اتر پردیش کےنتائج: شنکر آچاریہ اور امیت شاہ

اتر پردیش نے اس بار مودی سرکار کو اکثریت سے محروم کردیا ۔ 2014 کی طرح اگر 71؍ نشستوں پر کامیابی مل جاتی تو نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کے آگے نہ پھیلانا پڑتا ۔ایکناتھ شندے اور اجیت پوار کے نخرے نہ اٹھانے پڑتے اور نہ ہندوستان عوام پارٹی کے ٹکٹ پر ایک نشست جیتنے والے جیتن رام مانجھی کو کابینی وزیر بنانا پڑتا۔ اب حالت یہ ہے کہ مودی جی جئے شری رام کو بھول کر جئے جگناتھ کا نعرہ لگانے لگے ہیں ۔ جن لوگوں کو اس پر حیرت ہے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ کورونا کی وبا کے دوران صرف یوپی میں اجتماعی طور سڑکوں پر لاشیں جلائی گئیں؟ ندیوں کے کنارے بے گوروکفن دفنا دیا گیا ؟ اور گنگا میں لاشوں کوبہایا گیا؟ کورونا کے فوراً بعد صوبائی انتخاب پر اس کا اثر تو نہیں ہوا مگر قومی انتخاب میں مودی اور یوگی کو سبق سکھا دیا ۔ بی ایس پی کی وجہ سے بی جے پی کو 16 نشستوں کا فائدہ ہوگیا ورنہ وہ 17 پر سمٹ جاتی ۔ سی ایس ڈی ایس کے حالیہ جائزے میں یوپی کے اندر مودی کی مقبولیت 70 سے 32 فیصد پر آچکی ہے اور راہل گاندھی 36 فیصد پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کے سیکریٹری کے ایل شرما نے مودی سے زیادہ فرق کے ساتھ مودی کی مہارانی سمرتی ایرانی کو ہرا دیا۔

اترپردیش مودی اور یوگی دونوں کی کرم بھومی ہے ۔ وہ اگر وہاں سے بھاگ کر گجرات یا اتراکھنڈ نکل جائیں تو بھگوڑے کہلائیں گے لیکن یوپی میں ہی رہیں تو اگلا انتخاب نہیں جیت پائیں گے اس لیے کریں تو کریں کیا؟ کی صورتحال ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ ان نتائج سے امیت شاہ کی کرسی خطرے میں چلی گئی ہے پھر بھی ان کی خوشی مسلمانوں سے کم نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو نریندر مودی کا ولیعہد سمجھتے ہیں لیکن مودی کی وراثت پر یوگی کا دعویٰ بھی ہے ۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کو انڈیا محاذ کے ساتھ جانے سے روکنے کی خاطر جلد بازی میں مودی پر بھروسہ کرلیا گیا مگر ان کے دن گنے جاچکے ہیں اور بہت جلد انہیں مارگ درشک منڈل میں بھیج کر سبکدوش کردیا جائے گا ایسے میں مودی کی جگہ لینے کے خواہشمند شاہ اور یوگی آمنے سامنے ہوں گے۔ ان انتخابی نتائج نے یوگی کی نہ صرف ناک کاٹ دی بلکہ کمر بھی توڑ دی ہے۔

2014 میں جب نہ تو اترپردیش کی سیاست یوگی تھے اور نہ رام بلکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے سہارے اچھے دنوں کا خواب بیچا جارہا تھا تو بی جے پی 80 میں سے 71 نشستوں پر کامیاب ہوگئی تھی ۔ اس کے بعد جب 2019 میں قومی انتخاب ہوا تو یوگی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوچکے تھے مگر ان کی منحوسیت سے 9؍ نشستیں گھٹ گئیں اور بی جے پی 62 پر سمٹ گئی۔ 2024 کے انتخاب سے قبل یوگی کے ساتھ رام مندر کا بھی اضافہ ہوگیا ۔ اس سے توقع کی جارہی تھی کہ پورے اترپردیش میں باباجی کا سیاسی بلڈوزر خوب زور و شور سے چلے گا اور اس کے نیچے ہاتھ ، سائیکل اور ہاتھی کچل کر روند دئیے جائیں گے لیکن بی جے پی 33 یعنی تقریباً نصف پر پہنچ گئی۔ اس لیے اب امیت شاہ کے لیے یوگی کا کانٹا نکالنا نہایت سہل ہوگیا ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مہاراشٹر کےنائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کی نذیر بناکر ان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا جائے۔ دوسرے مرکز میں بی جےپی کی لنگڑی لولی سرکار میں وزیر بنانے کے چند ماہ بعدتوسیع و تبدیلی کے بہانے سیاسی کوڑے دان میں ڈال دیا جائے ۔

ہندو دھرم گرو بھی خوش ہیں جو رام مندر کے سنگ بنیاد کے گھڑی کو منحوس مانتے تھے ۔مودی سرکار نے 5؍ اگست 2020 کےشبھ مہورت (مبارک وقت) پر وزیر اعظم کے ہاتھوں سے مندر کا سنگ بنیاد رکھوایا مگر اس ملک کے چار بڑے شنکر آچاریوں نے متفقہ طور پر اسے منحوس گھڑی قرار دیا تھا ۔ تین مذہبی رہنماوں نےاپنے علیحدہ علیحدہ بیان میں 5؍ اگست کے انتخاب کو دیش دھرم (ملک اور مذہب) کیلئے سخت نقصان دہ بتایا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندو تقویم کے مطابق اس پورے مہینے میں کوئی شبھ مہورت تھا ہی نہیں اس لیے ان کو حیرت تھی کہ یہ لوگ کہاں سے رام مندر کی تعمیر کا مہورت نکال لائے ۔ رام جنم بھومی ٹرسٹ کے چیئرمین مہنت نریتا گوپا ل داس نے شبھ مہورت کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا نہیں ۔ شنکر اچاریا سواد مانند سرسوتی نے 5؍ اگست کو بھارت کیلئے منحوس قرار دے کر افسوس کے ساتھ پوچھا تھا کہ کس کے کہنے پر یہ تاریخ رکھی گئی۔ جو بالکل بابرکت نہیں ۔ جبکہ شنکر اچاریہ نریندر آنند مہاراج نے بھی 5؍ اگست کو شبھ مہورت ماننے سے انکار کردیاتھا۔

رام مندر کا سنگ بنیاد ملک و قوم تو کجا خود بی جے پی کے لیے منحوس ثابت ہوگیا۔ اس کے دو سال بعد منعقد ہونے والے اسمبلی انتخاب میں اس کی ۵۵؍ نشستیں کم ہوگئیں لیکن کسی طرح یوگی اپنی سرکار بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ 2024 میں رام مندر کے افتتاح (پران پرتشٹھان) سے بھی سارےشنکر آچاریہ ناراض تھے مگر حکومت نے ان کی ایک نہیں سنی ۔ ان نتائج سے وہ لوگ بھی خوشی منا رہے ہوں گےاس لیے کہ بی جے پی نہ صرف ایودھیا میں ہار گئی بلکہ وسطی اترپردیش میں تقریباً صاف ہوگئی۔ مودی حکومت افتتاحی تقریب کو ہندو مذہبی اصول و روایات کےمنافی بتاکر سوامی شری نشچلانند سرسوتی(گووردھن پیٹھ، پوری)، سوامی شری بھارتی تیرتھ (شرنگیری شاردا پیٹھ)، سوامی سدانند سرسوتی (دوارکا شاردا پیٹھ) اور سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی (اترامنائے جیوتش پیٹھ) نے ایودھیا میں ’پران پرتشٹھا‘ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا ۔ مودی جی نے ان چاروں شنکر اچاریہ کے اعتراض کو نظر انداز کیا اور اب اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔

مذہبی پیشواوں کا کہنا تھا کہ اس تقریب کی معنویت ، نوعیت اور وقت سبھی ہندو مذہب کےاصول و روایات کے منافی ہیں۔ انہوں نے پروگرام کا مقصد سیاسی بتاتے ہوئے کہاتھا کہ جب مندرکی تعمیر ہی مکمل نہیں ہوئی ہے تو پھر رام للاّّ کی مورتی کی وہاں تنصیب کیسے کی جاسکتی ہے؟ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آر ایس ایس، بی جے پی اور وی ایچ پی نے ایک خالص مذہبی معاملہ کو سیاسی رنگ دے دیا ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی اس کا فائدہ اٹھا سکے۔ یہ الزام صد فیصد درست تھا لیکن بیچاری بی جے پی اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے میں پوری طرح ناکام رہی ۔ اس دوران رام کے نام پر ہندو سماج کے اندر اتحاد پیدا کرنے کےمنصوبے پر پانی پھر گیا کیونکہ شنکر اچاریہ سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی نے کہہ دیا کہ یہ مندر رامانند سمپردائے(فرقہ)کا ہے،اس لئے یہاں اس طرح کے کسی بھی پروگرام کے انعقاد کی ذمہ داری اس فرقہ کے افراد کی ہونی چاہئے۔ ان کاکہنا تھا کہ چمپت رائے اور ان کے دیگر ساتھی بیشتر ایسے افرادکا مدعو کررہے ہیں جن کا اس فرقہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ان کو دیگر لوگوں کی وہاں موجودگی پر بھی اعتراض تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ یہ مندر رامانند سمپردائے (فرقہ )کو سونپ دینا چاہئےاور رام مندر ٹرسٹ کے تمام عہدیداران کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔

رام مندر کو بی جے پی والے سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھتے تھے اس لیے اس وقت تو اس مطالبہ کو قبول کرنا مشکل تھا لیکن اب جبکہ یہ پتہ چل گیا ہے کہ اس سےسیاسی چوزے نہیں نکلتے اس لیےاپنی جان چھڑانے کی خاطر بی جے پی والے شنکر اچاریہ کے مطالبے پر غور کرسکتے ہیں۔ ہندو سماج کا سب سے نازک مسئلہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کا ہے۔ رام مندر کے افتتاح نے اسے بھی اچھال دیا تھا۔ سوامی اویکمتیشورانند نےایک دلت کو پجاری بنانے پر بھی اعتراض کیا تھا کیونکہ ان کے مطابق یہ صرف برہمن کا حق ہے۔ ان کی نظر میں یہ حرکت ہندوؤںکا ’اپمان‘(توہین) ہے۔ سوامی نشچلانند سرسوتی نے چمپت رائے کے ذریعہ مودی کو بھگوان وشنوکا اوتار قرار دینے اور بی جے پی- آر ایس ایس- وی ایچ پی کے ذریعہ سوامی ادھیوکشانند سرسوتی کو گووردھن مٹھ کا شنکراچاریہ مقرر کرنے پر سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہندو مذہب اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔

سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی نے مندرکی تکمیل سے قبل مورتی کی تنصیب دھرم مخالف بتایا تھا اور اسے بغیر سر کا معذور بچہ قرار دے کر سوال کیا تھا کہ اتنی عجلت کیوں؟ ظاہر ہے دس سال میں عوام کو مایوس کرنے والی سرکار یہ انتخابی مجبوری تھی۔ شنکراچاریہ سوامی سدانند سرسوتی نے گول مول سوال کرنے کے بجائے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ ہندو روایت کے مطابق ’پوس‘ کا مہینہ ایسے کام کیلئے ’اشبھ‘ (منحوس) مانا جاتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ رام نومی والے مہینہ میں یہ تقریب کی جاتی۔مگر حکومت اور اس کی حامی تنظیمیں جانتی ہیں کہ جلد ہی انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوجائے گا اور پھر یہ پروگرام ان کے لئے سود مند نہیں ہوگا،اس لئے اتنی عجلت میں تمام روایات اور اصول کو بالائے طاق رکھ کروہ تقریب منعقد کی گئی۔ شنکراچاریوں کے سخت رخ کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے گودی میڈیا نے مودی اور بھاگوت کی جانب ساری توجہ مرکوز کردی اور بچا کچھا وقت سونیا گاندھی کے شرکت سے انکار کی آڑ میں ان کو ہندووں کا مخالف اور رام کی اہانت کرنے والا ثابت کرنے میں صرف کردیا۔ اس موقع پر بی جے پی والے مہا بھارت کا یہ اشلوک بھول گئے کہ ’وہ سبھا نہیں جہاں بزرگ نہ ہوں، وہ بزرگ نہیں جو مذہب کی بات نہ کہے، وہ مذہب نہیں جس میں سچائی نہ ہو اور وہ سچائی نہیں جس میں فریب ہو۔‘ اتفاق سے یہ ساری باتیں بی جے پی کے خلاف چلی گئیں اور اتر پردیش کے لوگوں نے ان کا رام نام ستیہ ہے کردیا یعنی جنازہ نکال دیا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1284247 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.