جذبہ عشق ِ نبوی ﷺ سے لبریز ایک کاوش (پاکستان کے نعت گو شعرا (تذکرہ جلد پنجم)

(صدارتی خطاب)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر ایمریٹس: منہاج یونیورسٹی، لاہور
(کتاب کی تعارفی تقریب معروف شاعر و ادیب پروفیسر مسلم شمیم صاحب کی زیر سرپرستی
انہی کی رہائش گاہ پر بروز اتوار 23جون20224 ء کی شام منعقد ہوئی)
جذبہ عشق ِ نبوی ﷺ سے لبریز ایک کاوش
(پاکستان کے نعت گو شعرا (تذکرہ جلد پنجم)
تحقیق و تصنیف۔سید محمد قاسم
(صدارتی خطاب)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر ایمریٹس: منہاج یونیورسٹی، لاہور
(کتاب کی تعارفی تقریب معروف شاعر و ادیب پروفیسر مسلم شمیم صاحب کی زیر سرپرستی
انہی کی رہائش گاہ پر بروز اتوار 23جون20224 ء کی شام منعقد ہوئی)
٭
الحمد اللہ میرے لیے یہ امر باعث انبسات ہے کہ آج مجھے عشق ِ مصطفی ﷺسے بھر پور کاوش ”تذکرہ نعت گو شعرائے پاکستان“ کی پانچویں جلد کی تقریب رونمائی میں شرکت کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔ یہ کاوش سید محمد قاسم کی ہے اور اس سلسلے کی پانچویں جلد ہے۔ گویا مصنف اس سے قبل اس موضوع کی چار جلدیں مرتب کر چکے ہیں اور وہ شائع بھی ہوچکی ہیں۔مجموعی طور پر مؤلف کی اب تک 8 تصانیف و تالیفات منظر عام پر آچکی ہیں ان میں بدر کامل، آثار امام سیرین، کتاب الدعا،تکرہ مفسرین پاکستان، خاک میں پنہا صورتیں، پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء، پاکستان کے نعت گو شعراء، جلد اول تا پنجم شامل ہیں۔پیش نظر تالیف بنیادی طور پر تذکرہ ہے۔
نعت گوئی کے بارے میں ڈاکٹر سید محمد رفیع الدین اشفاق جنہوں نے اردو میں نعتیہ شاعری پر پہلا تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر انہیں ناگپور یونیورسٹی سے ۵۵۹۱ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی کے ان کے خیال میں ’اس صفت کا تعلق دینی احساس اور عقیدت مندی سے ہے اور اسے خالص دینی اور اسلامی ادب میں شمار کیا جاتا ہے‘۔ اسی طرح ڈاکٹر شاکر اعوان کی تصنیف ”عہد رسالت میں نعت“ اردو ادب میں اپنے موضوع پرقابل تعریف کام ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصنیف ”اردو کی نعتیہ شاعری“ اپنے موضوع پر معتبر حوالہ ہے۔
نعت کہنا یا نعت کا پڑھنا مسلمان کی حیثیت سے باعث بر کت اور باعث ثواب و برکت ہے۔ بے شمار شعراء جو صرف عشقیہ شاعری کیا کرتے ہیں انہوں نے حصول ثواب کی غرض سے نعت بھی کہی بعض نے تو ثواب کی خاطر اور بعض نے صرف اس لیے نعت کہی تاکہ وہ اپنے آپ کو نعتیہ شعراء کی صف میں بھی کھڑا کرسکیں۔ نعت کہنے والوں کے نعتیہ کلام میں نبی اکرم ﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار نمایاں پایا جاتاہے۔ نعت کی خوبی تویہ ہوتی ہے کہ جس کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوکہ کہنے والاعشقِ رسول ﷺ میں مجسم ڈو با ہوا ہے وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس
کے دل کی آواز ہے۔نعتیہ اشعار بسا اوقات پڑھنے والے پر اس قدر شدید اثر ڈالتے ہیں کہ وہ اندر سے تڑپ کر رہ جاتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ از خود اپنے نبی کی شان بیان کر رہا ہے۔ میرا ایک شعر دیکھئے ؎
مَیں بھی عاشق ہوں رئیسؔ حسان بن ثابت کا
پر ان جیسی نبی ﷺ سے محبت کہاں سے لاؤں
حضرت حسان بن ثابت ؓ زمانہ نبوی میں شان ِ نبوی بیان کرنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔انہوں نے نعت رسول مقبول ﷺکے حوالے سے ایک پورا نعتیہ قصیدہ کہہ کر اپنے دیوان کو مُزین کیا ہے۔
تذکرہ نگاری
شاعروں اور ادیبوں کے حالات، واقعات اور کلام یا نثری نگارشات پر مبنی کتاب ’تذکرہ‘ ہے۔ ادب کی یہ صنف فن تاریخ کا شعبہ ہے۔ پروفیسر انور جمال اپنی کتاب ”اَدَبی اِصطلاحات“میں لکھا ہے کہ ’عربی اور فارسی کی قدیم تحریروں میں طبقات اور تذکروں کا سراغ ملتا ہے۔ اردو تذکرہ نگاری کا فن فارسی نویسی کے تتبع میں آتا ہے۔ تذکروں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ تذکرہ شعراء کے سوانحی حالات، واقعات، عادات، طور طریقوں اور شعری صلاحیتوں کو بیان کرنے کا نام ہے۔ ان تذکروں میں شعراء کی چشمک، مشاعروں کے واقعات، شاگردوں کے کلام کی اصلاح سمیت سب کچھ شامل ہے۔ یوں تذکرہ تحقیق کے دائرے میں آتا ہے‘۔ مختصر یہ کہ ”تذکرہ شعر کے سوانحی حالات، واقعات و عادات، طور طریقوں اور شعری صلاحیتوں کو بیان کرنے کا نا م ہے۔ عام معنوں میں تذکرہ ایک نثری اصطلاح ہے جس کے معنی ہے ذکر کرنا اور بیان کرنا۔ شعرا کے حالات جو کتابی صورت میں مرتب کیے جائیں۔
تذکرہ نگاری کی تاریخ کا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو تذکرہ نگاری کی روایت فارسی سے داخل ہوئی۔ فارسی کے ان تذکروں میں شعرا کا تعارف، ان کے کلام کا انتخاب اور ان کے کلام کا جائزہ بیان کیا جاتا تھا۔ معروف محقق عبادت علی بریلوی کی بھی یہی رائے ہے کہ ان تذکروں میں شاعر کا مختصر تعارف یا حالات، کلام پر مختصر تبصرہ اور کلام کا انتخاب شامل ہوتا تھا۔ اردو کے معروف استاد پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے ایک تفصیلی مضمون ”اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری“ میں تذکرہ نگاری پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے جس سے تذکرہ نگاری کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر مہر محمد اعجاز نے اپنے مضمون ”اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری“ میں درست لکھا کہ ”اردو ادبی تنقید ی سسرمائے میں تذکروں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ان تذکروں کے ذرعے اُ س دور کی معاشرت اور زندگی کا نقشہ نظروں کے سامنے آنے کے ساتھ اُس زمانے کے معیاری، اخلاق و طرز معاشرت اور تذکرہ نگاروں کے تحقیقی و تنقیدی شعور کا اندازہ،لگایا جاسکتا ہے۔ ان تذکرون کے مطالعے سے اُ س زمانے کے علمی، ادبی حلقوں کی مصروفیات، رقابتوں، کش مکش، وضع دافیون، باہمی سلوک، روابط اور پسند و نا پسند کے معیارات کی تصویر سامنے آجاتی ہے“۔اردو میں تذکرہ نگاری کے بابائے اول میر تقی میرؔ ہیں۔ ”نکات الشعرا“ ان کا مرتب کردہ شعرا کا پہلا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ 1751ء میں تشکیل پایا اس میں شمالی ہند کے شعرا کا تذکرہ ہے۔میرؔ بلاشبہ اردو شاعری کے معراج پر ہیں۔ انہوں نے اردو کے چھ دیوان مرتب کئے جن میں غزلون کے علاوہ قصائد، مثنویاں، رباعیات اور واسوخت وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی تین کتابیں نکات الشعرا، ذکر میر اور فیض میر شامل ہیں۔ میر کا ایک فارسی دیوان بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میرکی اس کاوش کے آس پاس دو تذکروں کا ذکر ملتا ہے ایک ”ریختہ گویاں“ دوسرا ”مخزن نکات“۔ اس کے بعد تو تذکروں کی ایک بارش ہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
پیش نظر تذکرہ ”پاکستان کے نعت گو شعرا“ جو سید محمد قاسم کا مرتب کردہ نعت گو شعرا کا تذکرہ ہے۔ اس وقیع کتاب میں 199شعراء کا تذکرہ ہے۔ شعراء کی ترتیب ان کے ناموں کے اعتبار سے حروف تہجی کے تحت ہیں۔ شاعر کا تعارف ان کے شعری مجموعے سے نقل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی شاعر کے کلام کا انتخاب بھی ہے۔ شعرا کے انتخاب کے حوالے سے مرتب نے ’سفر جاری ہے‘ کے عنوان سے لکھا کہ ”میں بت اس تذکرے میں شعراء کے لیے ان کے فکری رویے کے اعتبار سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اشعار کے قالب میں کن کن خیالات کو ڈاھالتے ہیں اور ان کو فکری آزادی حاصل ہے اور انہون نے جو کچھ لکھا ہے میں نے اسی احساس کے جذبے کے تحت ان کی نعتوں کا انتخاب کیا ہے تاکہ شاعری کا فکری اور مسلکی رجحان واجح ہوکر سامنے آجائے“۔ آخر میں زاہد رشید صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ ”سید محمد قاسم تذکرہ نگارون میں ایک معتبر نام ہے وہ ایک ایسے زیرک و ذہین تذکہ نگار جن میں تصنیفی و تایفی شعور بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان میں محققانہ صلا حیت کی کمی نہیں ہے۔ وہ اپنے وسیع مطالعہ سے نتیجہ خیز تاثر ات اخذ کرتے ہیں“۔ (23جون 2320ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 868 Articles with 1453848 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More