پاکستان اور سندھ میں اس وقت قیامت خیز گرمی پڑ رہی ہے۔
کچھ علاقوں میں تو درجہِ حرارت 50 ڈگری کے لگ بھگ بھی تجاوز کر گیا ہے اور
اس صورتحال کا سامنا دور دراز صحرائی علاقوں کو نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں کو
کرنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح کی گرمی میں کچھ خطرات تو ایسے ہیں جن کا لوگوں کو
ٹھیک طرح سے علم بھی نہیں۔
پاکستان میں شدید گرمی کا آغاز مئی کے وسط سے ہی ہو چکا تھا اور جون کے
پہلے ہفتہ تک بدستور جاری و ساری ہے.
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی کہ 23 مئی سے ملک کے بیشتر
علاقوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں ہائی پریشر کی موجودگی کے سبب گرمی کی
لہر مئی کے اواخر تک جاری رہ سکتی ہے۔
گذشتہ ایک ہفتے سے پنجاب، سندھ، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، خیبر پختونخوا،
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں بھی درجہ
حرارت معمول سے چار سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔
گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع
میں درجۂ حرارت اب 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ لاہور میں
درجۂ حرارت 46 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔
درجۂ حرارت اگر صرف 32 ڈگری سے 40 ڈگری کے درمیان ہو تو ہیٹ کریمپس اور
گرمی کے باعث توانائی میں کمی کا خطرہ ہو جاتا ہے۔ 40 سے زیادہ کا مطلب
خطرہ ہے۔ بہت زیادہ درجہ حرارت میں ہیٹ سٹروک، آرگن فیلیئر تک کا خطرہ بھی
ہو جاتا ہے۔
شدید گرمی کی لہر پاکستان کے سندھ اور پنجاب کے لیے ایک ماحولیاتی خطرہ
سمجھا جاتا ہے۔ ’گذشتہ کئی دنوں سے سندھ کے شہر کراچی و حیدرآباد وغیرہ کا
جو درجہ حرارت رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ وجود کا مسئلہ ہے۔
سندھ اور پنجاب میں مئی اور جون میں ہمیشہ موسم گرم ہوتا ہے’ لیکن اس بار
جیسی گرمی پڑی ہے ویسی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ بڑے بڑے شہروں میں بجلی
کے زیادہ استعمال سے جگہ جگہ لوڈ شیڈنگ متواتر ہو رہی ہے۔ کئی علاقوں میں
پانی کا بھی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ مختلف شہروں سے لو، ہیٹ سٹروک کی خبروں
میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اس گرمی کی لہر سے سندھ کے بیشتر اسکول بھی ایک ہفتہ کے لیے بند کر دیے گئے
تھے سندھ کے لوگوں کا دن میں گھروں سے باہر نکلنا انتہائی مشکل تر ہوگیا ہے۔
ایسے میں کھلی جگہوں پر کام کرنا اور کہیں آنا جانا بھی خطرناک تر ہو گیا
ہے۔
جبکہ امریکہ کے محکمہ موسمیات ’ایکیو ویدر‘ کے سربراہ ڈاکٹر جوئل مائر کا
پاکستان اور انڈیا میں اس گرمی کی لہر پر یہی کہنا ہے کہ ’دنیا میں اس وقت
جو درجہ حرارت چلتا آ رہا ہے اس میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ابھی اس میں
بہت تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی
اور عالمی حدت کا اثر الگ الگ علاقوں میں الگ الگ ہو گا۔ انڈیا اور پاکستان
جیسے خطوں میں عالمی اوسط کے مقابلے میں درجہ حرارت میں کہیں زیادہ اضافہ
ہو گا۔‘
ڈاکٹر مائر مزید اس پر کہتے ہیں کہ ’شدید گرمی کی صورتحال پاکستان، انڈیا
اور بعض صحرائی خطوں میں جہاں موسم گرما کا درجہ حرارت پہلے ہی انسانی
برداشت کی حد کو چھو رہا ہے، تشویش کا باعث ہے۔ ان خطوں میں اس وقت ہم جو
ریکارڈ گرمی دیکھ رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے خاص طور سے کم عمر کے لوگوں،
بزرگوں اور ان لوگوں کے لیے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔‘
پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سی ہی
شہریوں کو خبردار کردیا تھا ۔ اس کے پیش نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ
اتھارٹی نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کی ہدایت بھی جاری کر دی
تھی۔
شدید گرمی ہوتی ہے تو لوگ اس سے بچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی
بہت سے لوگوں کو روزی روٹی کے لیے تو باہر نکلنا ہی پڑتا ہے۔
دنیا کے ماحولیاتی امور کے ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ ’یہ ہیٹ ویو یعنی شدید
گرمی کی لہر اور ایکسٹریم ویدر پیٹرن عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے
ہیں۔ ’ہمارے شہروں، ہمارے گھروں میں جس طرح کا انفراسٹرکچر ہے اور جس طرح
کی ان کی بناوٹ ہے وہ اس طرح کے بدلتے موسم کے لیے بالکل موزوں نہیں ہیں۔‘
دنیا کے ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ پاکستان کے
اربن اور خاص کر کراچی و حیدرآباد کے اربن پلاننگ اور عمارتوں کی تعمیر میں
ماحول دوست یا اِیکو فرینڈلی طریقے رائج کیے جائیں۔ جیسا کہ کراچی کے گرین
آفس کمپلکس، انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر، اور اسلام آباد کے سرینا
ہوٹل میں اپنائے گئے ہیں۔
آبادیوں کے اندر گرین سپیسز، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے
لگانے کے باقاعدہ انتظام, گندے نالوں کا باقاعدہ کھُلی فضاؤں میں اس طرح
بہنا ان کے کچروں سے بھرے ان پر روک لگانا ان کی چھتوں سے ڈھکنا، کے ساتھ
ساتھ سولر پینلز کی تنصیب، تجارتی، تفریحی اور دیگر شہری سہولتوں کی رہائشی
علاقوں کے قریب فراہمی بہت اہم ہیں۔
اس کے علاوہ گھر کے اندر اور باہر ہریالی جیسے اقدامات گرمی کی شدت کو خاصی
حد تک کم کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور شہر کراچی کے بلدیاتی اداروں کے کرتا
دہرتاوں کو اپنے اپنے اربن ایریاوں میں فی الفور ہائی رائیز بلڈنگز پر
پابندی لگا دینا چاہیے. گراونڈ پلس فور سے زیادہ بلڈنگز سے زیادہ کسی بلڈرز
کو اجازت نہ دی جائے.
شہر کراچی و حیدرآباد میں آبادی کا جس تیزی سے پریشر آنا شہر میں فورا بڑی
پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھائی جائے. یہ چھوٹی گاڑیاں رکشہ، چنگچی ، موٹر
سائیکل، دھواں چھوڑتی بسیں، پاکستان کے دیگر صوبوں سے مسافروں کو لانے والی
ٹرانسپورٹ کو شہر سے باہر ان کو لاری اڈہ پر رکوایا جائے شہروں میں ان کا
داخلہ سختی ممنوع قرار دیا جائے. پورٹ قاسم اور کیماڑی کارگو ٹرالر کو بائی
پاس سے ڈاریکٹ ہائی وئے پر نکالا جائے. شہر کراچی میں مافیہ کے پانی ٹینکر
کو شہر قائد سے فورا نکال باہر کیا جائے شہر کراچی میں گھر گھر پانی کی
لائین دی جائے.
بازاروں اور دیگر تجارتی اداروں کو صبح 8:0 سے شام 6:0 بجے ہوٹل و فوڈ
اسٹریٹ کو رات 12:0 بجے تک کھلنے کی اجازت دیں اس سے کافی حد تک ٹمپریچر،
لوڈ شیڈنگ، اخراجات وغیرہ پر قابو پالیا جائیگا.
تمام اسکول و کالج و یونیورسٹیوں پر لازم کریں طالب علموں کو شجر کاری مہم
کی افادیت پر آگہی دیں اور اس افرادی قوت کو اضافی 20 نمبروں کے لیے درخت
کی نشونما تک دیکھ بھال پر مامور کیا جائے. اس ہی طرح وفاق اور صوبائی و
سینیٹر اراکین پر اپنے پانچ سالہ دوران اقتدار میں ان پر بھی طالب علموں
والا رول لاگو کیا جائے اس شجر کاری مہم میں عوام میں انقلابی آگہی دی جائے
اور پاکستان کے وفاقی و صوبائی اداروں کو بھی شامل کیا جائے تین چار سال
میں شجر کاری مہم انقلابی بنیادوں پر کام کیا جائے. تو پاکستان اور سندھ و
پنجاب سے یہ گرمی کی لہر کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے.
اپنی عمارتوں میں ماحول دوست اور اینرجی ایفیشینٹ کنسٹرکشن میٹریل کا
استعمال اور روشنی اور تازہ ہوا کی آمد و رفت یقینی بنانے کے لیے گرین
بلڈنگ کوڈ پرووِیژنز سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
کلائمیٹ چینج سے متعلق پیرس ایگرِیمنٹ کا ایک فریق ہونے کے ناطے پاکستان نے
پالیسی اور بلڈنگ ریگیولیشنز کی حد تک مختلف اقدامات تو کیے ہیں، مگر ان پر
عمل درآمد کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
پاکستان، انڈیا میں گرمی کی لہر کوئی نئی بات نہیں لیکن نئی بات یہ ہے کہ
ہر سال درجہ حرارت میں درجہ بہ درجہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مئی میں جون
جولائی کی گرمی اور وہ بھی 50 ڈگری سے زیادہ بہت تشویش کی بات ہے۔ اور آنے
والے سالوں میں ابھی سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا تو مشکل بڑھتی جائینگی.
ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ان کا سامنا
کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو کل ماحولیاتی خطرناک
قیامت سے گزرنا ہو گا۔
|