صحابی جِنّ عبد الرحمٰن

عبدالّرحمٰن جِنّ
ایک حیرت انگیز داستان
یہ اس خطہ زمین کی داستان ہے جو نامور مغل بادشاہ شاہجہاں نے بطور جاگیر حضرت مُلّاعبدالحکیم رحمتہ اللہ علیہ سیالکوٹی کو دیا تھا آپ کے مزار کے اردگرد اب جدید طرز کے مکانات اور پلازے تعمیر ہو چکے ہیں تاہم وہ قدیم قبرستان اب بھی وہاں موجود ہے جو پرانے وقتوں سے چلا آرہا ہے۔
٭ مبارکپورہ سیالکوٹ سے حضر ت مُلّا عبدالحکیمؒ کے مزار کا فاصلہ صرف چند گز پر مشتمل ہے ۔
٭ محترم احسان صابری قریشیؒ شہر اقبال کی ایسی معروف اور دُرویش صفت شخصیت ہو گزری ہے جن کی اولیائے کرامؒ کے مزارات پر حاضری ان کے پرانے معمولات میں شامل تھی کسی زمانہ میں ان کا معمول تھا کہ ہر ماہ کی پہلی جمعرات حضرت سیدنا امام علی الحق چشتیؒ (جو مسعود الدین گنج شکرؒ) کے خلیفہ مجاز تھے کے مزار پر دوسری جمعرات مُلّا عبدالحکیمؒ کے مقبرہ پر تیسری جمعرات محلہ چرا غ پورہ میں حضرت شاہ مونگا ولیؒ کی بارگاہ میں اور آخری اور چوتھی جمعرات شاہ سیداںؒ کے حضور حاضری دیتے تھے۔
٭ یہ عہد مغلیہ کی بات ہے کہ سیالکوٹ میں ایک ایسا دینی مدرسہ درالعلوم مُلّا کمال الدین کشمیری پل نالہ ایک کے پاس موجود تھا جہاں دور دراز کے علاقوں سے طالبان علم آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے اور دین کا علم حاصل کرتے تھے اس جامعہ کے مہتمم اعلیٰ حضرت مُلّا کمالؒ الدین کشمیری تھے جن کے لاتعداد شاگردوں میں سے منفرد اور بڑی شہرت و ناموری پانیوالے شاگرد خاص مُلّا عبدالحکیمؒ کا نام قابل ذکر ہے۔ وہ اپنے استاد کی وفات کے بعد اسی دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ بن گئے۔ دوسرے شاگرد الشیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ تھے جو متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر سرہند سے حصول علم کے لئے سیالکوٹ تشریف لائے جبکہ تیسرے شاگرد نواب سعد اللہ خان تھے۔
٭ ایک دیرنہ عرصہ سے یہ خواہش ذہن میں کروٹیں لے رہی تھی کہ اس عظیم المرتبت ہستی کی بارگاہ میں بصد عجز و نیاز اور ادب و احترام حاضری دینے والے اُس جن کی بابت محتر م احسان صابری قریشی مرحوم سابق پرنسپل گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ برلب قلعہ سیالکوٹ کی ایک بیان کردہ روایت کے حوالہ سے وہ حیرت انگیز اور معلوماتی باتیں ایک تازہ اور اچھوتے انداز میں قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ عبدالرحمن نامی یہ جن ایک ایسے جن کے فرزند عزیز تھے جن کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کرنے کا شرف و اعزاز حاصل تھا اس طرح اس سعادت عظمیٰ کے باعث وہ صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے اور اللہ کریم نے عبدالرحمن جن کو تابعی ہونے کا شرف بخشا۔ یہ جن علامہ مُلّا عبدالحکیم کے شاگرد خاص تھے ۔اپنی تعلیم کے بعد انہوں نے استاد محترم کی خدمت کا حق بڑے انوکھے انداز میں ادا کیا۔ اگر موصوف جن تادم تحریر زندہ ہیں تو یقینا حسب سابق وہ اپنے استاد مُلّا عبدالحکیم ؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہوں گے۔
٭ حضرت ملا عبدالحکیم ؒشیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کے ہمعصر اور ہم مکتب بھی تھے آپ مشرب کے لحاظ سے حضرت بہاء الدین نقشبند کے پیروکار تھے اور اسی سلسلہ ولایت کے ایک تابناک ستارے تھے۔ 12 ربیع الاول 1022 ہجری تا 11 ربیع الاول 1023 ہجری کے دوران مجدد الف ثانیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی اور سب سے پہلے ان کو امام ربانی محبوب سبحانی مجدد اَلف ثانی ؒ کے معنویت سے بھرپور الفاظ و القابات میں ملا عبدالحکیمؒ نے ہی تحریر فرمایا اور تجدید اَلف کے اثبات میں ایک رسالہ ’’دلائل التجدید‘‘ میں باقاعدہ مجدد الف ثانی ؒ ثابت کرکے دکھایا۔
٭ میں چونکہ ذاتی طور پر اس داستان حیرت انگیز کو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں لہٰذا یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ سیالکوٹ کے اس محلہ کا مختصراً تعارف بھی پیش کردوں جہاں مُلّا عبدالحکیمؒ کا مزار مبارک موجود ہے ۔ تاریخ سیالکوٹ میں یہ بات درج ہے کہ اس مغلیہ عہد میں مُلّا کمال نام کے دو بزرگ تھے جن میں ایک کی وفات اسی شہر میں ہوئی اور یہیں ان کا مدفن محلہ بجلی گھر میں موجود ہے جبکہ دوسرے مُلّا کمال لاہور میں قاضی القضاء (چیف جسٹس) کے اہم اور ذمہ دار عہدہ پر فائز تھے اور لاہور میں ہی دفن ہوئے۔ گویا یہ دو علیحدہ علیحدہ برگزیدہ بزرگ ہیں جن کو ایک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
٭ محترم احسان صابری قریشی مرحوم ایک بار جمعرات کے روز شام کے وقت حسب معمول ملا عبدالحکیمؒ کے مقبرہ پر جب حاضر ہوئے تو وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک افغانی طرز کے کابلی پٹھان بزرگ نہایت سفید و سرخ رنگت والے، مزار کے نزدیک بیٹھ کر بڑی بلند آواز اور خوش الحانی سے تلاوت قرآن کر رہے ہیں کلام ربانی کو اگر صحیح لحن اور تلفظ کی ادائیگی سے پڑھا جائے تو دل کے سوتے پھوٹ اُٹھتے ہیں۔ فضائوں میں تیرتے پرندے ٹھہر جاتے ہیں سمندر اور دریائوں کا شور مدھم پڑ جاتا ہے اور جن و انس پر ایک رقت اور ہیبت طاری ہو جاتی ہے کچھ ایسی ہی خوش الحالی نے جناب صابری مرحوم کو بھی متاثر کر دیا اور فاتحہ کہنے کے بعد افغانی النسل بزرگ پٹھان کے نزدیک آکر بیٹھ گئے۔ انہوں نے جب ایک اجنبی شخص کو اپنے پاس بیٹھے پایا تو اچانک ان کی آواز خاموش ہوگئی۔ پھر موقعہ غنیمت جان کر صابری صاحب نے نہایت مودبانہ لہجہ میں ان سے پوچھا خان صاحب آپ کون ہیں اور کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ کیونکہ اس سے پہلے کبھی آپکو یہاں دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ وہ بزرگ شکستہ اُردو لہجہ میں بولے میں افغانستان کے شہر کابل کا رہنے والا ہوں صابری صاحب نے دوبارہ پوچھا آپ کی عمر کتنی ہے؟ بزرگ بولے بیٹا میری عمر 950 برس ہے اس پر صابری صاحب کو یقین نہ آیا تو انہوں نے دوبارہ تصدیق چاہی چنانچہ دوسری بار بھی انہوں نے پہلے جیسا ہی جواب دیا اس پر احسان صابری مرحوم کو قدرے حیرت اور غصہ آگیا اور کہنے لگے خان صاحب قرآن شریف پڑھ کر اور اسکی تلاوت کرکے آپ غلط بیانی کر رہے ہیں بھلا اس دور میں کیا انسانوں کی عمر 950 برس ہوسکتی ہے؟ صابری صاحب کے یہ الفاظ سننا تھے کہ ان بزرگ کا پارہ چڑھ گیا اور یکدم غصے سے چہرہ سرخ انگاروں کی طرح سرخ ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا جسم تو نارمل رہا مگر سر بڑھتے بڑھتے دیگ کے برابر ہوگیا اور آنکھیں ایک مٹی کے پیالے جتنی ہوگئیں صابری صاحب نے جب یہ خوفناک منظر دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ بزرگ آدم زاد نہیں بلکہ جنات میں سے ہیں لہٰذا خوفزدگی کے عالم میں فوراً وہاں سے اٹھ کر بھاگنے لگے، ابھی وہ بڑے دروازہ پر پہنچے ہی تھے کہ ایک 10 گز لمبا ہاتھ ان کے سر پر آن پہنچا اور ان کی گردن کے گرد اپنی لمبی لمبی مضبوط انگلیاں پیوست کرتے ہوئے انہیں اوپر اٹھا کر مزار کے نزدیک لا پھینکا، ایک شدید جھٹکا لگنے کے بعد ان کے بازو پر چوٹ آگئی اور وقتی طور پر اوسان خطا ہوگے ،کچھ دیر کے بعد وہ اٹھے اپنے حواس کو یکجا کیا اور بزرگ خان صاحب کے سامنے دست بستہ ہو کر اپنی بات پر معافی طلب کی جب خان صاحب نے ان کی انکساری اور غلطی کے احساس سے پھیلی ہوئی چہرے کی رنگت میں پیلاہٹ دیکھی تو ان کے اندر ایک رحم کا مادہ پیدا ہوا تاہم اس دوران صابری صاحب بار بار بڑے درد مندانہ لہجے میں اعتراف کر رہے تھے کہ میں نے لاعلمی میں یہ جملہ کہہ دیا میری خطا کو معاف فرما کر مجھے گھر جانے کی اجازت دیدیں کیونکہ بائیں با زو پر مجھے شدید درد محسوس ہو رہا ہے، وہ بیحد خوفزدہ ہو چکے تھے جب خان صاحب کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا جوابی ردعمل ظاہر نہ ہوا تو صابری صاحب نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا یوں لگ رہا تھا جیسے درد سے زیادہ ان پر عبدالرحمن جِنّ کا خوف طاری ہوگیا ہے اور آنکھ جھپکتے ہی وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ مبادا! ان کی جان نہ چلی جائے جب ایسی صورت حال پیدا ہوگئی تو وہ دیگ نما سر آہستہ آہستہ سکڑتا گیا حتیٰ کہ اپنی قدرتی حالت پر آگیا اور طویل بازو اور ہاتھ بھی نارمل ہوگئے، عبدالرحمن جن کی بڑی بڑی آنکھیں بھی حسب سابق ہوگئیں۔ پھر بزرگ خان صاحب نے بڑی محبت اور شفقت سے صابری صاحب کو پکڑ کر اپنے نزدیک کیا ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور درد والے بازو پر کچھ پڑھ کر اسے سہلایا جس سے سارا درد ختم ہوگیا۔ اب خان صاحب نے ان سے کچھ سوالات پوچھنا شروع کیے مثلاً تمہارا نام کیا ہے؟ کس خاندان سے تعلق ہے؟ صابری صاحب نے بڑی احتیاط اور دیانتداری سے سوچ سمجھ کر سہمے سہمے لہجہ میں سب سوالات کے جوابات دیئے مبادا یہ پھر ہیبت ناک شکل و صورت اختیار کرلیں ،اب کی بار اگر ایسا ہوگیا تو میری ہڈی پسلی ایک کر دی جائے گی۔ ان سوالات کے بعد عبدالرحمن جِنّ نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میرا نام عبدالرحمن ہے میں انسان نہیں جِنّ ہوں میں حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کا ایک پرانا شاگرد ہوں اور کافی عرصہ تک ان کے مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کرتا رہا ہوں میرے والد صاحب کا نام عبداللہ ہے اور وہ ضعیف العمر ہیں انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عہد دیکھا ہے اور ان کے دست مبارک پر بیعت کرکے صحابیت کا مرتبہ پایا ہے اس طرح میں والد صاحب کو دیکھ کر تابعی اور آپ نے مجھے دیکھا تو آپ تبع تابعین میں شامل ہوگئے۔ جب صابری صاحب نے ان کا یہ حیرت انگیز کمال شفقت پیار بھرا نرم لہجہ اور خوش طبع حسن سلوک دیکھا تو وقوع پذیر ہو نیوالا سارا واقعہ بھول گئے اور ان کی جان میں جان آگئی۔ پھر صابری صاحب نے عبدالرحمن جن کو اپنی مختصر داستان سنائی کہ میں بھی ملا عبدالحکیمؒ کا ایک محب اور عقیدت مند ہوں اور ایک طویل عرصہ سے جمعرات کے روز ان کے آستانہ پر حاضری دیتا ہوں۔ صابری صاحب نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے خان صاحب سے پوچھا آپ نے مولانا عبدالحکیمؒ سے کن وقتوں میں فیض علم حاصل کیا تھا؟ اگر اس دَور کا کوئی دلچسپ واقعہ سنا دیں تو مہربانی ہوگی عبدالرحمن یہ سن کر مسکرائے اور صابری صاحب کو تسلی دیتے ہوئے بولے۔ کیا احادیث صحاح ستہ میں تم نے یہ واقعہ نہیں پڑھا کہ ایک مرتبہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر کم و بیش ایک ہزار اجنہ (جنات) کی جماعت نے بیعت کی تھی؟ صابری صاحب خاموش رہے اور عبدالرحمن جن نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا۔ اس حدیث صحیحہ کے راوی مشہور صحابی حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ ہیں اور جنات کی اس جماعت میں سے اس واقعہ کے راوی میرے والد بزرگوار حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں ان کی جماعت میں شامل جن ایک ہزار جنات نے بیعت کرکے اسلام کی نعمت کو اپنے دامنوں میں ڈالا ان میں سے اب تک 997 جناب وفات پاچکے ہیں جبکہ باقی تین ابھی تک زندہ ہیں ان میں سب سے پہلے میرے والد صا حب ہیں جو افغانستان کابل میں رہتے ہیں دوسرے صحابی جن مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ تیسرے صحابی جن مصر کے شہر قاصرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
٭ عبدالرحمن جِنّ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر ایک بار پھر صابری صاحب سے مخاطب ہوئے۔ تم نے صحیح مسلم شریف کی وہ حدیث بھی پڑھی ہوگی جس کے راوی بھی حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اس طویل حدیث میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوۃ فجر سے فارغ ہو کر عبداللہ بن مسعودؓ کو اپنے ساتھ مسجد سے باہر دُور لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں جاکر کھڑے ہوئے وہ ایک کشادہ میدان تھا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کو ایک جگہ کھڑا کرکے ان کے گرد ایک حصار کھینچ دیا اور حکم دیا کہ تم اسی جگہ کھڑے رہنا۔ اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سمت میں تقریباً تین سو گز کے فاصلہ پر جاکر رک گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آسمان کی وسعتوں میں بڑے بڑے پرندوں کا ایک غول نظر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھاری بھر کم جسامت والے ایک ہزار پرندے زمین پر اتر کر بڑے نظم و ضبط ادب اور احترام کے ساتھ خود بخود ہی قطار اندر قطار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب اپنے چہرے کرکے بیٹھتے گئے پھر جب یہ تمام پرندے اُتر گئے تو معلّم انس و جنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور بعد ازاں فضائل دین اسلام کے موضع پر ان سے مفصل خطاب فرمایا اس دوران پرندوں کی جماعت ہمہ تن گوش رہی جب خطاب ختم ہوا تو ان پرندوں نے (جو اصلاً اجنہ/ جنات تھے) کلمہ طیبہ کاورد شروع کر دیا پھر اسکے بعد بڑے ادب و احترام اور نظم و ضبط کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب باری باری چل کر آتے اور اپنی طبعی چونچ سے دست رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیتے جب تمام نے اس عجیب انداز میں بیعت کرلی تو فضائوں میں پرواز کرگئے ۔ اب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنے صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس واپس تشریف لے گئے جنہوں نے تعمیل حکم میں اسی دائرہ کے اندر کھڑے رہ کر یہ تمام منظر ملاحظہ فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بتلایا کہ آج جنات کی اس جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کرکے اسلام قبول کیا ہے۔
٭ صابری صاحب ؒ مرحوم اس واقعہ کو بڑی توجہ اور انہماک سے سن رہے تھے جونہی خان صاحب خاموش ہوئے صابری صاحب نے ان سے مزید پوچھا آپ کے والد گرامی صلوٰۃ کس طرح ادا فرماتے ہیں عبدالرحمن جن نے بتلایا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر صلوٰۃ ادا فرماتے ہیں۔ اسکے بعد صابری صاحب نے مزید دریافت کیا کہ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کے پاس حصول علم کے زمانہ میں پیش آنیوالے واقعات جو آپ کو یاد ہوں، عبدالرحمن جن نے کہا ہاں ایک نہایت دلچسپ واقعہ تمہیں سناتا ہوں۔ جب میں سال دوم (Second year)کا طالب علم تھا تو میرے استاد محترم مُلّا عبدالحکیمؒ کو شدید یرقان ہوگیا حکیموں/ طبیبوں نے اس موذی مرض کا علاج سبز تازہ الائچی کے دانوں سے تجویز کیا۔ تازہ الائچیوں کا ملنا شہر سیالکوٹ میں دشوار بلکہ ناممکن تھا کیونکہ اس علاقہ میں دور دور تک الائچیوں کا کوئی باغ نہ تھا ایسے مشکل وقت میں استاد محترم کی خدمت میرا فرض اولین تھا جب ہر ایک نے الائچی کی دستیابی سے انکار کر دیا اور مسئلہ بڑا مشکل اور کٹھن ہوگیا تو میں نے استاد محترم سے درخواست کی کہ اگر مجھے ایک تیز رفتار گھوڑا فراہم کر دیا جائے تو میں چند دنوں تک ایسی الائچیاں لاسکتا ہوں چنانچہ میری درخواست منظور کرلی گئی اور مجھے ایک برق رفتار گھوڑا دیدیا گیا میں اس گھوڑے پر سوار ہو کر سیدھا یہاں سے 20 میل دور پسرور پہنچا اور وہاں کسی کے پاس اس گھوڑے کو باندھا اور اپنی تیز پرواز کے ذریعے پشاور پہنچا وہاں سے میں نے وادی چترال کے پھلوں کے ایک سوداگر سے سبز اور تازہ الائیچیاں حاصل کیں اور اسی رفتار سے واپس پرواز کرکے پسرور پہنچ گیا یہاں میں نے جان بوجھ کر دو دن قیام کیا پھر استاد محترم کی خدمت میں سیالکوٹ آگیا اور چترالی الائچیاں پیش کر دیں ان سے استاد محترم کا علاج کیا گیا تو چند دنوں بعد وہ صحت یاب ہوگئے ۔اس واقعہ کے عرصہ بعد پسرور کے اس شخص نے (جسکے ہاں میں نے گھوڑا باندھا تھا)اُستاد صاحب کو آکر یہ بتا دیا کہ پچھلے دنوں عبدالرحمن ایک گھوڑا لیکر میرے پاس آیا تھا اور اسکو میرے گھر باندھ کر کہیں چلا گیا اور شام کو واپس آیا میرے پاس دو دن ٹھہرا اور چلا گیا انہوں نے پوچھا گھوڑا کیسا تھا؟ اس شخص نے جواب دیا بالکل تروتازہ۔ ملا عبدالحکیمؒ پر جب یہ انکشاف ہوا تو مزید حیران ہوئے اور معاملہ کو بھانپ گے کہ عبدالرحمن آدم زاد نہیں بلکہ جنّ ہے اگر انسان ہوتا تو اتنی کم مدت میں چترال جیسے سینکڑوں میل دور علاقہ سے یہ تازہ الائچیاں کیسے لا سکتا تھا۔ قارئین کی مزید دلچسپی کے لئے مزید ایک واقعہ بھی قریب از حقیقت ہے کہ تحصیل علم کے دوران ایک مرتبہ عبدالرحمن جن نے اپنے ہم جماعتوں سے کہا کہ دیکھو میں کیا کرتا ہوں چنانچہ ساتھیوں نے دیکھا کہ وہ مٹی کے لوٹے میں داخل ہوگیا اور اسکی ٹونٹی سے باہر نکل آیا، ساتھی یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے اور اسکی شکایت انہوں نے اپنے پرنسپل مُلّا عبدالحکیمؒ سے کی آپ نے عبدالرحمن کو بلا کر پوچھا کہ تم نے کیا ایسا کیا ہے؟ جب انہوں نے اقرار کیا تو صاحب بصیرت ہونے کی وجہ سے آپ اس راز کو سمجھ گئے کہ عبدالرحمن آدم زاد نہیں لہٰذا حفظ ماتقدم کے طور پر اسے ڈانٹ پلائی اور ایسی حرکت کرنے سے منع کیا تاکہ دوسرے ہم جماعتوں میں خوف و ہراس نہ پیدا ہو جائے۔ بہرکیف انہوں نے کسی دوسرے سے اس بات کا تذکرہ نہ کیا اور مجھے اپنے ہاں بلایا جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو نہایت شفقت و مروت سے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور پیار سے بولے۔ بیٹا عبدالرحمن میں تمہاری اس گرا نقد خدمت کا بے حد شکر گزار ہوں جو تم نے میری اس بیماری میں انجام دی اور میری صحت و تندرستی کے لئے تم نے اتنا طویل اور دور دراز کا سفر طے کرکے وہ چیز فراہم کی جس کا اس شہر میں ملنا ناممکن تھا اس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت عطا فرمائی مگر اس بات سے مجھ پر یہ راز منکشف ہوا کہ تم آدم زاد نہیں بلکہ جن ہو۔ حدیث میں درج ہے کہ جنات سے انسانوں کو تعلقات استوار نہیں رکھنا چاہیے تمہاری تعلیم کے مکمل ہونے میں ابھی چند ماہ باقی ہیں مگر تم اپنی تعلیم کو مکمل ہی سمجھو لہٰذا تم مدرسہ چھوڑ کر واپس چلے جائو۔ عبدالرحمن نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ استاد محترم کی یہ بات سن کر میں نے ان کی خدمت میں نہایت ادب سے عرض کیا اس میں شک نہیں کہ میں جنات کی نسل سے ہوں مگر اب چونکہ آپ کا حکم ہے کہ میں یہاں سے چلا جائوں اس لئے میری یہ شرط ہے کہ جانے سے پیشتر میری جانب سے پانچ سو اشرفیوں کا یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں۔ شاگرد کا یہ خلوص دیکھ کر استاد محترم نے فرمایا بیٹا! میں ویسے ہی تم پر خوش ہوں ،مجھے ان اشرفیوں کی کوئی حاجت نہیں ہے لہٰذا تم ایسے ہی چلے جائو۔ استاد کی حکم عدولی چونکہ نافرمانی اور بے ادبی کے زمرہ میں آتی ہے لہٰذا میں نے الوداعی السلام علیکم !کہی اور وہاں سے پرواز کرگیا اور ہندوستان کے تاریخی شہر آگرہ جا پہنچا، وہاں میں نے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ملک کا حکمران شاہ جہان دہلی میں موجود ہے چنانچہ اسی دوران میں نے شاہ جہان کی بارہ سالہ بیٹی روشن آرا بیگم کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ جب شاہ جہان کو اس کا علم ہوا تو فوراً اس نے لاہور، بمبئی، انبالہ اور دیگر کئی شہروں سے اجنہ پر قابو پانیوالے بڑے بڑے عامل طلب کئے لیکن سب ناکام و نامراد لوٹ جاتے ان میں سے اکثر عاملین نے مجھے نکلنے کے لئے اپنے وظائف میں آیت الکرسی کا ورد کیا اور میں جوا باً ردعمل کے طور پر سورہ مزمل کا وِرد کرکے ان کو بے اثر بنا دیتا جس سے ان کا کوئی عمل کارگر ثابت نہ ہوتا۔ ان سب عاملین کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کے حضرت محمد معصوم صاحب کو سرہند سے آنے کی زحمت دی گئی جب انہوں نے اپنا عمل شروع کیا تو میں نے ان سے جواباً کہا حضرت میں صرف ایک ہی شرط پر شہزادی روشن آرا بیگم کی جان چھوڑوں گا اگر آپ سیالکوٹ سے میرے استاد محترم ملا عبدالحکیمؒ کو یہاں آنے کی دعوت دیں۔ آپ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اب تک تیس عاملین مجھ پر قابو پانے کی کوشش کر چکے ہیں مگر نامراد لوٹے ہیں لہٰذا آپ میری پیش کردہ شرط پر عمل درآمد کریں۔ شاہ جہان کو جب یہ شرط پیش کی گئی اس نے فوراً چند درباری کارکنوں کو سر زمین سیالکوٹ کی طرف روانہ کر دیا اور یہ پیغام اور ہدایات دیں کہ اللہ کے اس برگزیدہ بندے کو بڑے ادب و احترام سے میری طرف سے عرض کرنا کہ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ سے شہنشاہِ ہند کو دُکھی انسانیت کی خدمت کے سلسلہ میں ایک اہم ترین کام ہے لہٰذا اسکے لیے آپ کی دہلی میں تشریف آوری ناگزیر و لازم ہے ۔جب یہ شاہی وفد دہلی سے سیالکوٹ پہنچا اور مُلّا عبدالحکیمؒ کی خدمت میں بادشاہ کی عرضداشت پیش کی تو آپ کا درد مند دل گداز ہو گیا اور آپ نے ان کے ہمراہ چلنے پر رضا مندی کا اظہار کر دیا، چنانچہ بڑی عزت و احترام کے ساتھ اور جملہ شاہی آداب کو ملحوظِ خاکر رکھتے ہوئے اس دُرویش صفت ہستی کو دہلی لایا گیا۔ جب آپ کی آمد کا علم شاہ جہان کو ہوا تو بہ نفس نفیس وہ تمام آداب / پروٹوکول کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے باہر آیا ۔آپ کا والہانہ انداز میں خیر مقدم کیا گیا‘ محل کے اندر آپ کی نشست وبرخاست کا اہتمام کیا گیا اور پھر بادشاہ نے بھیگی آنکھوں سے اپنے دکھ کی داستانِ غم حضرت موصوف کی خدمت میں بیان کی۔ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ نے بلاتا خیر مریضہ شہزادی روشن آرا بیگم کو پیش کرنے کا حکم دیا جب شہزادی کو آپکی بارگاہ میں لایا گیا تو آپ نے بڑی شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے قریب بٹھایا۔ حضرت عبدالرحمن نے داستان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب میں نے اپنے شفیق استاد محترم کو اپنے رُوبرو دیکھا تو ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا حضرت نے مجھ سے کلام شروع کیا اور قدرے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا عبدالرحمن تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ میں نے کہا استاد محترم! میں اس شرط پر شہزادی کے وجود سے خارج ہوں گا کہ اگر شاہجہان آپ کی خدمت میں سات اونٹ اشرفیوں سے لدے ہوئے پیش کرے اور مزید ہدیہ جات دے۔ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کو چونکہ کسی انسان کی تکلیف اور پریشانی کا ازالہ کرنا مقصود تھا ،نہ کہ حصول زر و مال آپ کی خواہش تھی لہٰذا وقت کی نزاکت اور حالات کی مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپ نے اپنے شاگرد کا مطالبہ تسلیم کرلیا اور شاہجہان نے بھی یہ شرط پوری کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی دریں اثنا عبدالرحمن نے بلاکسی حیل و حجت استاد محترم کو السلام علیکم !کہا اور روشن آرا بیگم کو اپنی گرفت سے آزاد کرکے پرواز کرگیا۔ شہزادی کی حالت یکدم بدل گئی اور سارے دربار میں خوشی و مسرت کا سماں پیدا ہوگیا۔ شاہ جہان نے حسبِ وعدہ یہ تمام مال و زر سیالکوٹ کے لئے روانہ کر دیا جب یہ قافلہ دہلی سے سر زمین لاہور میں پہنچا تو حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ نے لاہور کے صوبہ دار سے فرمایا شاہ جہان نے یہ سات اونٹوں پر لدی ہوئی اشرفیاں اور دیگر مال و زر میرے ہمراہ بھیجا ہے اگر میں یہ تمام دولت سیالکوٹ لے گیا تو ممکن ہے خاندان کے افراد میں تنازعہ پیدا ہو جائے کیونکہ مال فتنہ و فساد کی جڑ ہے لہٰذا یہ مال آپ اپنے پاس رکھ لیں اور نیک مقصد پر صرف کردیں باقی کچھ مال و دولت آپ ہمراہ سیالکوٹ لائے اور اس سے تین چیزیں تعمیر کروائیں:
1 ۔ وسیع کشادہ سرائے جو غالباً سیالکوٹ کے ایک قریبی قصبہ چنوموم میں مفادعامہ اور لوگوں کے ٹھہرنے کے لئے وقف کر دی گئی۔ 2 ۔ ایک جامعہ مسجد جو اس وقت تحصیل بازار سیالکوٹ کی ایک قدیم مسجد ہے اور جامعہ عبدالحکیم کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے3 ۔ ایک کشادہ پانی کا تالاب جو پرانا بجلی گھر کے وسیع احاطہ میں بنوایاہر چند یہ تالاب عہد حاضر میں اپنی افادیت ختم کرکے خشک ہو چکا ہے تاہم اسے دیکھ کر اللہ کے اس نیک بندے کی یاد اب بھی تازہ ہو جاتی ہے اس تالاب کے جنوب میں مزار حضرت سید شاہ مونگا ولی ،شمال میں پرانا سول ہسپتال اور اسکے قریب مغرب میں عبدالحکیم پارک اورحضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کا مزار پرانوار موجود ہے۔
فیض مزار اقدس:
حضرت ملا عبدالحکیمؒ کے مزار مبارک پر اگر کوئی غبی بچہ (کند ذہن / مفلوج الدّماغ) آکر خاکِ مزار چاٹ لے تو بفضل تعالیٰ اس کا ذہن حکمت الٰہی سے کھل جاتا ہے۔ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ وہ عظیم المرتبت صاحب علم و بصیرت ہستی ہیں جن کی کئی کتب اس زمانہ اور دور میں بھی عالم اسلام کی قدیم عظیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر قاہرہ (مصر) میں طلباء کو پڑھائی جاتی ہیں۔
اس طویل اور انوکھی علمی داستان کے اختتام پر عبدالر حمن جِنّ نے صابری صاحب کو بڑے راز دارانہ لہجہ میں فرمایا۔ بیٹا احسان! اس ملاقات کا چرچا نہ کرنا بلکہ اسے ایک راز سمجھ کر اپنے تک ہی محدود رکھنا۔ احسان صابری قریشی مرحوم کہتے ہیں کہ میرا سینہ یہ گراں بار راز اپنے اندر زیادہ عرصہ تک محفوظ نہ رکھ سکا اور یہ واقعہ میں نے کھول کر بیان کر دیا جس کا ردّعمل یہ ہوا کہ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کے مقبرہ پر بارہا دفعہ جانے کے باوجود حضرت عبدالرحمن جِنّ سے میری ملاقات نہ ہوسکی جس کا مجھے بے حد دُکھ اور صدمہ ہے حالانکہ انہوں نے یہ راز محفوظ رکھنے کی شرط پہ بشرط زندگی مجھ سے پھر ملاقات کا وعدہ بھی فرمایا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

حوالہ : ماہنامہ سبیل ہدایت لاہور بابت جون 2005ء

 

سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 59949 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More