اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو پاکستان ہی کیوں بنایا؟

1952 وقت رات کے 12بجے لاھور سے ملتان جانے والی بس دیپالپور چوک اوکاڑہ پر رکی اور ایک بارعب چہرہ , اور خوبصورت شخصیت کا مالک نوجوان اترا اسے سول ریسٹ ہاؤس جانا تھا اس نے آس پاس دیکھا تو کوئ سواری نظر نہ آئ مگر ایک تانگہ جو کہ چلنے کو تیار تھا نوجوان نے اسے آواز دے کر کہا کہ اسے بھی سول ریسٹ ھاؤس تک لیتے جائیں

مگر کوچوان نے صاف انکار کر دیا نوجوان نے التجائیہ الفاظ میں کوچوان سے پھر کہا تو اس نے سخت لہجے میں یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آگے پھاٹک پر ایک سنتری کھڑا ھے وہ مجھے نہیں بخشے لہذا میں چار سواریوں سے زیادہ نہیں بٹھا سکتا, تانگے میں بیٹھی سواریوں نے جب نوجوان کو بے بس دیکھا تو کوچوان سے کہا کہ ہم سب مل کر اس نوجوان کی سفارش کریں گے لہذا اسے بھی ساتھ بٹھا لیں, کوچوان نے نہ چاہتے ھوۓ بھی نوجوان کو سوار کر لیا, جب پھاٹک آیا تو پولیس والے نے سیٹی بجا کر تانگہ روک لیا اور کوچوان پر برس پڑا کہ اس نے 4سے زیادہ سواریوں کو تانگے میں کیوں بٹھایا ؟ کوچوان نے 5ویں سواری کی مجبوری بیان کی مگر پولیس والےکا لہجہ تلخ سے تلخ ھوتا گیا۔

نوجوان نے 5روپے کا نوٹ کوچوان کو دیا کہ سنتری کو دے کر جان چھڑاؤ ۔مگر جب سنتری نے 5روپے دیکھے تو وہ اور بھی زیادہ غصے میں آگیا اس نے کوچوان سے کہا کہ تم نے مجھے رشوت کی پیش کش کی ھے جوکہ ایک جرم ھے لہذا اب تمہارا لازمی چالان ھو گا, سنتری نے کہا کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو پاکستان ہی کیوں بنایا ؟یہ کہہ کر اس نے کوچوان کا چالان کر دیا , تانگہ چلا گیا ۔ سول ریسٹ ھاؤس کے قریب نوجوان اترا تو اس نے کوچوان سے کہا کہ یہ میرا کارڈ رکھ لو اور کل نو بجے ادھر آجانا میں تمہارا جرمانہ خود ادا کروں گا ۔

اگلی صبح 9بجے کوچوان سول ریسٹ ھاؤس پہنچا تو پولیس کے جوانوں نے اگے بڑھ کر کوچوان کو خوش آمدید کہا اور پوچھا کہ گورنر صاحب سے ملنے آۓ ھو؟کوچوان کی جانے بلا کہ گورنر کیا ھوتا ھے ۔ پولیس کے جوان کوچوان کو دفتر کے اندر لے گۓ ۔ رات والے نوجوان نے کوچوان سے اٹھ مصافحہ کیا اور بیٹھنے کو کہا پھر اپنے پاس بیٹھے ڈی سی اوکو رات والا واقعہ سنایا ,نوجوان نے رات والے سنتری کو فورا طلب کیا اور ڈی سی اوکوحکم دیا کہ اس ایماندار پولیس والے جوان کو فورا ترقی دے کر تھانہ صدر گوگیرہ کا ایس ایچ او تعینات کرو ۔ اور کوچوان کا جرمانہ بھی اپنی جیب سے ادا کیا ۔

اپنی جیب سے جرمانہ ادا کرنے والا وہ نوجوان سردارعبدالرب نشتر گورنر پنجاب تھے ۔ جس نے مسلم لیگ کیلیے بے شمار خدمات سر انجام دیں اور وہ جناح کے دست راست اور ایمانداری کی اعلی مثال سمجھے جاتے تھے.

کیا وقت تھا اور کیسے کیسے لوگ تھے. جب تک یہ لوگ اقتدار میں رہے پاکستان کی بلندی اُوپر کی طرف جارہی تھی .آہستہ آہستہ یہ لوگ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے رہے اور پاکستان کی رفتار ہر میدان میں دھیمی پڑتی گئی اور اب 76 سال کے بعد تو اس طرح کی لیڈروں کے قصے سُن کر قلیجہ منہہ کو آتا ہے کہ ہمارے مُلک میں اس طرح کے پائے کے لیڈر بھی تھے.

مگر پھر تحقیق اور ریسرچ کے بعد یہی معلوم ہوا کہ جس قائد نے اپنی ٹیم میں شامل کیا وہ ہی قائد کے فرمان پر چلے اور ایسے چلے کہ قائداعظم کے سفر آخرت کے بعد بھی اس مُلک اور عوام کی بہتری میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی ملک اور قوم کی فکر تھی مگر اب دیکھیں تو ارد گرد سب مفادپرستی ، حوس، تکبُر، لالچی، خودغرضی، احسان فراموشی وغیرہ میں ڈوبی ہوئی ہے. جو سوائے اپنے آپ اور اپنی فیملی کا ہی مستقبل بنارہی ہے. ملک کو آئی ایم ایف کی لائین پر لگادیا اور عوام کو لنگر کی لائین پر اگر اس ہی طرح رہا تو کیا ہمارا مقابلہ آج کے روانڈا، ایتھوپیا، اریٹیریا جیسی ریاستوں سے نہ آن ہڑے.

ہماری تو بس یہی دعا ہے اللہ تعالی اسملک اور قوم کو نیک و بہادر لیڈر دئے جو مُلک اور قوم کو آگے کی طرف لیکر جائے اس ہی میں ملک اور قوم کی جیت ہے.
آمین
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 380 Articles with 162658 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.