"من کی دنیا"
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ صاحب کی نئی کتاب
|
|
|
"من کی دنیا" |
|
تحفہ عید صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ صاحب کی نئی کتاب "من کی دنیا"
کہتے ہیں "جو ظاہر کی آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے اُسے باطن کی آنکھ کا تجربہ ہی نہیں ہوتا۔"درحقیقت وہ ساون کا اندھاہوتا ہے جو دنیا کی ہوس میں اندھا ہو کر من کی دنیا اور باطن کی آنکھ سے محروم ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے لکھا"من کی دنیا ایک غیر مرئی دنیا ہے جسے نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ انسانی عقل سمجھ سکتی ہے۔ "
بقول ڈاکٹر صفدر محمود"من کی دنیا ذکرالٰہی کے سوز و مستی سے پروان چڑھتی اور جذب و شوق میں ڈوب جاتی ہے جبکہ تن کی دنیا محض سود و سودا، نفع و نقصان، فریب، جھوٹ اور مکر اور فن ہے جس میں ایک سے ایک بڑا فن کار، مطلب پرست اور خود غرض موجود ہے۔ تن کی دنیا ڈھلتی چھاؤں ہے،آنی جانی ہے، کبھی آپ کو بلندی پربٹھاتی تو کبھی پستیوں میں خوار کرتی ہے اور پھر ایک دن قانون قدرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتی ہے جبکہ من کی دنیا، اگر ایک بار پیداکرلی جائے، اس کا سراغ لگا لیا جائے تو پھر یہ کبھی نہیں مرتی اور طبعی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔اسی لیے اقبالؒ کہتا ہے کہ من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن
من کی دنیا کی دولت ابدی شے ہے جبکہ تن کی دنیا کی دولت چھاؤں کی مانندہے جو وقت کے سورج کے ساتھ ساتھ اپنی سمت بدلتی رہتی ہے، گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور شام ہوتے ہی تاریکی میں گم ہو جاتی ہے جبکہ من کی دنیا ایک ایسی وسیع و عریض کائنات ہے جہاں رنگ برنگ جلوے اور نور کی روشنی ہمہ وقت اس دنیا کو روشن رکھتی ہے اورجب انسان اس کے اندر جھانکتا ہے تو وہ سوز و مستی اور جذب و شوق میں اس قدر جذب ہو جاتا ہے کہ اسے دنیا و مافیہا کی خبر نہیں رہتی، وہ دنیا کے شور اور واپڈا کی لوڈشیڈنگ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ میرا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ من کی دنیا جمشید کے جام جم کی مانند ہوتی ہے اور من کے اس پیالے یا شیشے میں نہ ہی صرف کائنات کے راز کھلتے ہیں بلکہ اس میں دنیا بھی بے نقاب ہوکر سامنے آ جاتی ہے اور آپ جس طرف دھیان دیتے ہیں چیزیں ، انسان اور فطرت اپنی اصل حالت اور اصل رنگ میں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اگر آپ اپنی محنت یا کسی صاحب ِ نظر کی نظر کے طفیل من میں ڈوب کر سراغ زندگی پالیں تو تن کی دنیا کی تمام تر غربت اور بے سرو سامانی کے باوجود انسان دنیا کا امیرترین انسان بن جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فطرت اورقدرت کا رازداں مرشدی علامہ اقبال من کی دنیا میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے پر زور دیتاہے اور یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو کائنات، فطرت اور قدرت کے راز سمجھتا ہو، یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں اورہاں۔ ان رازوں کو سمجھنے اور ان کی گھتیا ں سلجھانے کے لئے روشن ذہن، پرنور قلب اور روحانی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ صلاحیت قرآن مجید کے گہرے مطالعے، گہرے غور و خوض اور اللہ کے فضل و کرم اور عام طورپر کسی صاحب ِ نگاہ کی دعا یا نگاہ سے پیدا ہوتی ہے۔"
زیر نظر جناب صاحبزادہ محمد اشرف عاصمی ایڈوکیت کی نئی کتاب"من کی دنیا"بھی 'اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی'پانے کی کوشش کا نام ہے۔ جس میں آپ نے اپنی زندگی میں صوفیانہ افکار وخیالات اور روحانی تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے۔آپ لکھتے ہیں"من آشانی خدا آشنائی کا دوسرا نام ہے۔ اس کے لیے خدا کے راستوں کی تلاش کرنا ہوگی اور ان راستوں کے راز دانوں سے رابطہ استورا کرنا ہوگا۔اورخدا کے راستوں کے راز دان وہ ٹوٹے ہوئے من ہیں جن کے بارے میں خدا نے خود فرمایا ہے کہ میں ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہوں۔"آپ کو ان کی قربت تلاش کرنا ہوگی ،خدمت کے ساتھ تواضع و مہمان نوازی اور دلجوئی کرنا ہوگی کیونکہ یہی وہ عمل جس سے من کی نگری کو شہر امان کا درجہ مل سکتا ہے۔
ایک سو ساٹھ صفحات پر یہ مختصر سی کتاب "سوچ کا آئینہ"،"فراق و ہجر کی حقیقت"،"زندگی بے یقین موت پُر یقین"،"خالق عطا ہی عطا"، "حضرت واصف علی واصف کی فکری اساس"،"عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر"،"طالب کے من کی چاہت کی تڑپ"،"تدبیر تقدیر خالق کی رضا"، "روح جسم اور زندگی"،"ربّ ہی تو ربّ ہے"،"نبی پاک ﷺ سے عقیدت کے تقاضے"،"من کی اجڑی بستی"،"من کی راحت"،"مومن کی موت اور اس کی روح کا سفر"،"میاں جی کا ڈیرہ"،"معاشرے میں منافقت کی بہتات"،"معاشرے کے ناسور"،"فکر حسینی کے پیکر"،"خالق اور بندے کے تعلق کی بنیاد خیرالبشر ﷺ"،"خود آگاہی"،"عشق رسول ہی ہمارا ایمان"،"بندہ خاکی کی فطرت"،"عظمت رسول ﷺ"،"درد کی دولت فقر کی بادشاہت"،"احساس عبدیت"،"حضرت بابا ولایت شاہ قادری نوشاہی"اور حضرت میاں وڈا صاحب خواجہ فخرالدین فخر جہاں دہلوی" وغیرہ جیسے وقیع عنوانات کو محیط ہے۔
صاحبزاد ہ صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں آپ نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایل ایل بی اور ایل ایل بی کریمنالوجی کی ڈکری حاصل کی ہے۔اسلامک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ہولڈر ہیں اوربزنس ایڈمنسٹریشن ایجوکیشن میں ماسٹر ہیں۔گزشتہ تین دہائیوں سے قانون و تدریس اور شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں۔تعلیمی زندگی میں طلبہ میں عشق رسول ﷺ کی سرخیل طلبہ تنظیم "انجمن طلبہ اسلام" سے وابستگی رہی ۔عظیم صوفی بزرگ حضرت میاں محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ (میاں وڈا صاحب) لاہوری کے خانوادے سے تعلق ہے اور سلسلہ قادریہ نوشاہیہ میں حکیم میاں محمد عنایت خان قادری نوشاہی سرگودھا کے خلیفہ مجاز ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات میں سیاسی سماجی اور قانونی موضوعات پر کالم لکھتے رہتے ہیں۔آپ ہیومن رائٹس کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے چئیرمین اور تاجدار ختم نبوت کمیٹی اور تحفظ ناموس رسالت ﷺ کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بانی چئیرمین ہیں۔
"من کی دنیا " کا مقصد قصیدہ خوانی نہیں بلکہ یہ سمجھانا ہے کہ قوت کے دو ماخذ کائنات اور دل ہیں۔ کائنات کی تسخیر علم سے ہوتی ہے اور دل کا نظام عبادت و تقویٰ سے چلتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو ان دونوں طاقتوں کا مالک ہے۔ روح کی قوت بقا کی ضامن ہے اگر یہ ختم ہو جائے تو پھر صرف مادی طاقت، خواہ وہ کتنی ہی مہیب کیوں نہ ہو، نہیں بچا سکتی۔
کیونکہ من کی دنیا ذکرالٰہی کے سوز و مستی سے پروان چڑھتی اور جذب و شوق میں ڈوب جاتی ہے جبکہ تن کی دنیا محض سود و سودا، نفع و نقصان، فریب، جھوٹ اور مکر اور فن ہے جس میں ایک سے ایک بڑا فن کار، مطلب پرست اور خود غرض موجود ہے۔ تن کی دنیا ڈھلتی چھاؤں ہے،آنی جانی ہے،اور ایک دن قانون قدرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مٹی کے ساتھ مٹی ہو جانی ہے جبکہ من کی دنیا، اگر ایک بار پیداکرلی جائے، اس کا سراغ لگا لیا جائے تو پھر یہ کبھی نہیں مرتی اور طبعی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ بقول اقبالؒ من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ کی کتاب"من کی دنیا"آپ کو کامیابی کی اُس شاہراہ پر لے جانے کی کوشش ہے جس میں فلاح اخروی اوربقائے دائمی کا راز مضمر ہے ۔صاحبزادہ صاحب اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ٹھہرے یہ فیصلہ ایک صاحب مطالعہ ہی کرسکے گا۔خیال رہے کہ "من کی دنیا " کے ناشر پاکستان کے معروف اشاعتی ادارہ قلم ٖفاؤنڈیشن لاہور ہے ۔جس نے اعلیٰ پیپر اور خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ اس کتاب کو شائع کیا ہے۔آخیر میں ہم جناب صاحبزادہ صاحب کی جانب سے عید کے موقع پر اس خوبصورت تحفہ دل سے شکرگزار ہیں۔
|