” بُلبُلیں نواب کی“ از شاہ محی الحق فاروقی ۔ ایک تاثر
شہزاد نیاز
۳۱ دسمبر ۲۰۲۳ء
آج کا دن کئی اعتبار سے ہمارے لئے اہم ہے۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ کہ یہ سال
کا آخری دن ہے اور بقول شاعر:
پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی
اور جہاں بعض لوگ سال کی یہ آخری شام کچھ ایسا کہتے ہوئے بِتائیں گے۔ کہ:
ستاروں آسماں کو جگمگا دو روشنی سے
دسمبر آج ملنے جا رہا ہے جنوری سے
وہاں ہم حاضرینِ محفل کے لئے آج کا دن دو طرح کے احساسات کا حامل ہے۔ ایک
باعثِ مسرت اور ایک باعثِ رنج۔
باعثِ مسرت اس لئے کہ ہماری آج کی نشست کا انعقاد اُس شخصیت کے بارے میں ہے
جس کے نام سے ہماری یہ بیٹھک موسوم ہے۔ یعنی بیٹھک شاہ محی الحق فاروقی۔ ہم
اس بیٹھک میں ہفتہ وارعلمی و ادبی نشستوں کا انعقاد کم و بیش دو سال سے کر
رہے ہیں لیکن شاہ صاحب کی شخصیت کے حوالے سے یہ ہماری پہلی نشست ہے۔ شاہ
محی الحق فاروقی جیسی بلند پایہ علمی و ادبی شخصیت کا حق تو یہ ہے کہ ہمیں
اُن کی شخصیت اور فن کو بہت پہلے موضوعِ گفتگو بنانا چاہیئے تھا۔ تاہم دیر
آید درست آید
باعثِ رنج اس لئے کہ آج کا دن شاہ صاحب کی برسی کا دن بھی ہے۔ ٹھیک گیارہ
سال پہلے آج ہی کے دن وہ اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی کے
حضور پیش ہوگئے۔
شاہ صاحب ادبی لحاظ سے ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ اُن کی تصانیف و تالیفات کا
جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ وہ نہ صرف ایک کالم نگار و مزاح نگار ہیں بلکہ
ایک بہترین محقق و مترجم بھی ہیں۔ ان کی تصانیف میں اکثریت تراجم کی ہی ہے۔
روزنامہ ”امت“میں اُن کی شوخیِ تحریر لئے”کھٹے میٹھے انار“کے مستقل عنوان
سے ایک کالم طویل عرصہ تک شائع ہوتا رہا ہے۔ شوخیِ تحریر میں نے اس لئے کہا
کہ شاہ صاحب نے اپنے ان کالمز میں سنجیدہ موضوعات اور مسائل کی نشاندہی کو
بھی پُر مزاح انداز میں پیش کیا ہے۔
شاہ صا حب کی تصانیف و تالیفات کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس میں
1۔ جج بھی ہنس سکتا ہے، شائد۔۔۔ (ترجمہ:- جسٹس ایم آر کیانی کی کتاب A
Judge May Laugh and even cry)
2۔ رہنمائے تربیت (کارکنانِ دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل) (ترجمہ کتاب:-
ہشام الطالب A Training Guide for Islamic Workers)
3۔ بلبلیں نواب کی (ترجمہ کتاب:- موسیٰ رضا Nawab and Nightingales)
4۔ تفہیمِ کراچی (ترجمہ کتاب:- Understanding Karachi عارف حسن)
5۔ جہاتِ غالب (ترجمہ کتاب:- Aspects of Ghalibممتاز حسن)
6۔ سانحہ مشرقی پاکستان، تصویر کا دوسرا رخ (ترجمہ کتاب:- جنرل امیر عبد
اللہ خان نیازی)
7۔ شمالی امریکا کے مسلمان (ترجمہ کتاب:- ایحادون یازبک حداد Muslim
Communities in North America)
8۔ ان دیکھی گہرائیاں (ترجمہ کتاب:- ہارون ابن علی کی خود نوشت
Un-Chartered Waters)
9۔ کھٹے میٹھے انار (طنزیہ و فکاہیہ مضامین و کالموں کا مجموعہ)
10۔ بیدار دل لوگ (معروف ادبی شخصیات کے خاکے)
11۔ فرہنگِ بینکاری و مالیات (Glossary of Banking and Finance - English
to Urdu)
12۔ کراچی واٹر اینڈ سینیٹیشن بورڈ کی نجکاری ( ترجمہ کتاب - نعمان احمد و
ایم سہیل Privatization of K.W. S. B )
13۔ سرگزشت (آپ بیتی جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی)
شامل ہیں۔
میں نے شاہ صاحب کی ان مذکورہ تصانیف و تالیفات میں سے جس کتاب کو اپنا
موضوعِ سُخن بنایا ہے اُس کا عنوان ہے ”بلبلیں نواب کی“۔ یہ موسیٰ رضا کی
انگریزی زبان میں ” نواب ایند نائٹنگیلز“ کے عنوان سے لکھی کتاب کا اردو
ترجمہ ہے۔ موسیٰ رضا انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس آفیسر تھے اور اُن کی یہ کتاب
اُن کی سوانح عمری ہے جس میں اُنہوں نے اپنی زندگی بالخصوص دورانِ ملازمت
پیش آنے والے چیدہ چیدہ حالت و واقعات کی رُوداد کو قلمبند کیا ہے۔ اِس
سوانح عمری میں ۱۵ مختلف واقعات علیحدہ علیحدہ عنوانات کے تحت لکھے گئے
ہیں۔ میں اگر یہ کہوں کہ شاہ محی الحق فاروقی مرحوم نے اس کتاب کا اُردو
ترجمہ کرکے اس کتاب کو امر کر دیا ہے، تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ اور میرا غالب
گُمان یہ بھی ہے کہ صاحبانِ ذوق نے اس کتاب کے اردو ترجمہ کو پڑھ کر جو لطف
اٹھایا ہو گا وہ لطف شاید اُنہیں موسیٰ رضا کی اصل انگریزی زبان میں لکھی
گئی کتاب ” نواب ایند نائٹنگیلز“ کو پڑھ کر نہ ملتا۔ چونکہ بلبلیں نواب کی
ایک ترجمہ شدہ تالیف ہے لہذاٰ میں ابتداء میں ترجمہ نگاری کے فن پر مختصر
بات کرنا چاہوں گا۔
ترجمہ نگاری کوئی کارِ سہل نہیں ہے۔ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ فن ہے۔ کیوں کہ
ایک خیال کو تخلیق کا جامہ پہنانے والا شاید اتنا زیادہ نہیں سوچتا، جتنا
کہ کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں اس تخلیق کو منتقل کرنے والا سوچتا ہے۔
فنِ ترجمہ نگاری کے بارے میں جمیل جالبی لکھتے ہیں:
”ترجمے کا کام یقیناًایک مشکل کام ہے اس میں مترجم، مصنف کی شخصیت، فکرو
اسلوب سے بندھا ہوتا ہے۔ ایک طرف اس زبان کا کلچر، جس کا ترجمہ کیا جا رہا
ہے، اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر، جس میں ترجمہ
کیا جارہا ہے، یہ دُوئی خود مترجم کی
شخصیت کو توڑ دیتی ہے“۔
اور اسی فنِ ترجمہ نگاری کے بارے میں پروفیسر مسکین علی حجازی لکھتے ہیں:
”علمی ادبی اور فنی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میںِ منتقل کرنا خاصا
دشوار کام ہے، یہ کام وہی شخص صحیح طور پر کر سکتا ہے جو متعلقہ علم، صنفِ
ادب یا فن کا ماہر ہونے کے علاوہ دونوں
زبانوں پر مکمل طور پر قادر ہو“
ترجمے کی اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر سید عابد حسین عابد لکھتے ہیں۔ کہ:
”ترجمے کو ادبی قدرو قیمت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جب ایک زبان سے دوسری زبان
میں مفہوم کے ساتھ وہ آب و رنگ، وہ چاشنی، وہ خوش بو، وہ مزا بھی آجائے، جو
اصل عبارت میں موجود تھا۔“
جالبی صاحب ؛ مسکین علی حجازی اور ڈاکٹر سید عابد حسین عابد نے ایک بہترین
مترجم کی جن صفات کا ذکر کیا ہے شاہ صاحب کی شخصیت ان صفات سے کما حقہ مرصع
تھی اور اُن کی ترجمہ شدہ کتابیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ شاہ صاحب
نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ اور آج کی موضوعِ گفتگو کتاب
”بلبلیں نواب کی“ کے مطالعہ کے بعد تو میں شاہ صاحب کے بہترین مترجم ہونے
کا صدقِ دل سے معترف ہو ں ۔مجھے تو اِس کتاب کے ترجمہ شدہ ہونے کا گمان ہی
محسوس نہیں ہوا۔ اور مجھے قوی اُمید ہے کہ حاضرینِ محفل میں سے جو جو شاہ
صاحب کی اس کتاب کے ساتھ ساتھ اُن کی دیگر ترجمہ شدہ تصانیف پڑھ چکے
ہوں گے یقیناً اُن کے بھی شاہ صاحب اور اُن کی تصانیف کے بارے میں یہی
تاثرات ہونگے۔
میں آخر میں اس کتاب کے باب بالعنوان بلبلیں نواب کی سے ایک اقتباس آپ کے
سامنے پیش کر تا ہوں:
شاہی شکار کے کوئی دو ماہ بعد ایک شام کو میں ہِز ہائی نس کے یہاں شام کی
چائے پر گیا ۔اس بار مجھے محل کے ایک دوسرے حصے میں لے جایا گیا۔ ایک عجیب
منظر میری نظروں کے سامنے تھا۔ میں نے ہال کے اندر ایک قطار میں بہت سے
پنجرے دیکھے ۔ان میں چھوٹے چھوٹے پرندے تھے ۔یہ ہندوستانی بلبل تھے ۔وہ سب
چہچہا رہے تھے۔ ہِز ہائی نس بید سے بنی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھے تھے اور ان
کے آگے ایک چھوٹی سی میز تھی۔ ان کے انگوٹھے پر ایک بلبل بیٹھا ہوا تھا۔
رسمی سلام دعا کے بعد جونہی میں اپنی نشست پر بیٹھا ہم نے اِدھر اُدھر کی
باتیں شروع کر دیں لیکن اس پوری گفتگو کے دوران میں مسلسل یہ دیکھتا رہا کہ
تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد نواب صاحب اپنے ایک انگوٹھے کو جھٹکا دیتے تھے جس
کی وجہ سے بلبل کوئی دو فٹ اڑ کر چلا جاتا اور پھر اُڑ کر واپس آجاتا اور
ان کے انگوٹھے کو اڈہ بنا کر اُس پر بیٹھ جاتا ۔میں نے غور کیا کہ بلبل ایک
چمکدار ریشمی دھاگے کے ذریعے نواب صاحب کے انگوٹھے سے بندھا ہوا ہے اور یہ
دھاگا اُسے
دو فٹ سے زیادہ اڑنے نہیں دے رہا تھا ۔
اِس وقت تک میں نواب صاحب کی صحبت میں اتنے دنوں تک بیٹھ چکا تھا کہ مجھے
یہ بات بخوبی معلوم ہو گئی تھی کہ مجھے کسی معاملے میں تجسس یا تعجب کا
اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ شاہی صحبت میں انسان کو اپنا چہرہ ایسا سپاٹ رکھنا
چاہیے جس سے یہ نہ معلوم ہو کہ وہ چیزوں کو جاننے کے لیے خواہ مخواہ کی
کرید کر رہا ہے خواہ اُس کے گرد و پیش کتنے ہی تعجب خیز واقعات کیوں نہ پیش
آرہے ہوں۔ بہرحال ہِز ہائی نس نے خود مجھے بتایا ۔
”میں اِن کے عضلات مضبوط کر رہا ہوں “انہوں نے کہا ”اس طرح مسلسل اڑنے سے
یہ
مضبوط اور صحیح لڑاکا بن جاتے ہیں۔“
میں نے دیکھا کہ نواب صاحب کے سامنے ایک میز پر چاندی کے ایک کٹورے میں
حلوے کی قسم کی کوئی چیز رکھی ہوئی تھی ۔ دو، دو منٹ کے بعد وہ اس میں سے
ایک ایک لقمہ اُس بلبل کو
کھلا رہے تھے ۔
نواب صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مجھ سے کہا ”یہ مٹر کی لئی ہے۔ اِس
سے اِن کو
طاقت ملتی ہے۔ روزانہ ایک گھنٹہ اسی طرح اِن کی ورزش ہوتی ہے۔“
اِس کے بعد بڑے مطمئن انداز میں انہوں نے کہا ”یہ ساری ورزش و خوراک صرف ان
کے ڈینوں کو مضبوط کر سکتے ہیں لیکن میں انہیں صحیح معنوں میں لڑاکا نہیں
بنا سکتا ۔جنگ کرنے اور اس میں فتح حاصل کرنے کے لیے عزم و ہمت تو اندر سے
پیدا ہوتی ہے۔ اگر کوئی پرندہ جنگ جُو نہ ہو تو میری پوری کوشش بھی اُسے
جنگجو نہیں بنا سکتی ۔بد قسمتی سے مجھے پہلے ہی سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا
کہ کون سا پرندہ لڑے گا اور کون سا نہیں لڑے گا ۔اگر یہ معلوم ہو جاتا تو
مجھے اتنے بہت سے پرندوں پر اتنی ساری محنت صرف نہ کرنی پڑتی ۔“اس وقت تک
میرا شوق تجسس واقعی بھڑک چکا تھا چنانچہ میں نے پوچھا۔ ”لیکن انہیں لڑنے
کی ضرورت کیا ہے اور یہ کس
سے لڑیں گے؟ “
”اوہو، مجھے بڑا افسوس ہوا ہے، میں سمجھتا تھا کہ آپ یہ سب جانتے ہیں
۔دیکھیے میں اور میرا کاروباری ان پرندوں کو تربیت دیتے ہیں ۔اُس کے اپنے
بلبل ہال کی دوسری طرف ہیں اور یہ بلبل میرے ہیں ہم دونوں اپنے بلبلوں کی
تربیت کرتے ہیں ۔ اِس کے بعد اِن کا مقابلہ ہوتا ہے۔
ہم اپنے اپنے پرندوں کو لڑاتے ہیں جیتنے والا سارے پرندے لے لیتا ہے ۔“
”اور پھر جنگ کے بعد ان پرندوں کا کیا کرتے ہیں؟“ میں نے پوچھا ۔
”کچھ نہیں، ہارنے والے پرندوں کے پر کاٹ کر انہیں آزاد کر دیا جاتا ہے۔
جیتنے والوں کو ہم اگلی
جنگ کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ “
”اور آپ اِن کے پر کیوں کاٹتے ہیں ؟“میں نے جاننا چاہا ۔
”تاکہ ہم انہیں پرندوں کو بار بار نہ پکڑلیں۔ شکست خوردہ تو آخر یہ ہوتے ہی
ہیں نا !ہِز ہائی نس نے جواب دیا ۔میں نے سوچا کہ اس کھیل میں جیتنا ہی
دراصل ہار ہے۔ اگر ان بلبلوں کو یہ بات پہلے سے معلوم ہوتی تو ان میں سے
کوئی فاتح نہ بنتا۔
آخر میں اِن کلمات کے ساتھ میں آپ احباب سے رُخصت چاہوں گا کہ شاہ محی الحق
فاروقی صاحب کی قد آور ادبی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُن کی زندگی
میں منعقد ہونے والی ہفتہ وار نسشت کا سلسلہ آج بھی اُن کے دونوں
صاحبزادگان جنہیں ہم فاروقی برادران کے نام سے جانتے ہیں نے تاحال جاری
رکھا ہوا ہے اور مجھے امید ہے کہ احبابِ ذوق شاہ محی الحق فاروقی کی اس
ہفتہ وار بیٹھک میں شامل ہو تے رہیں گے اور ان علمی و ادبی نشستوں کے ذریعے
فیض حاصل کرتے رہیں گے۔
|