جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے

 ضلع سوات کے علاقہ مدین میں مشتعل ہجوم نے توہینِ قرآن کا الزام لگا کر سیالکوٹ کے ایک سیاح کو پولیس کی تحویل سے زبردستی نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کر دیا۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے منظر عام آنے والی ہولناک ویڈیوزمیں دیکھاجاسکتا ہے کہ کیسے مشتعل ہجوم اک شخص کو زمین پر لٹا کر مار رہا ہے پھر اسکی نعش کو آگ لگا کر جلادیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر نت نئے تبصرے سننے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کئی افراد اس قتل کی تائید کرتے دیکھائی دئیے توکوئی اس واقعہ کی پُرزور مذمت کرتے، اسی طرح کئی عقل سے پیدل افراد اس سانحہ کو مذہبی سے زیادہ صوبائی رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف عمل نظر آئے۔ یاد رہے پاکستان میں توہین کے نام پر مشتعل ہجوم کی جانب سے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی قریب میں متعدد ایسے واقعات ہوچکے ہیں۔ خوش قسمتی سے لاہور اچھرہ بازار میں اک خاتون توہین کے الزام میں سربازار قتل ہونے سے بچ گئی تھی۔ گذشتہ ماہ سرگودھا میں قرآن کی توہین کا الزام لگائے جانے کے بعد مشتعل ہجوم نے نہ صرف ایک گھر اور کارخانے کو نذرِ آتش کیا بلکہ ایک شخص کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔ اس سے قبل فروری 2023 ننکانہ صاحب کے علاقے واربرٹن میں مشتعل ہجوم نے توہینِ قرآن کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک شخص کو پولیس کی حراست سے چھڑوا کر ہلاک کر دیا تھا۔ اور صرف چند ماہ بعد اگست کے مہینے میں جڑانوالہ میں توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد مسیحی آبادیوں پر حملے کے واقعات پیش آئے جن میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ80سے زائد مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ اور چند سال پہلے سیالکوٹ شہر میں سری لنکن شہری بھی توہین کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں موت کا حقدار قرار پایا۔ حیران کن طور پر توہین مذہب کے الزامات کا شکار نہ صرف غیر مسلم افراد ہوتے رہے ہیں بلکہ متعدد مسلمان بھی توہینِ مذہب کے الزامات کی زد میں آئے۔ چند سال قبل مشعال نامی یونیورسٹی کا طالب علم بھی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اللہ کو پیارا ہوا۔ کلمہ طیبہ کے نام سے وجود میں آنے والی ریاست جسکے آئین کی شروعات بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 1کے مطابق مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 2کے تحت دین اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا گیا۔ آرٹیکل 2A میں درج ہے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں اسلام کی طرف سے بیان کردہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کی مکمل پابندی کی جائے گی اور جس میں مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیں جیسا کہ قرآن و سنت میں بیان کیا گیا ہے۔ جس میں اقلیتوں کے لیے اپنے مذاہب کو ماننے اور اس پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو آزادانہ طور پر ترقی دینے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔ ایک ایسی مملکت جس میں توہین مذہب کے حوالہ سے تعزیرات پاکستان کا مکمل باب نمبر 15 اور دفعات 295تا 298موجود ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسی ریاست جس میں دین اسلام ، شعائر اسلام، مقدس ہستیوں، مقدس کتاب، مقدس مقامات کے خلاف کی جانے والی گستاخیوں کے برخلاف مکمل قانون اور سزائیں تجویز ہیں، ایسی ریاست میں کسی فرد یا ہجوم کا توہین مذہب کا الزام لگاکر کسی بھی شخص کوعدالتی کاروائی کے بغیر قتل کردینا درحقیت دین اسلام کی تعلیمات کی نفی ہے۔ ہمار ا دین اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی فرد کو بغیر عدالتی کاروائی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کردیا جائے۔ اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 9کے مطابق کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون قانون اسکی اجازت دے۔ آرٹیکل 10کے مطابق کسی بھی شخص جس کو گرفتار کیا گیا ہو اسے کسی گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں بتائے بغیر حراست میں نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی اسے اپنی پسند کے قانونی ماہر سے مشورہ کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے حق سے انکار کیا جائے گا۔ آرٹیکل 10Aکے تحت پاکستان کا ہر شہری اپنے خلاف کسی مجرمانہ الزام میں منصفانہ مقدمے اور مناسب کارروائی کا حقدار ہوگا۔ بطور قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے کسی بھی شہری یا ہجوم کو خود ساختہ عدالت لگانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی جگہ توہین مذہب جیسی ناقابل معافی حرکت ہوگئی ہوتو قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں اور بطور گواہ ملزم کے خلاف عدالتی کاروائی کا حصہ بن کر قرار واقعی سزا دلوائیں۔ دین اسلام کے ساتھ یہ کیسی محبت و عشق ہے کہ کسی بھی شخص کو ہجوم کا حصہ بن کر قتل کر دیا جائے پھر جب قانون حرکت میں آتا ہے تو یہی نام نہاد عاشق گرفتاری اور سزا سے بچنے کے لئے روپوش ہوجاتے ہیں۔ کیوں یہ نام نہاد عاشق سرعام میڈیا کے سامنے آکر گرفتاری نہیں دیتے۔ وحشت، عدم تشدد، عدم برداشت ایسے ماحول کے خاتمہ کے لئےعلماء کرام کو بھی آگےآنا پڑے گا۔ میری نظر میں ریاست پاکستان کو آگے بڑھ کر مملکت اور مملکت کے باشندگان کی حفاظت کی خاطر اور جنگل کے قانون ایسی صورتحال کے برخلاف سخت ترین اقدامات کرنا ہونگے۔ تاکہ خدانخواستہ مستقبل قریب میں جلیل حیدر لاشاری کے یہ اشعار کسی اور کا مقدر نہ بن جائیں۔
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے ۔
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے ۔
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے ۔
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.