میں اور ریڈیو پاکستان لمحہ بہ لمحہ

فی زمانہ جہاں لوگ پیسہ کمانے کی غرض سے بھی اپنا سرمایہ اور پیسہ لگا نے کا خطرہ مول نہیں لیتےصرف اس خیال سے کہ آیا اس کاریٹرنڈ ملے گا یا نہیں یا یہ کہ کہیں اس کاروبار میں نقصان نہ ھو جاۓ یعنی سو وسوسے اور خیالات ذہن میں آتے ہیں کہ کہیں سرمایا ڈوب نہ جاٸے۔۔۔۔اور یہ بھی اس صورت میں کہ جب اس میں کاروبار کی کامیابی اور منافع کے بھی امکانات موجود ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ دوسری طرف اس دور میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پیسہ اور سرمایہ وہاں لگاتے ہیں جہاں سے واپسی اور منافع کی بھی کوٸی امید نہیں ھوتی جس میں مالی اعتبار سے خسارہ ھی خسارہ ھوتاٍ ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں میری مراد حال ھی میں شاٸع ھو نے والی کتاب”میں اور ریڈیو پاکستان ۔۔۔لمحہ بہ لمحہ“ سے ھےجو کہ جناب محمد نسیم الدین خان صاحب کی دوسری کتاب ھے جو ایک ایسے وقت میں شاٸع ھوٸی ھے کہ جب لوگ کتاب پڑھنے اور اس کی خریداری سے بہت دور جا چکے ہیں اور پھر ایک ایسے موضوع پر لکھی گٸی کتاب کہ جس کا تعلق ریڈیوسے ہے اور ریڈیو کی لسنر شپ اور اس میں دلچسپی رکھنے والے بھی انٹرنیٹ کی اس موجودہ اور تیز ترین دنیا میں کہیں کھو کر رہ گٸے ہیں ۔۔۔

یعنی فی زمانہ محمد نسیم الدین خان صاحب کی اس کتاب کا مالی اعتبار سے ان کو کوٸی فاٸدہ ھونے والا تو قطعی نہیں ھے تاھم یہ ان کی خالصتاً اپنے پیشے اور کتاب سے محبت کاثبوت ہے کہ انہوں نےاس تمام ترمالی خسارے کے ادراک کے باوجود بھی کتاب کی اشاعت کا فیصلہ کیا اورگویا اپنا فرض نبھاتے اور اپنے حصے کی شمع جلاتے ھوٸے اور عملاً مادہ پرستی کے نظریٸے کی مخالفت میں کتاب کی اشاعت پر اپنے دل دماغ اور روح کی تسکین حاصل کی۔۔

محمدنسیم الدین خان صاحب کو ریڈیو پاکستان سے ریٹاٸر ہوۓ تقریباً چودہ سال ہو چکے ہیں۔

آپ اپنے وقت کے ریڈیو پاکستان کے معروف سینٸیر پروڈیوسر رھے ہیں اور یہ ریڈیو پاکستان کاوہ سنہری دور تھا کہ جس میں لفظ کی حرمت اور تقدس پر سمجھوتہ گناہ کبیرہ اور ناقابل معافی جرم تصور کیا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ اُس وقت ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن زبان و ادب کے حوالے سے ایک درسگاہ اور اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔۔۔اور اسکی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس دور کے ادب سے وابسطہ بڑے نام ریڈیو سے بلواسطہ یا بلا واسطہ منسلک تھے ۔۔۔

نسیم الدین خان صاحب کی یہ کتاب”میں اور ریڈیو پاکستان لمحہ بہ لمحہ“ انکی ریڈیو پاکستان سے جڑے انہی لمحات پر مشتمل ھے جو انھوں نے اپنے فراٸض کی اداٸیگی میں ریڈیو پر گزارے۔

کتاب پر ”اظہاریہ“ کے عنوان سے ڈاکٹر فریداللہ صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ” یوں تو ان کی بھر پور زندگی کےلمحات بنارس یو پی بھارت سے شروع ہوتے ہیں مگریہ ان کی زندگی کے ان لحات کی داستان ہے جو انہوں نےریڈیو پاکستان میں گزارےہیں یا پھر صاحبان علم ودانش, فن اور موسیقی کے ماہرین, ادیب و شاعر کی معرفت سامعین کی سماعتوں تک پہنچاۓ ہیں“۔

کتاب پرتبصرے میں ”نسیم الدین خان مثل تاج محل“ کے عنوان سے عظیم الدین ھاشمی ریٹاٸرڈانجینٸرنگ منیجر ریڈیو پاکستان لکھتے ہیں کہ” آدمی اپنے کام کی وجہ سے مثل تاج محل پہچانا جاتا ہے ورنہ مٹی کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نہیں۔ نسیم الدین خان صاحب واقعی تاج محل صفت ہے اور یہ خوبصورتی اور دلکشی انہیں ان کے روز و شب نےبخشی ہے جو وہ ریڈیو پاکستان میں گزار آۓ ہیں“۔

کتاب میں ”عرض ناشر“ کے عنوان سے ڈاکٹر صابر علی ہاشمی لکھتے ہیں کہ ”لمحہ بہ لمحہ“ نسیم الدین خان صاحب کی زندگی کے حوالے سے یادگار یادوں کے حوالے سے ایک خوبصورت دستاویز ہے۔ انہوں نے نصف صدی سے زاٸد عرصہ تک آواز کی دنیا پر راج کرنے والے ریڈیو پاکستان میں خدمات انجام دی ہیں۔اتنے طویل عرصہ تک خدمات کے سفر میں بے شمار واقعات بھی پیش آۓ جو انہوں نےنہایت سادگی اور ایمانداری سے بیان کیٸے ہیں”۔

نسیم الدین خان صاحب کا پہلے ڈھاکہ ریڈیو1967 اور بعدازاں 1975 سینٹرل پروڈکشن یونٹ راولپنڈی سے شروع ہونے والا ریڈیوکا یہ سفر 2010 کراچی اسٹیشن تک جاری رھا اس سفر میں آپ نے ہر قسم کے پروگرامز پروڈیوس کیٸے ان میں ادبی پروگرامز کا دورانیہ بہت زیادہ رھا جو آپ کی ادب دوستی اور ادب سے وابستگی کا بین ثبوت ھے . آپ نے اپنی سروس کے دوران ہر طرح کے چیلینجز کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس میں اپنی قابلیت کے جوھر دکھا کر آنے والوں کیلٸے مثال بھی قاٸم کی۔

آپ نے گجراتی زبان سے بلکل ناواقفیت کے باوجود گجراتی پروگرام بھی کامیابی سے پیش کیا, آپ نے بے شمار مشاعرے منعقد کیٸے ,ادب سے وابستہ شخصیات کے انٹرویو کیٸے اورکتب پر تبصرے پیش کیٸے, آپ نے مختلف قومی رہنماٶں کے ایام پر بھی یادگار اور بے مثال پروگرام منعقد کیٸے۔

آپ نے محرم الحرام اور ربیع الاٶل کی مناسبت سے جو مذہبی پروگرام منعقد کیٸے وہ مکمل مذہبی عقیدت اور جوش وجزبے سےمنعقد کیٸے اور اس بات کو ھر ممکن طریقے سے یقینی بنایا کہ مذہبی پروگرام میں کوٸی ایسی بات نہ چلی جاۓ کہ جس سے ادارے کے معیار اور نیک نامی پر کوٸی حرف آٸے۔
آپ کے پروگرامز میں ”بچوں کی دنیا ” , اور ”یہ بچہ کس کا ہے” جیسے پروگرام بھی اپنے دور کے یادگار پروگرام رھے ہیں۔

ریڈیو پاکستان سے ریٹاٸرمینٹ کے بعد آپ نے 2013 میں سندہ پولیس ایف ایم 88.6بحیثیت اسٹیشن منیجر جواٸن کیا اور 2019 تک اس سے وابسطہ رھے

۔ یہی وہ دور تھا کہ جب مجھ راقم ناچیز کی بھی نسیم الدین خان صاحب سے سند پولیس کے ایف ایم پر ملاقات ہوٸی اورانکی صحبت اور انکے براڈ کاسٹنگ کے تجربے سے اسفادہ کرنے کا موقع میسر آیا اور انکی نگرانی میں کامیاب ادبی پروگرامز کی میزبانی کے فراٸض بھی انجام دیٸے۔

میں نسیم صاحب کا اس اعتبار سے بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے ایک شعرکو اپنی کتاب کے پہلے صفحے پر جگہ دی۔۔
ھماری دوستی قاٸم رھی سچاٸی پر
منافقت سےسدا ھم نے انحراف کیا
انا کی بات کبھی درمیاں نہیں آٸی
اگر کیا تو اصولوں پہ اختلاف کیا

آخر میں محمدنسیم الدین خان صاحب کی صحت اور سلامتی کیلٸے ڈھیروں دعاٸیں اور کتاب کی آمد پر ڈھیروں مبارکباد۔۔۔