مودی کے بدلتے رنگ: نتیش، نائیڈو اور معیزو کے سنگ

 شادی فرط و مسرت کا موقع ہوتا ہے مگر دولہن میکے کے بچھڑنے پر آنسو بہاتی ہے۔ اس کے برعکس دولہا ہنستا اور مسکراتانظرآتا ہے کیونکہ وہ اپنی خوبصورت دولہن کے ساتھ نئی زندگی کا خواب سجا رہا ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کے لیے اقتدار دولہن جیسی ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف اس کا خواب دیکھتے ہیں بلکہ اسی کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی شہزادی کے لیےاپنا سب کچھ کھپا کر شادی کے وقت کامیابی کا جشن مناتے ہیں ۔ سیاسی اصطلاح میں اسے حلف برداری کہاجاتاہےلیکن اگر کسی وجہ سےخوابوں کی دولہن کے بجائے کسی معذورسے شادی کی نوبت آجائے تو دولہے کا چہرہ اترجا تا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ یہی ہوا۔ حکومت سازی کا دعویٰ کرتے وقت انہوں مسکرانے کی بہت کوشش کی مگر بن نہیں پڑا۔ وقت کا سُپر اسٹا ر خوشی کی اداکاری کرنے میں ناکام ہوگیا کیونکہ منور راناکے مطابق (مع ترمیم)؎
ہار ہے تو ہار کا اظہار ہونا چاہئے
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے

وزیر اعظم نریندر مودی کو خوابوں کی ملکہ اپنے میکے سے 370؍باراتی لانے والی تھی اور دیگر دوست و احباب کے ساتھ ان کی تعداد 400 ؍پار ہوجانے والی تھی مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ دولہن کے میکے سے بہ مشکل تمام صرف 240 باراتی ہی آسکے ۔ ان باراتیوں میں سے بیشتر اپنی کم تعداد پر غمگین ہونے کے بجائے خوش ہیں کیونکہ مودی اور شاہ نے پچھلے دس سالوں میں انہیں بہت ذلیل و رسوا کیا۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس باران کی تعداد 400 پار ہوجاتی تویہ دونوں انہیں تڑی پار کرکے انڈمان نکوبار بھیج دیتے۔ مودی اور شاہ کی من مانی آسمان سے باتیں کرتی۔ مودی کو ہٹانا ناممکن ہوجاتا اور وہ جب تک چاہتے سرکاری خرچ پر عیش کرتے اور تھک جانے پر شاہ جی کو اپنی جگہ براجمان کردیتے ۔ اس دوران امبانی اور اڈانی کو تو کمانے کا خوب موقع ملتا مگر کمل دھاریوں کی ایک نہیں سنی جاتی۔ انہیں یقین ہے کہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کا طلسم ٹوٹنے سے ان کی اہمیت بڑھے گی اوران کو اپنی محنت کا کریڈٹ ملنے لگے گا ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس مکت (پاک) بھارت بنانے والے مودی اور شاہ نے حزب اختلاف سے زیادہ نقصان خود اپنی پارٹی اور سنگھ پریوار کا کیا ہے۔ دنیا کی سب بڑی پارٹی کا انتخابی منشور ایک فرد یعنی مودی کی گارنٹی بن گیا اور ’میں میں ‘ کا شور میں بی جے پی کے شیر بھیگی بلی بن کر ممیانے پر مجبور کردئیے گئے۔ بی جے پی کے اندر مودی کی اس شکست سے جو حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے اس سے وزیر اعظم کو خوف محسوس ہورہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران حزب اختلاف سے شکست کا خوف انہیں اول فول بکنے پر مجبور کررہا تھا لیکن اب انہیں خود اپنے لوگوں کا ڈر ستانے لگا ہے۔ آئینی ترتیب یہ ہے کہ پہلے سب سے بڑی پارٹی کے ارکان پارلیمان کے اجلاس میں قائد کا انتخاب ہوتا ہے او ر اس کے بعد صدر مملکت کی جانب سے اس کو حکومت سازی کی دعوت دی جاتی ہے۔ آگے چل کر اعتماد کے ووٹ کی خاطر حامیوں کے خطوط حاصل کیے جاتے ہیں ۔

اس بار پارٹی کے ارکان پارلیمان کا اجلاس بلانے کے بجائے براہِ راست این ڈی اے نے مودی کو اپنا رہنما منتخب کردیا ۔ وزیر اعظم مودی تو اپنی پارٹی کا نام تک بھول گئے ۔ وہ این ڈی اے کی رٹ لگاتے ہوئے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ 1962 کے بعد پہلی بار محاذ کی سرکار تیسری بار حلف لے رہی ہےیعنی اکثریت کے باوجود پچھلی دونوں حکومتیں بی جے پی کی نہیں بلکہ متحدہ قومی محاذ کی تھیں ۔ اپنے مفاد کی خاطر مودی نے اپنی ہی پارٹی کی اہمیت ختم کررہے ہیں۔ اپنی مادرِ تنظیم کے ساتھ غداری کا کام وہ آدمی کررہا ہے جو کسی بھی وقت جھولا اٹھا کر چل دینے کا ڈھکوسلہ دیتے ہوئے کہتا تھا کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ اس غلط بات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی مودی کے آگے پیچھےاوپر نیچے خود مودی کا ہونا کیا کم ہے؟ وزیر اعظم مودی نے بی جے پی ارکان پارلیمان کا باقائدہ اجلاس طلب کرکے اس میں اپنے لیے توثیق حاصل کرنے سے اس لیے گریز کیا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اگر اس میں ایک فرد بھی اٹھ کر مودی کےعلاوہ کسی اور کا نام پیش کردےتو ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور بغاوت کا وہ بیج پڑے گا ا س کی آبیاری کرکے آر ایس ایس اسے تناور درخت میں بدل دےگا ۔

بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اس آئینی روگردانی پر کہا کہ عوام کے ذریعہ نااہل ٹھہرائے جانے والے مودی کو قیادت کا حق نہیں ہے لیکن کرسی کی ہوس کے آگے وہ مجبور ہیں ورنہ اپنی پسند کے آدمی کو اقتدار سونپ کر ایثار و قربانی کا پاکھنڈ کرسکتے تھے ۔وزیر اعظم بننے کے جنون میں مبتلا مودی فی الحال اپنے وقاراور پارٹی کی روایات کو پامال کررہے ہیں۔ دولہا عام طور پر اپنی شرائط پر شادی کرتا ہےاور اس کے مطالبات سسر کو پگڑی پیروں میں رکھنے پر مجبور کردیتے ہیں لیکن یہاں الٹا ہوگیا۔ سات پھیروں سے قبل چونکہ 276 باراتیوں کی موجودگی لازمی تھی اس لیےمہمانوں نے مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی شرائط رکھنا شروع کردیں ۔ جنتا دل (یو) کے معمر رہنما کے سی تیاگی نے کھلے عام حزب اختلاف کا لب و لہجے میں اگنی ویر اسکیم کی مخالفت کردی اور یکساں سِول کوڈ پر اپنے پرانے موقف کا اعادہ کردیا ۔ بی جےپی اگنی ویر اسکیم کی حامی ہے اوریکساں سِول کوڈ کو نافذ کرنے کی خاطر چار سو پار کرنا چاہتی تھی ۔

تیلگو دیشم پارٹی کے رہنما تیلگو دیشم پارٹی کے لوکیش نائیڈو نے بھی یکساں سِول کوڈ اور حلقہ بندی کے معاملے میں من مانی کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں جیتے جی مسلمانوں کو ریزرویشن ملنے نہیں دوں گا لیکن لوکیش کے مطابق وہ قومی جمہوری محاذ نہیں بلکہ بی جے پی کا موقف ہے ۔ انہوں آندھرا پردیش کے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ فکرمند نہ ہوں کسی کا ریزرویش ختم نہیں ہو گا۔ٹی ڈی پی ہمیشہ سے سیکولر پارٹی رہی ہے اور رہے گی ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بی جے پی نے اتحادی سرکار میں نہیں بلکہ اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آنے پر ریزرویشن ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شادی سے پہلے ہی اگر کسی دولہے کو ایسی جلی کٹی سننی پڑ جائے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب آگے گھر سنسار کیسے چلے گا ؟ جہاں تک عوام کا سوال ہے ان کے لیے یہ سرکار گونگی اور بہری پہلے سے تھی اب لنگڑی اور لولی بھی ہوگئی ہے۔ فی الحال بی جے پی کے باراتیوں کی پلکیں نم ہیں اور دولہے مودی کا چہرہ لٹکا ہوا ہے ۔ بشیر بد ر کے بقول (مع ترمیم) ؎
شبنم کے آنسو کمل پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا

نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو پہلے بھی این ڈی اے میں تھے مگرانہوں نے ایسی تلخ کلامی کبھی نہیں کی تھی کیونکہ ان کے نزدیک نریندر مودی کا اٹل بہاری واجپائی جیسا احترام نہیں ہے نیز اقتدار کے گھمنڈ میں مودی اور شاہ نے ان کے ساتھ جو بدسلوکی وہ اس کا انتقام لے رہے ہیں۔ پچھلے سال جنوری میں جب نتیش کمار نے کہا تھا کہ ’مرجانا قبول ہے مگر ان (بی جے پی) کے ساتھ جانا قبول نہیں ہے تو اس کے جواب میں امیت شاہ بولے تھے میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آپ( نتیش کمار) کے لیے این ڈی اے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوچکے ہیں ۔ اب دونوں فریق تھوک کر چاٹ چکے ہیں۔ 2004میں اپنی شکست کے بعد چندرا بابو نائیڈو نے کہا تھا 1999میں سارے مسلمانوں نے انہیں ووٹ دیاتھا مگر 2002 گجرا ت فساد کے وقت این ڈی اے میں شامل رہنے کے سبب وہ 2004 الیکشن ہار گئے ۔ 2019 میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ 2002 گجرات فساد کے بعد انہوں نے سب سے پہلے مودی کا استعفیٰ مانگا تھا۔ اس کے بعد کئی ممالک میں ان کے داخلے پر پابندی لگ گئی۔ وزیر اعظم بننے کے بعد وہ پھر سے اقلیتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو نے مودی کو کٹرّ دہشت گرد تک کہا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نےنائیڈو کے جواب میں ان پر موقع پرستی اور اپنے سسر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا الزام لگایا تھا۔ ایسے لوگوں کو اگر ابن الوقتی کے سبب ایک دوسرے سے رشتہ کرنے پر مجبور ہونا پڑے تو بھلا وہاں خوشی اور انبساط کا کیا کام ؟ وزیر اعظم کی حلف برداری میں مدعو کیے جانے والے ۷؍ میں ۳؍بیرونی مہمان مسلمان ہیں۔ان میں مالدیپ کے محمد معیزو بھی شامل ہیں۔ وہی معیزو جنھوں نے اپنے ملک سے ہندوستانی فوجیوں کو نکال باہر کیا تھا۔معیزو کے مالدیپ میں سیاحت کی صنعت کو غرقاب کرنے کی خاطروزیر اعظم نریندر مودی نے لکشدیپ کے سمندر ڈبکی بھی لگائی تھی ۔ اس کے بعد بھگتوں نے مالدیپ کے بائیکاٹ کی مہم چلائی اورمسلمانوں کے خلاف خوب نفرت انگیزی کی۔ حلف برداری کی تقریب میں محمد معیزو کو دیکھ کر بھگتوں پر کیا گزرے گی ؟ ویسے پچھلے پانچ دنوں میں وزیر اعظم کے جیکٹ کا رنگ سبز ہوا ۔ اس کے بعد وہ آئین کے سبز جلد والےنسخے کو بوسہ لیتے دکھائی دیئے ۔ان کے چہرے پر کئی رنگ آئے گئے اور آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا بقول امیر امام ؎
ابھی تو اور بھی چہرے تمہیں پکاریں گے
ابھی وہ اور بھی چہروں میں منتقل ہوگا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.