ماؤں کی یکطرفہ کہانیوں کا نا قابلِ تلافی نقصان

پہلے معذرت، پھر آغازِ گفتگو!
گو سچ رہے ہمیشہ کڑوا، مگر میں حقیقت سے پردہ اُٹھانے کو بھی ایک ناگزیر اَمر سمجھتی ہوں۔ میں خود بھی ایک ماں ہوں، ماں کی عظمت سے انکاری نہیں۔ یقینأ ماں کا رُتبہ بہت اونچا ہے۔ ہمارا دین، قرآن و سنت سب ہی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ماں کا ادب، عزت و احترام ہر ذی شعور اولاد پر فرض ہے۔ مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ماں بھی انسان ہی ہے، اس سے بھی غلطیاں، کوتاہیاں سرذد ہو سکتی ہیں۔ یقین مانیۓ جس پہلوکی طرف آج میں اپنے قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہ رہی ہوں اسے ہم یکسر نظر انداذ کر دیتے ہیں مگر وہ پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ انسان کی زندگی پر بہت گہرا اثر رکھتا ہے۔

ماں ہی وہ ہستی ہے جس کے ساتھ اولاد کا بیشتر وقت گزرتا ہے، صبح سے رات تک۔ والد صاحب تو گھر کی مالی ذمہ داریوں کو ہی نبھانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ بلا شبہ ماں ہی بچوں کی پہلی درسگاہ ہے۔ بچوں کی بہترین اور اعلٰی تربیت کے لۓ ماں کا پڑھا لکھا ہونا ہی ضروری نہیں۔ میں سمجھتی ہوں ماں کا صابر و شاکرہونا، حالات و واقعات کو مثبت نگاہ سے دیکھنے اور پرکھنے کی صلاحیت کا موجود ہونا نہایت اہم ہے۔

ہمارے معاشرے میں ماں صرف ماں نہیں ہوتی وہ بیوی، بہو، نند، دیورانی، جیٹھانی، پھپھو اور ممانی کے کردار بھی نبھا رہی ہوتی ہے۔ یہ رشتے نبھانا کوئ آسان کام نہیں۔ اکثر ان ہی رشتوں کی وجہ سے ماں کے اندر تلخی جنم لینے لگتی ہے۔ یہ تلخی اُسکی سوچ، جذبات و احساسات کو منفی بنانے لگتی ہے۔

کچھ وقت تو ماں اِن جذبات کو حوصلے سے برداشت کرتی ہے مگر پھر شاید جانے انجانے وہ ان کا اظہار کسی سے کرنا ضروری سمجھنے لگتی ہے اور تب اولاد ہی اسے واحد، قریبی اور آسان ذریعہ نظر آتی ہے۔ دھیرے دھیرے وہ اپنی منفی سوچ و جذبات کو اپنی اولاد کے سامنے عیاں کرنے لگتی ہے۔ اب چاہے اس میں شوہر کی کسی بات پر اَن بَن کا معاملہ ہو یا سسرالی رشتوں کی طرف سے کردہ ناکردہ ظلم، ذیادتی یا ناانصافی۔

اب چونکہ بچے ماں کو اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہیں اور اپنی ماں سے محبت کی بناء نہں چاہتے کہ کوئ اُن کی ماں کے بارے میں غلط کہے، وہ اپنی ماں کی بیان کردہ یکطرفہ کہانی پر آنکھیں بند کر کے یقین کی سیڑھی پر چڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ یقین کا سفر وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتا جاتا ہے بلکل اس اینٹ کی مانند جسے آگ کی بھٹی میں پکا کر مضبوط و پختہ کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ اولاد والدہ کی بتائ گئ کہانی کی جانچ پرکھ تو کر نہیں سکتی، وہ بھی منفی سوچ و جذبات کی وارث بنتی چلی جاتی ہے۔

ماں تو اپنے تئیں بالکل ٹھیک ڈگر پر چل رہی ہوتی ہے مگر اس سب میں وہ یہ بھول جاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو معاشرے کا کامیاب اور مثبت سوچ رکھنے والا انسان نہیں بنا رہی۔ اسکے برعکس وہ انہیں ایک ایسی شخصیت میں ڈھال رہی ہے جو زندگی کو ہر زاویے سے منفی ہی تصور کرے گا۔

رشتوں کے شیشے میں بال آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اب اس شیشے میں عکس باپ کا ہو، دادا، دادی، تایا، تائ، چچا، چچی یا پھپھو کا۔ کبھی کبھی ماں اپنے ایسے ہی جذبات کا اظہار اپنی پسندیدہ اولاد سے کرتی ہے، دوسری بیٹی یا بیٹے کے بارے میں۔ بات پھر وہی ہے کوئ اس یکطرفہ سنائ گئ کہانی کو پرکھتا نہیں، اس لۓ بہن بھائ کے دل بھی ایک دوسرے سے برے اور بدگمان ہونے لگتے ہیں۔

بہت معذرت کے ساتھ اپنی تمام پڑھنے والی ماؤں سے۔ مگر آپ بھی اگر میری بات کو ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں تو شاید میں آپ کو ذیادہ تلخ نظر نہ آؤں۔ ہاں میری صاف گوئ کی شاید آپ بھی گواہی دیں۔ اس موضوع پر بات کرنے کا مقصد کسی کی دل آزاری یا کردار کشی کرنا نہیں۔ جو مقصود ہے وہ صرف یہ کہ بحیثت ماں ہم اپنے کردار کو مثبت طور پر پیش کریں۔ یکطرفہ کہانیوں سے گریز کریں تاکہ رشتوں کی ڈور کو اعتماد و خلوص کے موتیوں سے سجایا جا سکے۔

ایک نہایت اہم پہلو جو شاید نظر انداذ ہو گیا۔ آپ یقین کریں ماں کی یہی یکطرفہ کہانیاں رشتوں کو نقصان پہنچا دیتی ہیں جِس کی تلافی شاید ممکن نہیں۔ حقیقت واضح ہے کہ دل ایک بار منفی ڈگر پر چلنا شروع ہو جاۓ تو اُسے مثبت کی منزل دِکھانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔




 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 47 Articles with 47979 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More