گھٹن تو واقعی بہت ہے ‘‘ انداز
بانو نے ایک رکی رکی سی سانس لیتے ہوئے زیر لب کہا جِسے مہر النسا ء نے سن
لیا۔
’’یہ لو اِس نمبر پر کال کرکے اپنی اُلجھنیں ڈسکس کرنا فائدہ ہوگا‘‘ شام کو
چُھٹی کے وقت مہر النساء نے خاموشی سے اس کو ایک پرچی تھمائی۔’’خیر حسین ‘‘
اس نے نام پڑھا ۔’’ہاں خیر حسین ! بہت اچھا انسان۔۔۔۔ بہت سوئیٹ ۔۔۔۔بہت
نائس۔۔۔دنیا دیکھی ہے اس نے ، بجلی کے محکمہ میں کام کرتا ہے اور زندگیاں
بھی روشن کرتا ہے‘‘۔ مہرالنساء نے خیرحسین کا تعارف اُسے دیا جو سوالیہ اور
الجھی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’میں کیوں ایرے غیرے سے کچھ ڈسکس کروں گی۔اور پھر میرے ساتھ کچھ ہے بھی
نہیں ڈسکس کرنے کے لئے ‘‘ مہر النساء نے ہلکا سا ہاتھ اس کے کندھے پر مارا
اور بِنا مزید کچھ کہے مسکراتی آگے بڑھ گئی۔
اِس کے بعد سے انداز بانوکے سیل نمبر پر خیر حسین کے نمبر سے ایس ایم ایس
آنے شروع ہوگئے،لگتا تھا مہر نے اس کا نمبر بھی خیر حسین کو دیا تھا۔ایس
ایم ایس کیا تھے؟ امید دِلاتے اور زندگی پر بھروسہ سکھاتے الفاظ، جیسے کوئی
بہت ہی شفیق سی ہستی اپنی نرم باتوں کا پھایہ رکھتی کسی کمزور اور دل شکستہ
کو توانا اور خوش و خرم بنانا چاہتی ہو۔آخر میں وہ اپنا نام ’’خیر حسین ‘‘
لکھنا کبھی نہیں بھولتا۔انداز بانو تو جیسے اِن الفاظ کی اسیر ہوتی چلی
گئی۔اُڑے اُڑے زندگی کے رنگوں میں کالی کالی سی نادر کی تصویر جیسے کہیں
تحلیل ہوگئی تھی۔ پھر خیر حسین کی کالز آنی شروع ہوگئیں۔ ناپسندیدگی کا
تاثر اُس پر چھانے لگا تو اُس نے مہرالنساء کو شکایتی لہجے میں بتایا ’’
مہر اُس کو کہو مجھے کالز نہ کیا کرے۔مجھے اس طرح باتیں کرنا پسند نہیں ‘‘۔
اوہ ! اوہ! ’’وہ تمہیں کالز بھی کرنے لگا ہے‘‘ مہر النساء نے رشک بھری آواز
میں کہا ’’ وہ تو کسی کسی کو کال کرتا ہے ، لوگ ہی اسے کال کرتے ہیں ،لگتا
ہے تمہارے ایس ایم ایس کے ذریعے جوابات اس کو بہت ہی متاثر کرگئے ہیں‘‘
انداز بانو اِس بات پر اُس کی شکل دیکھ کر رہ گئی۔’’مگر میں بات کیوں کروں
آخر ؟‘‘
’’کرلو گی تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ آواز ہی تو ہے صرف ‘‘ اِصرار بھرے انداز
میں کہتے ہوئے اس نے پُرسوچ نظروں سے دیکھا اور اپنے کام میں لگ گئی۔ خیر
حسین کی کالز آتی رہیں اور وہ انہیں سرخ بٹن دباکر منقطع کردیتی۔ہر روز کئی
مرتبہ ایس ایم ایس بھی بدستور آرہے تھے۔جگنو بھرے راستے دکھاتے ہوئے۔ہاتھ
بڑھا کر مدد کرتے ہوئے ،کال ریسیو نہ کرنے پر کوئی شکوہ نہیں،کوئی ناراضگی
نہیں ۔
کب تک ایسے چلتا،سارے بند ایک دن جیسے ٹوٹ سے گئے اور اُس نے خیر حسین کی
پہلی کال ریسیو کرلی،وہ ایسا قدم تھا جیسے وہ چکنے پتھروں پر چلنا چاہ رہی
ہو۔فوری طور پر تو ایسا لگا تھا کہ وہ منہ کے بل گرجائے گی،مگر اترا چڑھاؤ
کے ساتھ بات کرنے پر قادر اُس شخص کی باتیں جیسے ٹھنڈا میٹھا جھرنا بن کر
اُس کو بھگونے لگیں،اُسے لگا برسوں سے جمع شدہ کثافتیں دھل رہی ہوں۔’’شائد
تمہیں بنایا گیا ہے کسی خاص کے لئے‘‘ وہ سن رہی تھی ،وہ کہہ رہاتھا۔
خیر حسین کی کالز انداز بانو کی زندگی میں تازہ خون بن کر دوڑ گئیں تھیں۔
یہ کونسا نقطہء آغاز تھا، اُس نے نہ سوچنا چاہا نہ سمجھنا چاہا۔وہ تو ایسی
پناہ گاہ میں آگئی تھی جو اُس کے دل کی تمام تر افسردگیوں کو اس طرح مٹاتا
جیسے کی بورڈ کی مخصوص ’’کی ‘‘ غیر مطلوبہ لفظ مٹا ڈالتی ہے۔ ایسے جیسے وہ
کبھی تھا ہی نہیں۔
انہی دنوں نادر کسی جاب کے سلسلے میں انٹرویو دینے کراچی آیا تو خالہ کے ہی
گھر ٹھہرا۔وہ بے تاثر چہرے اور دل کے ساتھ شب و روز گزارتی رہی۔گوہر اور
شاداب بھی لئے دیئے سی رہتیں۔ بس ابو امی تھے جو ہونے والے داماد کی آؤ
بھگت میں مصروف رہتے تھے۔’’لاعلمی بھی نعمت ہے‘‘ وہ ماں باپ کو خاطر مدارت
کرتا دیکھ کر سوچتی ۔ اُس نے تو اپنے طور پر انگوٹھی کے ساتھ نادر کو بھی
اپنی زندگی سے نکال پھینکا تھا۔ آدھی رات کے وقت خیر حسین کے فون جو وہ
آدھی رات کو کوٹھڑی میں جاکر سنا کرتی تھی ،نادر کی موجودگی میں اُس نے بند
کردیئے تھے۔اس کی کالز سُنے بنا اُسے لگ رہا تھا کہ صحرا میں ریت اور تیز
ہو اکا طوفان ہے اور تنہا وہ۔ پورے چار دن کے بعد نادر سکھر کے لئے روانہ
ہوا تو تینوں بہنوں نے سکھ کی سانس لی۔
’’اپنا خیال رکھا کرو انداز بانو، مجھے تمہاری بڑی ہی پرواہ ہے‘‘ خیر حسین
کی آواز اتنے دن کے بعد سنی تو جیسے اُس کا رواں رواں جھوم اٹھا۔
’’لگتا ہے تم میرا کوئی گمشدہ حصہ ہو ‘‘۔کیا فقرے تھے ،اُسے لگتا جیسے بارش
کے قطرے جو شیشے پر تواتر سے گرتے ہیں تو خوبصورت دھاریاں بناتے ہیں۔وہ بھی
اپنی انگلی فرش پر دھاریوں کے انداز میں بے اختیار پھیر رہی تھی۔بیضوی
قطروں کی لمبی قطاریں اس کے آئینہ دل پر بارش کی طرح گرتے ہوئے الفاظوں کے
خوبصورت نمونے بنا رہی تھیں۔
’’آپا بہت دیر ہوگئی ہے۔فجر کا وقت ہونے والا ہے‘‘ وہ جو مگن تھی،گم تھی
اچانک شاداب کی آواز نے اس کو سُن سا کردیا۔اس نے دیکھا وہ فوراً ہی واپس
مڑ گئی تھی۔
’’کون تھا،کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟ ‘‘ فون کے دوسری طرف سے آوازیں ابھر
رہی تھیں۔لگتا ہے کچھ گڑ بڑ ہے۔او کے میں بند کررہا ہوں لیکن جاتے جاتے
’’ہیپی ویلنٹائن ڈے‘‘ کل ہماری پہلی ملاقات ہوگی بانو۔ اس نے بانو کی الجھن
محسوس کرتے ہی فون بند کرنے سے پہلے اتنی غیر متوقع بات کی جس نے اُس کو
مزید الجھا دیا۔ فون بند ہوچکا تھا، بِنا اس کی رضا سنے اور جواب جانے ۔
جیسے یقین ہی تھا کہ کچے دھاگے سے بندھی چلی آئے گی۔
یہ شاداب کی آنکھ کیسی کھل گئی؟ وہ سوچوں میں گم،پریشان سی اپنے بستر تک
آگئی جہاں برابر والے پلنگ پر شاداب بظاہر سوتی نظر آرہی تھی۔
نہ جانے انداز بانو اس غلط فہمی میں کیوں تھی کہ گھر والے اُس کی گھر میں
ہونے والی کسی بھی سرگرمی سے لاعِلم رہ سکتے ہیں۔وہ اُس کو بخوبی جانتے تھے
آخر وہ اُن کا حصہ تھی،ہاں ایک ابو تھے جو رات تھک کر آکر سوتے تھے تو بس
صبح کے الارم سے ہی آنکھ کھلتی تھی ۔ ماں، بہنیں اگر خاموش تھیں تو سب کے
پاس جواز تھے جن کہ تہہ میں بس ایک ہی بات تھی کہ ’’آواز کی دلہن شائد سچ
مچ کی اصل دلہن بھی بن جائے‘‘ ’’شائد پرچھائیاں روشنی میں بدل جائیں ‘‘
’’شائد شائد ‘‘۔
اگلی صبح حسب معمول تھی ۔شاداب بالکل اس طرح تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
جبکہ خود ساری رات بے آرام سوچوں کی بناء پر ابھی تک آرامی محسوس کررہی
تھی۔’’اداس لیلیٰ کیا حال ہیں ؟ سنا ہے چکور چاند تک پہنچ گیا ہے‘‘۔
بینک میں مہر النساء نے اس کی مضحمل سی شکل دیکھ کر آنکھیں گُھماتے ہوئے
معنی خیز انداز میں حال چال پوچھا تو وہ جیسے اپنے خول میں سمٹ سی
گئی۔’’ایک دم فِٹ یار‘‘ اس نے خوشدلی سے کہنے کی کوشش کی اور اس کے الفاظ
’’چاند ‘‘ ’’چکور ‘‘ کو سوچنے لگی۔’’یہ کیا اور کس حد تک میرے اور خیر حسین
کے بارے میں جانتی ہے‘‘ انداز بانو نے تشویش سے سوچا ۔ انہی سوچوں میں گم
اس کی نگاہ غیر اختیاری طور پر سامنے لگے ٹی وی اسکرین پر ٹک گئی جہاں
ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے ڈرامہ آرہا تھا۔
ہیرو کو دل کی شکل کی سرخ مخملی ڈبیا کھولتے دیکھ کر سرخ کپڑوں میں ملبوس
لڑکی کی آنکھیں ہیروں کی کنّی کی مانند جَگمگا اُٹھی تھیں۔ سیلو لیس شرٹ سے
باہر اس کے عُریاں بازو پر ایک سرخ دل کا ٹیٹو بنا تھا۔خوبصورت مینی کیور
ہوئے ہاتھوں میں انگوٹھی پہناتے ہوئے وہ مردانہ ہاتھ اس کو یکلخت کسی اور
ہی دنیا میں لے گئے جہاں وہ تھی اور ایسے ہی محبت بھرے ماحول میں ایسی ہی
انگوٹھی پہناتا ہوا اس کا مسیحا۔
جاری ہے |