دُنیا مقام گذران ہے‘ ہر شخص یہاں رواں دواں ہے۔بجز ذاتِ
پروردگار یہاں کے لیل و نہار کو ایک ڈھنگ پر دم بھر ثبات و قرار نہیں۔ یہاں
کی ہر شے سے پیدا ہے کہ پائیدار نہیں۔ خدا نے ساز و سامانِ سلطنت‘ اسبابِ
شوکت و حشمت سب کچھ عطاء کیا مگراسے بطورِ آزمائش رکھا۔
انسان اشرف المخلوقات ہے‘ اسے وقت عنایت کیا تو اس کی قدر کی تاکید بھی کی
گئی۔ سوال تو یہ ہونا ہے کہ زیست کو عمر بن کر خدمت خلق کی‘یا فرعون بن کر
ظلم ڈھائے۔ جن افراد کو قلم کی ذمہ داری عطاء کی جاتی ہے ان پر بھاری ذمہ
داری عائد ہوتی ہے۔ قلم و کتاب کوئی معمولی بات نہیں۔ قلم کی قسم رَب پاک
نے کھائی۔ جس کی قسم ربِ قدوس نے کھائی اس کی حرمت ہمارے لئے اشد ضروری ہے۔
کتابیں رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ جنہوں نے وقت‘دولت‘وسائل کو اﷲ تعالیٰ
کی مخلوق کے لئے وقف کیا وہ کبھی مرتے نہیں۔
شہیر الاسمی‘ثروت و جاہ‘ کمان و تقدم‘مسانید و مناصب‘ عہدہ و اختیار‘مال و
دولت کے ہوتے ہوئے پھر بھی منکسر المزاج‘قلب ِ پسیج اور طبیعت میں قناعت ہو
تو ایسا شخص ماحول‘معاشرے‘خاندان اور گھرانے میں کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔
وادی کشمیر کے معروف شاعر جاوید الحسن جاوید‘ جو متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ وہ
اس وقت سیکرٹری سیرا کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ کئی اعلیٰ
عہدؤں پر اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ ان کی جملہ کتب قابل ِ ذکر ہیں۔
مگر جس کتاب کا ذکر کیا جانا اس وقت مطلوب ہے وہ ’مہجورِ مدنیہ ‘ مجموعہِ
نعت ہے جو کہ راقم الحروف کو انہوں کو ہدیہ کی‘اس نعتیہ مجموعہ کو پڑھنے سے
حقیقت میں عشق ِرسول ﷺ دل میں موجزن ہوتا ہے۔ انہوں نے کمال کے اشعار لکھے
ہیں۔ جو ان کی محبت رسول ﷺ کی دلیل ہیں:
سرکارﷺ کے خادم سے نسب پوچھتے کیا ہو
میں نعت کا شاعر ہوں حسب پوچھتے کیا ہو
ہر آہ میں ٹھنڈک ہے، ہر اک اشک ہے موتی
جاوید کے اشکوں کا سبب پوچھتے کیا ہو
دِ ن رات دُرود اور دُرود اور دُرود اور
بس ایک طریقہ ہے، یہ ڈھب پوچھتے کیا ہو
گر پوچھ سکے کوئی تو جبریل ؑ سے پوچھے
سدرہ سے کہاں حدِ اَدب پوچھتے کیا ہو
ہو لب پہ دُرود اور سلام آئے قضا جب
کیا دِل کی تمنا ہے، طلب پوچھتے کیا ہو۔
ان کی اس شہرہ آفاق کتاب میں سے ایک نعت قارہین کی خدمت میں پیش کی ہے۔
دراصل ہم ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں سب کچھ دولت‘ منصب سمجھے جاتے ہیں۔
کتابیں‘علمی کاوش ایک بیکار کی مشق سمجھ جاتی ہے۔ ایک کتاب کی اہمیت کیا ہے
وہ اہل ِ علم ہی جانتے ہیں۔ لیکن جو معاشرہ کتاب کے بجائے کار کوٹھی کو
اپنی کامیابی قرار دے اس کی کامیابی کا معیار درست نہیں مانا جاسکتا۔
جاوید الحسن جاوید نے وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ جو یقیناایک اُمتی کے لئے
لئے باعث ِ اعزاز ہے۔ ہماری ساری عزتیں‘ کامیابیاں اسی راستے سے ملتی ہیں۔
ہماری رسوائی بھی ا ن سے دوری ہے۔ ڈاکٹر اقبالؒ نے بڑے ہی موثر انداز میں
بیان کرتے ہوئے قوم میں جان پھونکنے کی کوشش کی۔ ایک رات ڈاکٹر علامہ اقبالؒ
اُمت کے اسی درد کے ساتھ آہ و زاری کر رہے تھے اور اﷲ عزوجل سے حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کی اُمت کے اس درد کو بیان کرتے ہوئے دعا گو تھے کہ انھیں ندا
آئی ’’تو جانتا نہیں ان کے پاس دل تو ہے مگر اس میں بسنے والا کوئی محبوب
نہیں‘‘۔اسے اقبال نے یوں کہا:شبے پیش خدا بگر یستم زار‘مسلماناں چرا زارند
و خوارند‘ندا آمد نمی دانی کہ این قوم‘دلے دارند و محبوبے ندارند۔یہ اُمت
مسلماں اس لیے حالات سے دوچار ہیں کہ یہ قوم مسلم کے افراد ان کے دلوں کو
اپنے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی یاد سے آباد نہیں کرتے۔
کتاب مہجورِ مدنیہ یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ بظاہر ’اسلام ‘ جیسے
عظیم دین اور رحمت العالمین سے محبت کے زبانی دعوے‘ اور ہمارا عمل اس کے
برعکس ہو گا‘ تو میدان ِ محشر رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ملنے والا۔ہم
وقت‘توانائی اور وسائل کو استعمال کرکے ان کا صلہ‘ بدلہ لینے کے خواہاں
ہیں۔ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم جو کر رہ یہیں اس کا کوئی نہ کوئی معاوضہ ہو۔
ہماری سار ی زیست معاوضہ لیتے گزرتی ہے ہمیں ہمیشہ اس بات کی فکر ہوتی ہے
کہ کہیں ہمار ا وقت ضائع نہ ہوجائے، کہیں ہماری توانائی ضائع نہ ہو جائے
اور کہیں ہمارے وسائل ضائع نہ ہو جائیں جب معاوضہ نہیں ملتا تو ہمیں لگتا
ہے کہ یہ سب چیزیں ضائع چلی گئیں ہیں لیکن جب معاوضہ مل جاتا ہے ہم سمجھتے
ہیں کہ ہماری محنت رنگ لے آئی ہے۔
جب کہ جاوید الحسن جاوید جیسے مصنفین کے سامنے وہ عظیم مقاصد ہیں جو کم ہی
لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ یہ بات جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ وہ لوگ جو بغیر
معاوضے کے کسی کے لیے کام کر رہے ہوتیہیں ان کی قوت مدافعت کا نظام عام
انسان سے تین گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ خدمت کا مطلب ہے قربانی اور قربانی
کا مطلب ہے کہ بندہ جس کی خدمت کرتا ہے لازم نہیں ہے اس کی عقل اور سمجھ
کامعیار اس کے برابر ہو وہ کم بھی ہو سکتا ہے۔
حدیث کا مفہو م ہے کہ’’عقل کی زکوۃ یہ ہے کہ بندہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا
سلوک کرے جن کے پاس عقل نہیں ہے ‘‘۔ہمیں جو عقل و فہم ملا ہے ہمیں چاہیے کہ
اس کی زکوۃ ادا کریں۔ جو لوگ بے لوث خدمت کرتے ہیں انہیں اس کا دُنیا میں
بھی صلہ ملے گا اور آخرت میں بھی‘ دُنیا میں اس کے بڑے ایسے کام ہوتے ہیں
جو بغیر کسی کوشش کے ہو جاتے ہیں۔
کتاب‘ ایک بہترین ورثہ ‘ لیکن کتاب میں اشعار بھی جاوید الحسن جاوید کی طرح
ہونے چاہیے‘ کیونکہ میدانِ محشر بھی حکم ہو گا کہ جو لکھا پڑھ کرسنایا جائے‘
اس وقت یہی کلام باعث ِ نجات ہو‘ نہ کہ ذریعہ ہلاکت۔
|