یوں تو ہمارے ارد گرد زندگی سے جڑے مساٸل، غم اور خوشی کے
بہت سے موضوعات اور معاملات بکھرے پڑے ہیں اور دعوت فکر و نظر دیتے ہیں
تاھم ان موضوعات کو دیکھنے اور شدت سے محسوس کرنے کیلٸے اس آنکھ اوراس حساس
طبیعت کی ضرورت ھے جو ان موضوعات اور ان کے کرداروں کو نہ صرف دیکھے محسوس
کرے بلکہ ان پر اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کیلٸے باقاعدہ قلم اور کاغذ
کا سہارہ لیتے ھوۓ انھیں عوامی عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے۔
میں آپ اور ھم سب بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور زندگی سے جڑے ان معاملات
اور مساٸل کے درمیان زندگی بسر کر رھے ہیں مگر ھم نے ان کو ,محسوس نہیں کیا
یا جان بوجھ کر اپنی کم ھمتی کے باعث ان موضوعات اور معاملات سے آنکھ چراٸی
اور ان پر لب کشاٸی نہیں کی۔
اور لب کشاٸی کرتے بھی کیسے کہ یہ کریڈٹ اور یہ عزت افزاٸی جن کے حصے میں
لکھی جاچکی تھی انھی کو ملنی تھی اور انھی کے سر یہ سہرا جانا تھا۔
جی ھاں میری مراد محترمہ فہمینہ ارشد صاحبہ کی کتاب ”سیان فہمیاں“ سے ھے جس
میں انھوں نے زندگی کے انھی معاملات کو مختلف عنوانات کے تحت زیر بحث لایا
ھے ان پر بات کی ھے اور فراز کے اس شعر کے مصداق کہ۔۔
”شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوٸی شمع جلاتے جاتے“
فہمینہ ارشد صاحبہ نے بلا خوف اپنے حصے کا کام غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح
کہ کر کر ڈالا ھے۔
فہمینہ صاحبہ نے اپنی کتاب میں ١١٤موضوعات پر بات کی ھے اور بات کرنے کا
انداز عام سادہ مگر دلچسپ ھے۔
کتاب پر ”باقی رھے نام اللہ کا“ کے عنوان سے معروف سینٸیر صحافی, مصنف,شاعر
اور تجزیہ نگار جناب محمود شام لکھتے ہیں کہ
”سیان فہمیاں اپنےسرورق سےلے کر ایک ایک ٹوٹے تک بہت تر و تازہ, شگفتگی میں
لپٹی سنجیدگی, بے ساختگی میں گھلی تدبر, نٹ کھٹ بزرگی کے ساتھ طلوع ہو رہی
ھے“ اسی مضمون کے آخر میں شام صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ” میں وثوق سے کہ
سکتا ھوں کہ فہمینہ ارشد کا مشاہداتی مشن کامیاب رھا ھے۔ یہ چند سطری
تحریریں اخباری اداریوں, کالموں اور ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز سے کہیں زیادہ
موثر اور نتیجہ خیز ہیں“۔
فہمینہ ارشد صاحبہ کی اس کتاب میں شامل ہر تحریر زندگی سے جڑی اہم اور
دلچسپ ہے, تحریر گفتگو کے عام فہم انداز میں ھے جس سے قاری کو مصنفہ سے
اپناٸیت, اپنا پن, اور خلوص کا احساس ملتا ہے اور یوں مصنفہ کی ہر بات دل
پر اثر کرتی ہے۔
گفتگو میں بے تکلفی اور موضوعات کی دلچسپی کا اندازہ ان الفاظ سے بھی لگایا
جا سکتا ہے کہ جو اکثر موضوعات اور عنوانات پرگفتگو کے آخر میں استعمال
ہوٸے ہیں مثلاً۔۔۔ ”رہے نام اللہ کا, قسم سے, میں تو بولوں گی, قسم لے لو
یا قسمے وغیرہ جیسے دیگر الفاظ اور دلچسپ جملے۔
کتاب کے جملہ موضوعات مختصر اور دلچسپ ہونے کی بنا پر قاری کو اکتاہٹ کا
شکار نہیں ہونے دیتے۔
کتاب میں محمود شام صاحب کےشامل مضمون”باقی رھے نام اللہ کا“ کے علاوہ
معروف افسانہ نگار و مدرس ڈاکٹر ارشد حسین رضوی , ممتاز صحافی اور افسانہ
نگار جناب زیب اذکار حسین ,معروف مصنفہ و مدرس, محترمہ پرفیسر ڈاکٹر جہاں
آراء لطفی, ترجمہ نگار ,ادیب,نقاد جناب سلیم صدیقی اور دیگر نامور لکھاریوں
کے مضامین بھی شامل ہیں۔
فہمینہ ارشد صاحبہ کی بے دھڑک,کراری, اور مرچیلی تحریروں کے مجموعے ”سیان
فہمیاں“ کی آمدپر انھیں ڈھیروں داد اور مبارکباد۔۔۔
|