سریلے راز/ شاعر صدیق رازؔ دیباچہ
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
سریلے راز/ شاعر صدیق رازؔ دیباچہ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سریلے راز‘ شعری مجموعہ ہے معروف شاعر جو اب وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں صدیق رازؔ صاحب کا۔ رازؔ صاحب سے ادبی و شعری نشستوں میں تسلسل سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ چند دن ہوئے حلقہ احباب ذوق (گلشن معمار) کی ادبی تقریب جو معروف شاعر امجد اسلام امجد او ر صداکار، اداکار،سوتی آہنگ کے ماہر ضیاء محی الدین کی رحلت کے حوالے سے تھی، دونوں ادبی شخصیات کو مقررین نے خراج عقیدت پیش کیا۔ رازؔ صاحب سے ملاقات تو لازمی تھی۔ اختتام ملاقات رازؔ صاحب نے سرگوشی والے انداز میں ایک کتاب کا مسودہ میری جانب بڑھایا، میں سمجھا کہ اپنا کوئی نیا شعری مجموعہ مجھے دے رہے ہیں۔ خوشی اور انبساط کے ساتھ وصول کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا تو فوری گویا ہوئے کہ ”آپ نے میرے اس شعری مجموعے پر بھی دیباچہ لکھنا ہے“۔ گویا یہ کتاب تو تھی لیکن طباعت سے قبل کالبادہ زیب تن کیے ہوئے، یعنی فوٹو کاپی ٹیپ بائنڈنگ میں۔راز ؔ صاحب کی خواہش سر آنکھوں پر، انکار ممکن نہیں تھا۔علمی اور تصنیفی مصروفیات کے باعث رازؔ صاحب کی کتاب پر دیباچہ لکھنا تو شروع کردیا لیکن مکمل نہ کرسکا۔ 18مارچ کو معروف ڈرامہ نگار شوکت صدیقی صدی سیمینارجس کا اہتمام ادارہ علم دوست نے فاران کلب میں کیا تھا جس کی صدارت مجھ ناچیز کو کرنا تھی یہاں راز صاحب سے ملاقات لازمی تھی، دیکھتے ہی یاد آگیا کہ رازؔ کی شاعری کے مجموعہ پر دیباچہ تاحال تکمیل کے مراحل میں ہے۔ معزرت کے ساتھ عرض کیا کہ راز صاحب ان شاء اللہ بہت جلد مکمل کر کے ای میل کردونگا۔ راز صاحب کی مجھ سے محبت ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے پر بھی مجھ سے پیش لفظ لکھوایا اور اب دوسرے مجموعے پر بھی دیباچہ کی فرمائش کی۔ محبت اور چاہت ملنے والوں، احترام اور عزت کرنے والوں کی خواہش کو کیسے رد کیا جاسکتا ہے۔محبت، دوسروں کے کام آنے والے اور پر خلوص لوگ ہی تو میری زندگی کا حاصل ہیں، بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؎ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے رازؔ صاحب اور دیگر کئی احباب جو مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ میں ان کی کاوش پر دیباچہ تحریر کرسکتاہوں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک انہیں دین و دنیا کی نعمت سے مالا مال کرے۔راز ؔ صاحب راجپوت ہیں اوروہ جے پوری ہیں،میں بھی راجپوت اور بیکانیری۔ ہم دونوں میں یہ بات بھی قدر مشترک ہے کہ ہم دونوں کا جنم قیام پاکستان کے بعد ہوا۔ راز صاحب حیدر آبا د سندھ کے علاقے پھلیلی میں اور مَیں نے پنجاب کے شہر میلسی میں جنم لیا۔ راز صاحب کی تعلیم حیدرآباد اور پھر کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں ہوئی، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ایم اے کیا پھر ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔ سرکاری ملازمت کے بعد اب وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی محفلوں میں بھی کالے کوٹ میں ہی دکھائی دیتے ہیں، مجلسی طبیعت پائی ہے مختلف علمی و ادبی تنظیموں سے وابسطہ ہیں۔ سریلے راز‘ کے ابتدائی صفحہ پر درج دو اشعار جن میں مجموعہ کا عنوان بھی شامل ہے۔ درج ذیل ہے ؎ پیام ِ طرب کو کیا جھول دو گے؟ مجھے تم کیا فقط اک ڈھول دو گے؟ مرے دل میں پوشیدہ ہیں سارے سُریلے راز کیا تم کھول دو گے؟ رازؔ صاحب غزل کے شاعر ہیں تاہم انہوں نے شاعری کی تمام ہی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ یہاں تک کہ طنز و مزاح بھی ان کی شاعری کا حصہ ہے۔ کہتے ہیں کہ غزل میں غمِ جانا، غمِ ذات اور غمِ دوراں جیسے موضوعات کا اظہار غزل کی بنیادی خوبی ہے۔ سریلے راز کے شاعر کی غزلوں میں ان تینوں کی خوشگوار خوشبو صاف محسوس ہوتی ہے۔ دل میں جو میرے ہیں، میں انہیں کیسے بتاؤں کہ ان کو مرے دل سے کوئی عاد نہیں ہے ایک اور شعر ؎ جنہوں نے دعوے کئے دوستی کے رازؔ مگر انہوں نے باتوں میں اپنا کمال رکھا ہے رازؔ صاحب نے شاعری کی دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی جیسے حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبولﷺ۔ طنز و مزاح کی شاعری کو نمکین اور زعفرانی غزلیں کہا ہے۔منظومات میں شخصیات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے جیسے بابائے اردو مولوی عبد الحق، اعجاز رحمانی، اکبر الہٰ آبادی، بہادر یار جنگ، دلیپ کمار۔ دیگر موضوعات میں شہر کراچی پر ایک نظم، سیاسی کارستانیاں شامل ہیں۔ دیس کے حالات پر نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ وطن پہ دور بہاراں اگر چہ طاری ہے مگر نہ جانے چمن پھول سے کیوں عاری ہے بابائے اردو مولوی عبد الحق کے حوالے سے نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ بڑی شان کے تھے وہ رہبر ہمارے جہاں ادب کے تھے روشن ستارے سیاسی کارستانیاں کے عنوان سے ایک نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ ہم نے سوچا تھا کہ حالات سدھر جائیں مگر ہم نے جب حال کو دیکھا تو وہ بد تر نکلا شہر کراچی کے حوالے سے ایک نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ ہم تو باسی ہیں کراچی کے ہمارا کیا ہے؟ اس کو اس حال میں پہنچایا تمہارا کیا ہے؟ اکبر الہٰ آبادی کی یاد میں ایک نظم کا ایک شعر دیکھئے ؎ ہم ذرا ان کے خیالوں کو اگر اپنا ئیں گے ہے یقین کہ رازؔ اس کا پھر ثمر پائیں گے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو خراج تحسین اپنی نظم میں پیش کیا اس کا ایک شعر دیکھئے ؎ جدوجہد یہ کس کی بڑی بے خطیر ہے جو محسن وطن ہے وہ عبد القدیر ہے زاز صاحب کی نمکین و زعفرانی غزلوں سے انتخاب: شادیاں دو چار ہم جو کر چلے یوں لگا کہ بن کے ہم ’جوکر‘ چلے دل جو لگا کے آئے کسی مہ جبیں سے ہم تو آسماں پہ اڑنے لگے تھے زمیں سے ہم اسے میک اپ میں کبھی دیکھا تو شرماتا ہوں پر صبح دیکھا اسے راز ؔ تو ڈر جاتا ہوں بجٹ کے حوالے سے ایک نمکین غزل کا شعر: ایسا بجٹ تو آتا رہا تھا ہر ایک سال سب کو پتہ ہے ان سے بنایا ہے کس نے مال نمکین غزل کا ایک شعر دیکھئے ؎ پر سکون تھاہاضمہ میرا ترے جانے کے بعد مجھ کو بدہضمی ستاتی ہے ترے آنے کے بعد صدیق رازؔ کے کلام میں سادگی ہے، خلوص ہے، صداقت کا عنصر نمایاں ہے۔ انہوں نے شاعری کے فنی رموز کو درست انداز سے استعمال کیا ہے۔ وہ اپنی تمام تر شعری صلاحیتیں شعر کو ظاہری حُسن و خوبی سے مزین کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ رازؔ صاحب کی شاعری اور ان کا اسلوب عام فہم اور سادہ ہے۔ در حقیقت راز سچائی کا شاعر ہے۔ ان کے اشعار میں رکھ رکھاؤ اور نظم و ضبط صاف ظاہر ہے۔ آخرمیں صدیق رازؔ صاحب کے لیے دعائیں۔ وہ اسی طرح شاعری کرتے رہیں اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف رہیں۔(20مارچ 2023 ء) ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پروفیسر ایمریٹس: منہاج یونیورسٹی، لاہور
|