شیطان کی وضاحت

میرے پیارے چَیلو! اور اِنسانو! (چَیلوں اور اِنسانوں کا الگ الگ ذکر اِس لیے کر رہا ہوں کہ اب اِنسان میرے چَیلوں سے آگے کی منزل میں ہیں!)

آنکھوں کے راستے جو کچھ میرے ذہن میں اُتر رہا ہے اُس کے اثرات اِس قدر شدید ہیں کہ میرے حَواس مختل ہوئے جاتے ہیں۔ لازم ہوگیا ہے کہ وَصِیّت لِکھ ڈالوں۔ مُجھ میں اور اِنسان میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ میں وَصِیّت پر یقین رکھتا ہوں! انسان وَصِیّت لِکھنے پر اِس لیے توجہ نہیں دیتا کہ اپنے ماحول میں سبھی کو موت سے ہم آغوش ہوتا دیکھ کر بھی اُسے یقین سا رہتا ہے کہ خود اُسے موت نہیں آئے گی! سِتم ظریفی، بلکہ ڈِھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ اِس خالص اِنسانی سوچ کو بھی میرے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے! کہا جاتا ہے کہ شیطان ہی اِنسان کے دل میں ہمیشگی کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس بات پر روؤں یا ہنسوں! میں نے بھلا کب کہا کہ موت پر میرا یقین نہیں؟ اور میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ حساب کتاب نہیں ہوگا؟

وَصِیّت تو خیر لِکھ ہی ڈالوں گا مگر اِس سے قبل ضروری سمجھتا ہوں کہ چند ایک اُمور کی وضاحت کردوں تاکہ میرے بارے میں پروپیگنڈا کرنے والوں کی حوصلہ شِکنی ہو۔ میں، جسے دُنیا اِبلیس لعین اور شیطان مَردُود کے نام سے جانتی ہے، پورے ہوش و حواس کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ اِنسانوں کو وَرغلانے اور اُن کے دِلوں میں وَسوسے ڈالنے کا منصب مُجھے شدید ذہنی تھکن سے دوچار کرچکا ہے۔ میرے قوٰی اضمحلال سے دوچار ہیں اور حواس نے بظاہر طویل پر رُخصت پر جانے کا فیصلہ کرلیا ہے! ہر گزرتا ہوا دن میری بَدحواسی کے دائرے میں وُسعت پیدا کر رہا ہے۔ عجیب دور سے گزر رہا ہوں۔ کبھی کبھی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا اور کبھی اچانک، کسی شَعُوری کوشش کے بغیر، سب کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے! اور جو کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پر مزید ضرب لگاتا ہے! میں اِنسان ہوتا تو پی پلاکر حواس کو ”قابو“ میں کرلیتا یا ٹی وی چینلز پر نمودار ہوکر چند انٹ شنٹ باتیں کرتا اور دِل کا بوجھ ہلکا کرکے ذہن کو دوبارہ استحکام کی راہ پر لے آتا!

ناگزیر ہوچلا ہے کہ میں اپنی پوزیشن واضح کروں تاکہ لوگ میرے بعد طرح طرح کی باتیں پھیلاکر، قیاس کے گھوڑے دوڑاکر ”بے فُضول“ میں مُجھے ایسا ”خراج عقیدت“ پیش نہ کریں جس کا میں کسی صورت مُستحق نہیں! مُجھے کِسی بھی معاملے میں کوئی ہوس لاحق نہیں۔ ازل سے اب تک میری ”کمپنی کی مشہوری“ کمزور نہیں پڑی! میں کوئی سیاست دان یا سیلیبریٹی تو ہوں نہیں کہ بدہضمی کی پروا کئے بغیر زیادہ سے زیادہ شہرت نِگلتا رہوں، ڈکارتا رہوں! میری نفسی بھوک کی بہر حال ایک حد ہے۔ اِس حد سے آگے بڑھنا مُجھے زیبا نہیں۔ میں اِنسان نہیں ہوں کہ جذبات سے مغلوب ہوکر اپنا منصب، ذمہ داری اور حدود.... سبھی کچھ بھول جاؤں! مُجھے اپنی حدودد کا خوب اِدراک و احساس ہے۔

پاکستان میں مصروفِ کار چَیلوں نے جب یہ بتایا کہ مُلک کے حالات دِگرگوں ہیں اور خاص طور پر کراچی کا بہت بُرا حال ہے تو میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ذرا جائزہ تو لوں کہ میرے فکر و فلسفے نے کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ جب سے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا ہے، عجب مخمصے میں مُبتلا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کِس کِس بات کو own یا disown کروں! میں نے دنیا بھر میں گمراہی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اُس سے بہت ہٹ کر پاکستان کے طول و عرض میں گمراہی اور بے راہ رَوی کا ایک اور بازار گرم ہے۔ اور اِس بازار کو دیکھ کر میں تَپ رہا ہوں کہ یہ سب کچھ میرے نام پر ہو رہا ہے!! اہل پاکستان کی عجیب ترین روایت یہ ہے کہ جب کسی کے نام کا کھاتہ کھل جاتا ہے تو سب کچھ اُسی کھاتے میں ڈالا جانے لگتا ہے! کئی کھاتے کھلے ہوئے ہیں مگر سب سے بڑا کھاتہ میرا ہے۔ لالچ، خوف، دھونس دھمکی، ترغیب، تحریک، تشدد، قتل و غارت، سَفّاکی، سَنگ دِلی، بے رحمی، دَرندگی، بَرَہنگی، بے توقیری، بے ذہنی.... سبھی کچھ دریا کے دھاروں کے مانند بہہ رہا ہے اور میرے نام پر کھلا ہوا کھاتہ وہ سمندر ہے جس میں یہ سارے دھارے گِر رہے ہیں! یہ تو سراسر، سر بہ سر، یکسر ”بے مانی“ ہے! میں کچھ بھی سہی، ایسا کب تھا؟

کیا آپ نہیں جانتے کہ مُجھ سے بڑا عالم کوئی نہ تھا مگر افسوس کہ جہالت بھی مُجھ سے مَنسُوب کی جارہی ہے! یہ تو نِری انسانی جہالت ہے۔

اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!

جب کوئی لالچ کی دَلدل میں پَھنس اور دَھنس جاتا ہے تو سارا مَلبہ مُجھ پر گرایا جاتا ہے کہ لالچ میں مُبتلا کرنے والا میں ہوں! اِنسان واقعی صرف جلد باز اور لالچی ہی نہیں، بہت چالاک اور سازشی بھی ہے۔ اپنا کیا دَھرا مُجھ پر اُنڈیلنے میں دیر نہیں لگاتا۔ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر لالچ اور ہوس میں مبتلا ہوتے اور زیادہ سے زیادہ بگڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے اور سنگین نتائج سے دوچار ہوتے ہیں تو خود کو بے قصور قرار دینے کا راگ الاپنا شروع کرتے ہیں اور خوب پلٹے دینے کے بعد تان میرے وجود پر توڑتے ہیں! ارے اِنسانوں! کیا سِتم توڑتے ہو، کیا غضب ڈھاتے ہو؟ تم ہی بتاؤ کہ ”ایسا کروگے تو کون آئے گا؟“

اِسلام کے نام پر 64 سال قبل جو مُلک بر صغیر کے مُسلمانوں نے قائم کیا تھا اُس میں اقتدار و اختیار کے بُھوکے اِنسانوں نے دین کے نام پر ایسے بھیانک تجربات کئے ہیں کہ ذرا سا جائزہ لینے اور مُشاہدہ کرنے ہی سے مُجھے تو متلی سی ہونے لگتی ہے! اور ذرا سوچیے کہ میرے دِل و دماغ پر کیا گزرتی ہوگی جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ میرا کیا دَھرا ہے! میں کب کسی کی آڑ لیتا ہوں؟ جو بھی کرتا ہوں، خوف اور منافقت کے بغیر اور پوری طاقت کے ساتھ کرتا ہوں۔ اِنسان کی طرح آڑ لینا مُجھے نہیں آتا۔

ویسے تو میں نے پورا پاکستان گھوم پھر کر دیکھا ہے اور جا بہ جا جہالت کو جلوہ افروز پایا ہے مگر ”بہ خُدا“ کراچی بازی لے گیا ہے۔ یہ وہ نگری ہے جس کے اَطوار دیکھ کر مُجھے اپنے آپ پر رشک آنے لگا ہے۔ حیران ہوں کہ میری تعلیمات ایسا اور اِتنا رنگ بھی لاسکتی ہیں! کیا بات ہے! مگر اِتنا عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کراچی میں رُونما ہونے والی ہر بات کا کریڈٹ مُجھے نہ دیا جائے۔ میں ظالم، مردود، بے حِس اور خدا جانے (!) کیا کیا سہی مگر اِتنا بے غیرت نہیں ہوسکتا کسی غریب کے دو چار نِوالوں پر بھی ڈاکہ ڈالوں؟ میں زندہ لوگوں کو بہکانے اور وَرغلانے پر از خود مامور ہوں۔ جب کسی میں دَم ہی نہ رہے تو میں کیا وَرغلاؤں گا؟ پاکستان اور بالخصوص کراچی کے ارباب بست و کشاد مُجھ سے دو قدم آگے ہیں کہ جن پر حُکم چلاتے رہنا چاہتے ہیں اُنہی کو دُنیا سے رُخصت بلکہ زندہ در گور کرنے پر بھی تُلے ہوئے ہیں!

میں کِسی بھی حالت میں اِتنا کم ظرف نہیں ہوسکتا کہ صُبح سے شام تک خون پسینہ ایک کرکے جُوئے شیر بہانے میں کامیاب ہونے والے یعنی اپنے اور اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے والے غریبوں اور ناداروں سے بھی بَھتّہ بٹوروں! زندگی سے ہار کر، چند اشیائے صرف کے ساتھ فُٹ پاتھ پر دُکان سجانے والوں سے میں کچھ لُوں یا لینے کی ترغیب دوں، ایسا سوچنا بھی میری توہین ہے۔ پیٹ بھرے کی یہ مَستی اِنسانوں کو زیب دیتی ہوگی، مُجھے نہیں!

اِنسان یہ سمجھتے ہیں کہ میں خون خرابے کی ترغیب و تحریک دیا کرتا ہوں۔ ٹھیک ہے، مگر شیر خوار اور نیا نیا چلنا اور دوڑنا سیکھنے والے بَچّوں تک کو مارنے والے یقیناً میری تعلیمات کے مُکلّف اور محتاج نہیں! اِس سَفّاکی کے لیے مُجھے مُوردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ بے رحمی اور سَنگ دِلی اِنسان ”از خود نوٹس“ کی بُنیاد پر اپناتا اور پروموٹ کرتا ہے!

ایک بات اور۔ ابھی ابھی گزرنے والے رمضان میں کراچی کے لوگوں نے جو کچھ ایک دوسرے کے ساتھ کیا، اُس کے لیے بھی کیا مُجھی کو مُوردِ الزام ٹھہرایا جائے گا؟ رمضان میں تو میں مُقیّد رہتا ہوں!! ثابت ہوا کہ مَسعُود ایّام میں جو مَردُود اعمال سامنے آئے وہ عاقبت نا اندیش اِنسانوں کی اپنی کرنی اور اُس کا پَھل تھے! اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جس میں ہمت ہے وہ قرآن اُٹھاکر قتل و غارت کا وہ بازار بھی میرے کھاتے میں ڈالے جو روزے کی حالت میں کمال بے باکی سے گرم کیا جاتا رہا!

میڈیا پر آکر تُھوک اُڑاتے ہوئے ایک دوسرے پر اِلزامات کی بوچھار کرنے والے میرے پیروؤں میں سے نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اِن کا یہ انداز اِنہی کا پیدا کردہ ہے اور میں تو بس رَشک سے اِنہیں دیکھتا رہتا ہوں!
ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم!

بہتر یہ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، پاکستان سے نِکل بھاگوں۔ جتنے دِن یہاں رہوں گا، وضاحتیں ہی کرتا رہوں گا اور شاید اِسی میں مَر، کھپ جاؤں گا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483780 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More