’اونہہ ! گم ہوگئی ایسے کیسے گم ہوگئی تمہاری وہ زرقند کی انگوٹھی ! سچ بتاؤ کیا بات ہے ؟‘‘ کھوجتا سا لہجہ کریدتی آنکھیں ہمیشہ سے ہی انداز بانو کی ذات پر تجسس، اس کے اس انداز سے وہ خائف ہوجاتی تھی۔ مہرالنساء نے بھنویں اچکا کر اس کے چہرے پر آنے والا تناؤ واضح محسوس کیا اور ہاتھ میں پکڑی فائل اس کی میز پر رکھ کر آگے بڑھ گئی۔

بینک نوکری کا تیسرا سال ختم ہوا تو انداز بانو کی پرانی جڑوں نے بھی نئے انداز قبول کرنے شروع کردیئے تھے۔جڑوں میں اترے خیالات،افکار،رجحانات راتوں رات تبدیل نہیں ہوتے۔ان میں تبدیلی کے لئے عرصہ درکار ہوتا ہے،دونوں سطحوں پر بیک وقت کا م کیا جائے تو کم وقت میں بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اندونی اور بیرونی سطح پر جان بوجھ کر ٹکراتے کندھے،ہاتھ،پیغام دیتی اور ذومعنی باتیں جو کبھی اس کا چہرہ سرخ کردیا کرتی تھیں۔ اب وہ ان کی عادی ہوگئی تھی وہ صبیحہ کی اس بات سے متفق ہوگئی تھی کہ ’’گھٹن سے باہر آنے کی قیمت تو دینی پڑتی ہے ‘‘۔

صبیحہ ایک شوخ سے مزاج کی لڑکی دوسری برانچ سے ٹرانسفر ہوکر آئی تھی ،آتے ہی تمام اسٹاف سے گھل مل گئی تھی ۔ایک دن کسی کلائنٹ مسٹر کاکڑ کی طرف سے ڈنر کی آفر کی خبر فرصت سے بیٹھے اسٹاف کے درمیان خوش گپیاں کرتے اس نے سنائی تو اس نے انداز بانو کی آنکھوں میں آئی ناگواری بھی بھانپ لی۔ ’’دیکھو لوگوں! یہ گفٹ پیک بھی دیکر گئے ہیں کاکڑ صاحب کہ ان کے گھر پہلا بیٹا ہوا ہے۔ اس میں چاکلیٹ بارز تمام اسٹاف کے لئے نہیں ‘‘ اس نے ایک خوبصورت سا گفٹ پیک سب کے سامنے چیک کیا۔ انداز بانو کے آگے ڈبہ بڑھاتے ہوئے اس نے قہقہہ لگایا ’’ کھاؤ میر ی جان ! کیوں دل کو باتیں لگاتی ہوگھٹن سے باہر آنے کی قیمت تو دینی پڑتی ہے ۔‘‘

گھٹن تو واقعی بہت ہے ‘‘ انداز بانو نے ایک رکی رکی سی سانس لیتے ہوئے زیر لب کہا جِسے مہر النسا ء نے سن لیا۔

’’یہ لو اس نمبر پر کال کرکے اپنی الجھنیں ڈسکس کرنا فائدہ ہوگا‘‘ شام کو چھٹی کے وقت مہر النساء نے خاموشی سے اس کو ایک پرچی تھمائی۔

جاری ہے
Nusrat Yousuf
About the Author: Nusrat Yousuf Read More Articles by Nusrat Yousuf: 16 Articles with 14147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.