تذکرہ مشاہیر چودہوان

تبصرہ کتب، مولانا محمد جہان یعقوب

ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے تقریباً 48 میل کے فاصلے پر جنوب مغربی سمت میں کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ایک ہزار برس قدیم قصبہ چودہوان ایک مبارک، تاریخی اور مردم خیز سرزمین ہے۔ اس بے آب و گیاہ خطے نے کئی ممتاز علماءو مشاہیر کو جنم دیا ہے، جن میں حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ کے تلمیذ مولانا اللہ دادؒ، مولانا فتح محمد ؒ، مولانا محمد افضل ؒ، مولانا مفتی عطا محمدؒ، مولانا امیر محمد ؒ، مولانا عبدالحق فاضل دیوبند، مولانا عبدالعزیز ؒ، مولانا عبدالمنان ؒ، مولانا قطب الدین ؒ، مولانا عبدالحلیم ؒ فاضل دیوبند، مولانا عبدالحمید ارشدؒ سمیت دور حاضر کے جید ادیب و خطیب اور مصنف و مولف حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب دامت برکاتہم بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد ضلع نوشہرہ سے شائع ہونے والی اس کتاب میں، جو تقریباً 200 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، القاسم اکیڈمی کے رکن رکین مولانا عماد الدین محمود نے اس مردم خیز خطے کی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ دراصل مولانا کے ان مضامین کا انتخاب ہے، جو ماہنامہ القاسم میں شائع ہوئے اور قارئین سے داد تحسین و تبریک وصول کرنے کے بعد اب منصہ شہود پر آئے ہیں۔ جب ان مضامین کو کتابی شکل دینے کی بات ہوئی تو مولانا نے نہ صرف ان مضامین کو نظرثانی اور تہذیب و اختصار کے مرحلے سے گزارا بلکہ مزید مفید مضامین بھی تحریر کر دیے تاکہ حقیقی معنوں میں یہ کتاب علاقہ چودہوان کی ایک مرتب تاریخ بن جائے۔

گاﺅں دیہات کا یہ المیہ ہے کہ وہاں علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا اگر کوئی کوہ ہمالیہ بھی ایستادہ ہو تو ظاہر بینوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے، جس کے من جملہ اسباب میں اسباب و وسائل تشہیر کی کم یابی کے ساتھ ساتھ ان حضرت کی ذاتی طبائع کا بھی بڑا دخل ہے کہ یہ حضرات ذاتی تشہیر و تعارف سے دور ایک گوشے میں رہ کر علمی خدمات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے فوائد اپنی جگہ، تاہم اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان حضرات کے علوم و معارف اور فیوض و برکات سے استفادہ کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں، پھر ان میں سے وہ لوگ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتے جو حقیقی معنوں میں ان حضرات کے علوم و معارف اور فیوض و برکات کے اہل وارث ثابت ہو سکیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کے ساتھ ساتھ ان کے جواہر بھی پیوند خاک ہو جاتے ہیں جوکہ قحط الرجال کے اس دور میں انتہائی خطرناک امر ہے۔

مولانا عمادالدین محمود نے ایسے ہی رجال اللہ کا تعارف کرایا اور ان کے فیوض کو اپنی ذاتی دلچسپی سے صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیا ہے جو اگرچہ تاثراتی، روایاتی اور حکایتی ہی ہیں، مگر اپنے اندر قاری کیلئے بہت کچھ رکھتے ہیں کیونکہ یہ اہل اللہ کی صحبت کے قائم مقام ہیں، جس کا مقصد حضرت حقانی یوں بیان کرتے ہیں:”لوگوں کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق قائم ہو، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا شعور بیدار ہو۔ سیرت رسول، اسوہ صحابہ اور کردار سلف رونما ہو، رزق حلال کی طلب ہو، آخرت کی محبت غالب ہو، بزرگوں کے حالات و واقعات آج بھی دلوں پر تیر و نشتر کا کام کرتے ہیں۔ درد و محبت، جذب و مستی کے ساتھ عشق اور احترام انسانیت کا جیسا نمونہ ان کی زندگی میں ملتا ہے، وہ اگر آج نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ اس بنا پر امید کی جاتی ہے کہ ان شاءاللہ اس کتاب اور بزرگوں کے حالات و واقعات سے استفادہ کا دائرہ بہت وسیع ہوگا۔“

”جذبات دل“ کا اظہار کرتے ہوئے عماد الدین محمود صاحب کے دوست محمد شفیق عالم کشمیری نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے:”میرے انتہائی قابل اعتماد دوست مولانا عمادالدین محمود کا شمار ان مخصوص اہل علم میں ہوتا ہے جنہیں اللہ رب العزت نے دینی و عصری علوم کے ساتھ ساتھ تقریر و تحریر کا ملکہ بھی عطا کیا ہے۔“ (صفحہ 15)

”مولانا موصوف کی تحریری کاوشوں اور قلمی زندگی کا سلسلہ مضمون نگاری سے شاید زمانہ طالب علمی اور پھر دوران سرکاری ملازمت (محکمہ تعلیم) جاری رہا لیکن اس علمی و قلمی زندگی پر جوانی کی پھبن اس عظیم علمی و ادبی شخصیت سے تعلق و نسبت قائم ہونے کے بعد آئی، جنہیں اہل دانش، ارباب بصیرت و شائقین علم علامہ عبدالقیوم حقانی کے نام سے جانتے ہیں۔“ (صفحہ 16)

”عرض مولف“ میں فاضل مولف رقم طراز ہیں: ”ماضی قریب میں چودہوان کے عظیم المرتبت باشندوں نے ان گنت دینی تحریکوں بالخصوص جہاد افغانستان میں نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں، مگر افسوس یہ ہے کہ ان کی پشت پر ایسے ارباب قلم موجود نہیں تھے جو ان کی قلمی تصویر اتار کر ان کے کارناموں کو زندہ جاوید بنا دیتے۔ مجھ گناہ گار کو جہاں سے اور جس سے بھی اپنے کسی بزرگ، مجاہد، عالم، حافظ، شہید اور ادیب و خطیب کے بارے میں کوئی لکھا اور سنا ہوا حرف ملا تو میں نے اسے آب حیات کے برابر جان کر حرز جاں بنا لیا اور محفوظ کر لیا۔“ (صفحہ 21)

مزید لکھتے ہیں: ”میں نے فرضی کرامات کی داستانیں اور محیر العقول واقعات کی داستانیں نہیں چھیڑیں بلکہ اپنے مشاہیر کی دینی اور ملی خدمات کا نقشہ پیش کیا ہے۔“ (صفحہ 21,22)

ابتدائے کتاب میں ”چودہوان“ کا تعارف ہے، جس میں تمام متعلقہ مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے، جن میں وجہ تسمیہ، محل وقوع، تاریخی حیثیت، اہم اقوام، نظام آب پاشی، نظام معیشت، رسم و رواج کا تذکرہ وغیرہ شامل ہےں۔ مولانا عماد الدین صاحب نے مورخانہ ضرورت و دیانت کے تحت قصبے کی غیر شرعی رسوم کا تذکرہ بھی کیا ہے مگر ساتھ ہی ان کی وضاحت بھی کر دی ہے تاکہ قاری ان رسوم کے تذکرے کو ”سند جواز“ نہ سمجھ بیٹھے۔ اس کتاب میں جن مشاہیر کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں: حضرت میاں محمد قاسمؒ، حضرت شاہ عبداللہ ؒ، ملا محمد عیسیٰ ؒ، خواجہ غلام محمد ؒ، (م 1291ھ)، مولانا فتح محمد ؒ (م 1872ھ)، مولوی عبدالغفار اخوندزادہ ؒ، میاں غلام محمد ؒ، غلام نبی بابڑ، پائندہ خان بابڑ، احمد سعید اخوندزادہ، جہان خان بابڑ، مفتی عطا محمد ؒ(م 1991ئ)، مولانا عبدالحق ؒ (م 2000ئ)، مولانا عبدالحمید ارشد ؒ (م 1980ئ)، مولانا عبدالحلیم ؒ (م 1983ئ)، مولانا محمد امیر ؒ (م1985ئ)، مولانا اللہ داد ؒ (م 1968ئ)، مولانا عبدالعزیز، مولانا عبدالمنان، مولانا قطب الدین، مولانا یار محمد، قاری راز محمد اور مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب مدظلہم العالیہ۔

فاضل مولف کا طرز تحریر آسان، دلچسپ اور سادہ ہے۔ روایتی مورخوں کی طرح محض ترجمانی کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ ان کی واقعہ نگاری میں ان کی عالمانہ شان بھی نمایاں ہے اور عقیدت کا پہلو بھی۔ مورخ کیلئے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کس شخصیت کو کتنا مقام اور جگہ دی جائے؟ مولانا نے اس مسئلے کو بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا ہے۔ مولانا عبدالقیوم حقانی مدظلہ اس ”بارات کے دولہا“ ہیں۔ مولف کو اعتراف ہے کہ انہیں قلم پکڑنا حضرت حقانی صاحب نے سیکھایا ہے، لکھتے ہیں:”میں سمجھتا ہوں مولانا حقانی نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا (درست ”سکھایا“ہے۔ اس طرح کی لفظی غلطیاں جا بجا نظر آتی ہیں)۔ میں انہیں اپنا شفیق استاد اور بہترین دوست سمجھتا ہوں۔ یہ مولانا حقانی ہی کی رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ مجھ جیسے بد ذوق نے بھی چھ کتابیں لکھ ماریں جو الحمدللہ نہ صرف شائع ہوئی ہیں بلکہ ان کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ فالحمد اللہ علی ذالک۔۔۔“ ان کتابوں کے نام صفحہ 200 پر مرقوم ہیں، تاکہ ارباب ذوق استفادہ کریں۔

القاسم اکیڈمی سے کافی عرصے بعد اس قسم کی تحقیقی کتاب آئی ہے، ورنہ آج کل زیادہ زور منتخبات، رسائل اور سوانح وغیرہ کی اشاعت پر ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھی کوشش ہے اور اس قابل بھی کہ ہر اہل ذوق کے ذخیرہ کتب میں شامل کی جا سکے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 280766 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More