کیاں شریف وادی نیلم یونین کونسل
کنڈل شاہی کاحصہ ہے ۔ کنڈل شاہی بازار سے 7 کلومیٹر فاصلے کی مسافت پرہے
گنجاپہاڑ کے دامن میں ہونے کیوجہ سے اس کی خوبصورتی قابل دید ہے۔ یہ گاﺅں
رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے یونین کونسل کنڈل شاہی کاتیسرا بڑاگاﺅں ہے اس کی
آبادی تقریباً 6700 افراد پرمشتمل ہے اور رجسٹرووٹرز کی تعداد 1470 ہے اس
گاﺅں میں صرف دو برادریوں کے لوگ رہتے ہیں بڑی آبادی مغل چغتائی ، اور
ملدیال مغل ہیں جبکہ دوسری آبادی گجر قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے
۔ کئی دہائیوں سے اکھٹے رہنے کیوجہ سے دونوں قبیلوں کے درمیان پیار ومحبت
اورہم آہنگی رہی ہے ۔ اور آج تک کبھی ذات پات اور بڑے چھوٹے کاتصور نہیں
رہا۔
یہ گاﺅں عقیدت کے لحاظ سے نہ صرف ضلع نیلم بلکہ آزادکشمیر پاکستان اور
پاکستان سے باہر کی دنیا کیلئے بھی قابل احترام ہے ۔ کیاں شریف کاابتدائی
نام کائیاں والی بہک تھا ۔ لیکن حضرت بابا جی نظام الدین ؒ سرکارکیانوی کے
یہاں پرتشریف لانے اور اسے اپنے لیے اور اپنی اولاد کیلئے پسند کرنے کیوجہ
سے اس کانام کیاں شریف ہوگیا۔ یہاں پرہرسال 6 عرس ہوتے ہیں اور ہزاروں کی
تعداد میں زائرین اندرون اور بیرون ممالک سے شرکت کرتے ہیں زائرین کرام
پورا سال دربار پرحاضرہوتے ہیں۔ان لوگوں کے آنے سے مقامی ٹرانسپورٹ کے
لوگوں کوکافی فائدہ ہوتاہے۔ وہاں پردیگر شعبوں میں کام کرنے والے لوگ بھی
فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ لیکن گاﺅں چونکہ مین روڈ کافی دور ہے اور مین روڈ سے گاﺅں
تک کی سڑک پگڈنڈی نماہے ، اس سے قبل تین مرتبہ یہ روڈ بن چکی ہے لیکن
ٹھیکیدار وں کی کرپشن اور متعلقہ محکموں کی لاپرواہی کیوجہ سے یہ آج بھی
گاڑی کے چلنے کے قابل نہیں ہے اس سڑک پرپی ڈبلیوڈی کاعملہ بھی تعینات ہے
لیکن وہ گھر میں بیٹھ کر تنخواہ وصول کررہے ہیں، اس روڈ پرصرف فورویل گاڑی
چل سکتی ہے اور وہ بھی جیپ کی صورت میں کار، موٹر سائیکل ، ٹیوٹا اور بس
والے صرف خواب دیکھ سکتے ہیں اگر روڈ برف بارش کی وجہ سے خراب ہوجائے تو
مقامی آبادی مل کر خود ہی ٹھیک کرلیتی ہے ۔
ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے زائرین کی ایک بڑی تعداد دربار عالیہ
تک حاضری دینے سے رہ جاتے ہیں گاﺅں کے ابتداتک توپگڈنڈی نما سڑک کسی نہ کسی
حال میں موجود ہے لیکن گاﺅں کاایک بڑا حصہ آج بھی سڑک کی سہولت سے محروم ہے
لوگ روزانہ چھ کلومیٹر کاپیدل سفرکرکے سکول اور ہسپتال پہنچتے ہیں۔ چھوٹے
بچوں کاسکول آنا بہت مشکل ہے اور اسی مشکل کیوجہ سے لوگ اپنے بچوں کوسکول
نہیں بھیج سکتے اور جب بچہ 10 یا12 سال کاہوجاتا اور پہاڑی راستوں پرآسانی
سے چلنا شروع کرتا ہے تواسے تب جاکر سکول میں کلاس (ون ) میں داخل کیاجاتا
ہے اس سے بچوں کے ابتدائی قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں گاﺅں کاسب سے بڑا
مسئلہ آبادی کے ٹاپ تک روڈ کانہ ہوپہنچنا ہے وہاں پرہی صحت ایک ڈسپنری ہے
جوکہ عمارت کے بغیر ہے گاﺅں کاڈسپنسرہی MBBS ڈاکٹر ہے کیونکہ لوگوں کوڈاکٹر
کی سہولت دور دور تک میسرنہیں ہے ۔ بیماری چاہے کوئی بھی ہودوا ایک ہی
تجویز کیجاتی ہے اور مختلف بیماروں کے مریضوں کوگلوکوز اور انجکشن
لگاکرانہیں قبرتک پہنچانے کاراستہ آسان کردیاجاتا ہے۔ ڈسپنسری بھی ایسی ہے
کہ وہاں پردوائی نام کی چیز یں ناپید ہیں صرف مشورہ مل سکتا ہ وہ بھی اگر
ڈسپنسرصاحب آئے ہوئے ہوں۔ گاﺅں کاتیسر ا بڑا مسئلہ تعلیمی سہولتوں کافقدان
ہے سرکاری سکولوں کی تعداد ہے جن میں بوائز پرائمری اور بوائز مڈل سکول اور
گرلز مڈل سکول ہیں لیکن ہائی سکول کوئی بھی نہیں ہے ، بچوں کی تعداد زیادہ
اور اساتذہ کی کمی تعلیمی نشوونما میں بڑی رکاوٹ ہے دوسری بڑی وجہ مڈل سکول
میں صرف کمپیوٹر کلاسز کانہ ہونا ہے ۔ جب تک پرائمری اورمڈل سکولوں میں
کمپیوٹر لیب کی سہولت نہیں ہوگی ۔ توآگے چل کریہ بچے جدید تعلیم سے رہ جاتے
ہیں اور احساس کمتری کاشکار ہوکر تعلیمی میدان سے راہ فرار اختیار کرلیتے
ہیں اس پسماندگی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ چوتھا بڑا مسئلہ بیروزگاری کاہے
گاﺅں کیاں شریف میں چند گنے چنے افراد ہیں جوکہ سرکاری ملازم ہیں باقی تمام
لوگ محنت مزدوری کرکے گزر بسر کرتے ہیں گاﺅں میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد
اب بھی کافی ہے ۔ جوبیروزگار ہیں اوران بچوں کی عمریں اب سرکاری نوکری حاصل
کرنے سے گزر رہی ہیں۔ Over Age ہورہے ہیں لیکن نہ ہی ان بچوں کومقامی سطح
پر اور نہ ہی ریاستی سطح پرروزگار مل سکا ، لوگ سیدھے سادھے ہیں ہرالیکشن
میں مقامی سیاسی زعما حاضر ہوتے ہیں سیاسی خواب دکھادکھا کر لوگوں سے ووٹ
حاصل کرلیتے ہیں آج سے 15 سال پہلے جس شخص کے بچے کیلئے یہ کہہ کرووٹ
لیاتھا کہ جیت گئے توملازمت دیں گے لیکن پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی اسی
بچے کی نوکری کیلئے ووٹ دیئے جارہے ہیں اب توہ بچہ عمر کے اس حصے میں ہے کہ
اسے سرکاری نوکری دلانے کیلئے قانون میں ترمیم کرنی پڑیگی ۔علاقائی سیاست
اب بھی فرسودہ ہے وزیر صاحب تو موجود ہیں لیکن پرائمری سطح وارڈ کی سطح اور
یونین کونسل اور ضلعی سطح پرباڈیاں کام نہیں کررہی لوگوں کے معاشی اور
سماجی مسائل اجاگر نہیں ہورہے پہاڑوں کے درمیان دبی ہوئی آبادیوں کوصرف
خدادیکھا رہاہے۔ حکمرانوں کی نظروں اور دلوںسے اجھل ہیں، میں آج صرف اپنے
گاﺅں کے حوالے سے لکھ رہاہوں ویسے توپورے ضلع نیلم کی حالت اسی طرح ہے آج
مجھے یہ امیدہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت میرے گاﺅں کے مسائل حل کریگی ،
کیونکہ پاکستان اور آزادکشمیر دونوں جگہ پرپیپلزپارٹی کی مضبوط حکومتین کام
کررہی ہیں اور وزیرحکومت میاں عبدالوحید کاتعلق بھی ایسی یونین کونسل سے ہے
اور میں بھی امید کرتا ہوں کہ اس گاﺅں کاکام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر
ہوکر کیاجائے گا۔
1۔وزیرحکومت سے التماس ہے کہ وہ محکمہ شاہرات سے ازسر نو سڑک کاسروے
کروائیں اور موجودہ روڈ کااز سرنو سروے کروایا جائے اور مڈل سکول سے لیکر
بڑی بہک تک لوگوں کوزمینوں کے معاوضے دے کر پختہ روڈ تعمیر کیاجائے مڈل
سکول سے لیکر دربار عالیٰہ تک پختہ سڑک بنائی جائے ۔
2۔ڈسپنسری کی جگہ کی رقم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عمارت کیلئے ٹنڈر نوٹس
جاری کیاجائے۔
3۔ڈسپنسری کواپ گریڈ کیاجائے اور ادویات کی فراہمی کویقینی بنایاجائے۔
4۔ پرائمری لیول پراگر نہیں تودونوں مڈل سکولوں میں کمپیوٹر لیب قائم
کیجائیں او رطلبا کی تعداد کے مطابق اساتذہ کی تعیناتی کویقینی بنایاجائے ۔
5۔بچیوں کیلئے ہائی سکول کی فوری طور پر منظوری صادر فرمائی جائے۔
6۔ بیروز گاررنواجوں کونوکری دلائی جائے تاکہ ان کامستقبل تاریک ہونے سے بچ
جائے ۔
7۔ پڑھے لکھے بچوں کواگر مقامی یاریاستی اداروں میں نوکری نہیں دلائی
جاسکتی توانہیں باہر کسی ملک میں بھیج دیاجائے تاکہ ان کے والدین کے مسائل
حل ہوسکیں۔
میری ان شکایات اور تجاویز سے اختلافات توہوسکتا ہے لیکن یہ سوچیں کہ آج ہم
کس دور میں سفر کررہے ہیں لوگ چاند پرکالونیاں بنانے کی منصوبہ بندی کررہے
ہیں ۔ سمندر کی تہوں سے فوائد حاصل کیے جارہے ہیں سائنس اب اپنے انجام کو
کھنچ رہی ہے اور میں 1972 میں جس راستے پرپیدل چل رہا تھا آج بھی اسی راستے
سے گھر جاتا ہوں گھر سکول تک 2 گھنٹے پیدل سفر تھا توآج بھی وہی حالت ہے
میری جوماں بہن40 سال پہلے جنگل سے لکڑاور گھاس کاٹ کرلاتی تھی آج بھی اس
کی وہی حالت ہے ہم آج بھی ترقی کے ثمرات سے میلوں دور ہیں ہم اہلیان کیاں
شریف روٹی ، کپڑا، اور مکان دینے والی حکومت سے امید کرتے ہیں کہ یہ مسائل
اور گاﺅں ان کی توجہ چاہتا ہے ۔ |