عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
ازقلم: ذوالفقار علی بخاری
ادیبوں کی ڈائریکٹر ی ماضی میں شائع ہوتی رہی ہیں لیکن راقم السطور نے کچھ اور انداز کا خواب دیکھا تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی تشہیر پر مذاق کا نشانہ بنایا گیا جسے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔عالمی سطح کی ڈائریکٹری بنانے کا تذکرہ کئی دوستوں سے کیا اورحسب توقع جیسا کہ رواج ہے سب نے یہی کہا کہ ایسا خواب تو وہ دیکھ چکے ہیں۔بہرحال، ایک خواب اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور مسلسل پذیرائی مل رہی ہے۔جسے اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی قرار دوں گا کہ ایک ایسا کام جسے دورحاضر میں مفید نہیں سمجھا جا رہا تھا وہ پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔
راقم السطور ”عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری“کا اولین حصہ سرائے اردو پبلی کیشنز، سیالکوٹ کے اشتراک سے منظرعام پرلایا ہے۔”عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری“ کے پہلے حصے میں 125 سے زائد ادیبوں کے کوائف محفوظ ہوئے ہیں جو کہ مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔یاد رہے کہ تجرباتی ایڈیشن میں صرف حیات ادیبوں کے کوائف ہی ڈائریکٹری کا حصہ بنائے گئے ہیں تاکہ دورحاضر میں باہمی رابطے سے ادب اطفال کے فروغ کے حوالے سے مستقل بنیادوں پر سنجیدگی سے کام کیا جا سکے اورنونہالوں کو کتب بینی اورمطالعے کی جانب راغب کرنے کے لیے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے۔ادیبوں کے باہمی رابطوں سے بہت کچھ سیکھنے اورسمجھنے کا بھی موقع ملے گا۔ دنیائے ادب اطفال کی کئی اہم شخصیات نے اس حوالے سے نہ صرف سرائے اردو پبلی کیشنز بلکہ مرتبین کی خدمات کو سراہا ہے۔
برصغیر کے نامور ادیب، شاعر، نقاد و مترجم خان حسنین عاقب اس ڈائریکٹری کو کچھ اورانداز سے دیکھتے ہیں۔ آپ اپنے مضمون”عالمی ادیب اطفال ڈائریکٹری: معاصر ادبی حوالہ“ میں لکھتے ہیں: ”اس اختلافی بحث سے قطع نظر کہ یہ ڈائریکٹری اپنی نوعیت کی اولین ڈائریکٹری ہے یا نہیں، اسے ایک اہم پیشرفت کے طور پر ضرور دیکھا جانا چاہیے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ڈائریکٹری ایک حوالے کی چیز ہے۔ اس سے پہلے بھی جو کام ہوا ہے وہ بھی حوالے کی چیز ہے اور اب جو کام ہوا ہے یہ بھی ایک مستند ادبی حوالے کی چیز ہے۔ اس ڈائریکٹری کے مرتبین فاکہہ قمر اور ذوالفقار علی بخاری خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جہاں کہیں ہمیں گنجائش محسوس ہوگی اور احباب مشورہ دیں گے، ہم اس ڈائریکٹری کی اگلی جلد کو مزید بہتر بنائیں گے۔ اپنی جانب سے میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور یہ تجویز بھی پیش کرتا ہوں جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ اگر یہ دونوں مرتبین یا ان کا ادارہ یا ان کے احباب یا وہ تمام لوگ جو میری اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں، اس پر توجہ دیں اور اس تجویز کو رو بہ عمل لائیں تو یقیناً ادب اطفال کے حوالے سے ایک تاریخ ساز کام انجام پائے گا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ میری تجویز یہ ہے کہ اس ڈائریکٹری کو بنیاد بناکر بچوں کے ادب کا انسائیکلوپیڈیا کی تدوین کی سمت پیش رفت کی جائے یا پھر اس ڈائریکٹری کو ہی انسائیکلوپیڈیا کا روپ دیا جائے تو ایک نہایت وقیع ادبی کام انجام پائے گا۔ کیونکہ میرے محدود علم کی حد تک اس نوعیت کی کوئی چیز تاحال موجود نہیں ہے۔ بچوں کے ادب کا انسائیکلوپیڈیا ایک نہایت اہم کام ہوگا جس کی وقعت و اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ برصغیر میں یہ ایک اہم اور مستند ادبی حوالے کی چیز ہوگی اور ایک منظم باقاعدہ اور منصوبہ بند طریقے سے روبہ عمل لایا جائے تو یقینا ادب اطفال میں یہ ایک بیش قیمت اضافہ ہوگا۔“
جناب شجاعت علی راہی کے بقول”کتاب کا سرسری جائزہ لینے پہ آپ کی بے پناہ محنت کی داد دینا پڑتی ہے۔“
جناب اسحاق وردگ فرماتے ہیں: ”آپ نے ادب اطفال پر تحقیق کی رکاوٹیں دور کر دی ہیں۔“
جناب ناصرمغل کے مطابق”" یہ تو بہت کام کی چیز ہے۔ "
اس ڈائریکٹری پر ناقدین نے کڑی تنقید بھی کی ہے اگرچہ سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید کو سنجیدہ نہیں لیا جانا چاہیے تاہم چند باتوں کے حوالے سے وضاحت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔اس پر پہلا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس میں نئے قلم کاروں کی تعداد زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ دوسراا عتراض یہ تھا کہ اس میں سینئر ادیبوں کے کوائف بہت کم نظرآرہے ہیں۔ تیسرا اعتراض یہ تھا کہ اسے مستند قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ایک اعتراض یہ بھی ہوا کہ اس میں پرانی شائع ہونے والی ڈائریکٹری سے مواد نہیں لیا گیا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ڈائریکٹری کی فہرست کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔یا درہے کہ اکثر اعتراضات سرورق کے منظرعام پر ہی شروع ہو گئے تھے اور کسی نے فہرست اورڈائریکٹری کے مجموعے کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اورتجاویز تک دے دی گئیں۔اس حوالے سے عرض یہ کروں گا کہ ماضی میں جتنی ڈائریکٹریاں شائع کی گئی ہیں ان میں زیادہ تر اُن قلم کاروں کو شامل کیا گیا جو قدرے معروف تھے۔اُن میں ایسے نام بہت کم تھے جنھوں نے بچوں کے ادب میں قدم رکھا ہو اورانھیں بطور بچوں کا قلم کارڈائریکٹری میں جگہ دی گئی ہو۔
راقم السطور ہرلکھنے والے کو چاہے وہ بچوں کے ادب میں نیا ہو یا پھر نامور اُسے کسی بھی تحقیق میں شامل کرنے کے حق میں ہے کہ ہرکہانی نویس یا شاعر اپنی جگہ کوشش کر رہا ہے چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہو اُسے سراہنے کی ضرورت ہے۔ڈائریکٹری میں ہر اس کہانی نویس/شاعر کو شامل ہونا چاہیے جو بچوں کے لیے رسائل، اخبارات یا پھر ویب سائٹس پر تحریریں پیش کرکے ان کی تعلیم و تربیت میں کردار ادا کر رہا ہے کہ وہ بھی بچوں کے ادیب کہلانے کے مستحق ہیں۔ جدید دور میں رسائل اوراخبارات کی سرکولیشن سے زیادہ ویب سائٹس کے ذریعے زیادہ لوگ مطالعہ کرتے ہیں اورنوجوان نسل کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ اب رسائل کی قیمت زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے اورانٹرنیٹ پھر بھی قدرے کم قیمت ذریعہ ہے جو تفریح مہیا کر رہا ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کوئی بھی شعبہ ہو اس میں نئے خون کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اورادب میں جب نئے افراد یعنی شعراء یا کہانی نویس احباب کو پذیرائی دی جاتی ہے تو وہ دلجمعی اوربھرپورمحنت سے اپنا نام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ تین چار برسوں میں جتنے نوجوان سامنے آئے ہیں اس قدر نام پہلے ادب اطفال کی تاریخ میں دکھائی نہیں دیے گئے ہیں۔دورحاضرکے نوجوان ادیبوں میں تنزیلہ احمد، سلمان یوسف سمیجہ، فاکہہ قمر، احمد رضا انصاری، سیدہ اقراء اعجاز اورعلیزہ آصف ایسے نام ہیں جو معیاری لکھ رہے ہیں۔ان کے بارے میں جب والدین یا پھراساتذہ ڈائریکٹری میں پڑھیں گے تو ان کی کتب کے بارے میں جانیں گے اوریوں کتب کی فروخت سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی اورادب اطفال کا فروغ بھی ممکن ہوگا۔مزید براں یہ کہ کئی ادیبوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اوراُن کی جانب سے مثبت ردعمل نہ ملنے پر ترجیحاََ نئے قلم کاروں کے کوائف حاصل کیے گئے تاکہ تجرباتی ایڈیشنز شائع کیے جائیں اور دیگر نئے اورنامور ادیبوں سے رابطے کرکے معلومات حاصل کرلی جائیں اوروقت کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹری کے نئے ایڈیشنز میں شامل کیا جا تا رہے۔مزید یہ کہ ایک مخصوص ترتیب سے ادیبوں کے کوائف شائع کیے گئے ہیں تو بظاہر یوں محسوس ہوا کہ کئی ناموں کو ازخود فراموش کر دیا گیا ہے جو کہ سراسر غلط سوچ ہے یہ محض چند مخصوص ادیبوں کے اولین حصے میں عد م شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔
ڈائریکٹری کی فہرست کو بھی جو نشانہ بنایا گیا ہے وہ بھی اسی ترتیب کے تناظر میں ہے حالاں کہ وہ فہرست صرف اورصرف یہ آگاہ کرنے کے لیے مرتب کی گئی تاکہ جن کے کوائف شامل ہیں ان کے بارے میں معلومات مل سکیں۔دل چسپ قصہ یہ ہے کہ وہ فہرست تو ڈائریکٹری کاحصہ ہی نہیں جس پر اعتراض کردیا گیا ہے۔اولین حصے میں نئے ناموں پر اعتراضات کرنے والے یہ بات بھول گئے کہ تین دہائیوں سے ادب کی دنیا سے وابستہ خان حسنین عاقب اس کا حصہ ہیں۔ان کے علاوہ احمد عدنان طارق، اسد بخاری، امان اللہ نئیر شوکت، انصار احمد معروفی جیسی نامور ہستیاں اس میں شامل ہیں۔
ڈائریکٹری میں چوں کہ ادیبوں سے براہ راست کوائف حاصل کیے گئے ہیں ا س لیے اس میں شک نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ مستند نہیں ہوں گے کہ انھیں تیسرے فرد کی بجائے براہ راست ادیبوں سے رابطہ کرکے حاصل کیا گیا ہے اور اس ڈائریکٹری کی انفرادیت کو قائم رکھنے کے لیے ماضی میں شائع ہونے والی ڈائریکٹری کو زیر غور نہیں لایا گیا کہ پھر ناقدین نے مرتبین کی محنت پر اعتراضات کرنے تھے کہ کوئی نیا کام نہیں ہوا اورپرانے کو ہی نئے لبادے میں پیش کر دیا گیا ہے۔مزید یہ کہ مرتبین نے کوائف کے حصول کے وقت اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھا تھا کہ جن سے کوائف لیے جا رہے ہیں وہ بچوں کے ادب سے وابستہ ہیں یعنی شعراء اورکہانی نویس احباب پر یقین کامل رکھتے ہوئے کوائف شامل کرلیے گئے۔ معروف پاکستانی سائنس فکشن ادیبہ تسنیم جعفری بھی ڈائریکٹری کاحصہ ہیں ان کانام شاید ہی پہلے کسی ڈائریکٹری کا حصہ بنا ہو۔اسی طرح سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ادیب گلشن کمارپروانہ کا نام ماضی کی ڈائریکٹری کا حصہ نہیں بنا ہے اس حوالے سے ان سے براہ راست رابطہ کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انھیں بھی شامل کیا جاسکے۔ یہ چیز مربتین کے میرٹ کو ترجیح دینے کو واضح کرتی ہے۔راقم السطور کے علم میں ہے کہ ایک شائع ہونے والی ڈائریکٹری میں نام خاص ترتیب سے شائع نہیں ہوئے ہیں لیکن اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا گیا ہے یہ کچھ سوچنے پر مائل کرتا ہے ماضی کے برعکس اس ڈائریکٹری میں خط و کتابت کے علاوہ ای میل یا واٹس ایپ کے ذریعے رابطے کی سہولت بھی دی گئی ہے جو اس ڈائریکٹری کی انفرادیت کو ظاہر کرتی ہے۔
عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری کے لیے ایسے ادیبوں سے بھی کوائف مل رہے ہیں جو کہ اس سے قبل شائع ہونے والی ڈائریکٹری کا حصہ تھے اوراولین حصے میں کچھ نام ایسے موجود ہیں جن کے کوائف پہلے شائع ہونے والی ڈائریکٹری کا حصہ ہیں۔اس ڈائریکٹری کی اہمیت اس لیے دوگنی ہو گئی ہے کہ اس میں صرف پاکستانی ادیب ہی شامل نہیں ہیں بلکہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ادیب بھی شامل ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اس ڈائریکٹری کی اشاعت کو متنازعہ بنانے کی مذہوم کوشش کی گئی ہے تاکہ اس ڈائریکٹری کی فروخت پر اثر انداز ہو ا جا سکے اوراس کی اہمیت کو کم کیا جا سکے۔ادیبوں کی ڈائریکٹری کو مستقل بنیادوں پر شائع کرنے کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ ادیبوں کی کتب کے بارے میں نونہالوں کو علم ہو سکے اور وہ ان کی کتب خرید سکیں اورنئے ادیب بھی وقت کے ساتھ ساتھ شامل ہوتے رہیں۔ پاکستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے اور بچے کتب پڑھنا چاہتے ہیں لیکن انھیں کتب اوررسائل کے بارے میں علم نہیں ہے جس کے لیے اس نوعیت کی ڈائریکٹری کی اشاعت بہت ضروری ہے تاکہ انھیں ادیبوں اورکتب کے حوالے سے معلومات مل سکیں اورجامعات بھی ادب اطفال کے حوالے سے تحقیق کروانا چاہئیں تو انھیں مخصوص ادیبوں کے علاوہ بھی کچھ ایسے نام پتا چل سکیں جو بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں تاکہ انھیں بھی پذیرائی مل سکے اوران کی تخلیقات پر بھی تحقیقی کام ہو سکے۔یقین کامل ہے کہ جامعات، ادب دوست شخصیات اورادیبوں کی جانب سے عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری کو بھرپور پذیرائی دی جائے گی اورمزید بہتربنانے کے لیے تجاویز دی جائیں گی۔
جو احباب نونہالوں کو ادب اطفال ادیبوں سے متعارف کروانا چاہتے ہیں وہ اپنے علاقے کے کتب خانوں میں ایک نسخہ خرید کرعطیہ کریں گے تو اِس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔فی الوقت پاکستان میں اس منفرد ڈائریکٹری کو 700روپے بشمول ڈاک خرچ میں ایزی پیسہ نمبر/واٹس ایپ نمبر 03425088675پرڈاک کا پتااوررقم ارسال کرنے پر گھر بیٹھے منگوایا جا سکتاہے۔ |