قوم ثمود ثانی

قوم ثمود نے تو اللہ کے احکامات سے روگردانی کرتے ہوئے اس کی بھیجی ہوئی اونٹنی کی ٹانگ گاڑی

قوم ثمود کی طرح سانگھڑ میں آل ثمود کی نسل کے ایک ظالم شخص کی طرف سے اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا واقعہ


م

’’قوم ثمود ثانی ‘‘
سانگھڑ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کا واقعہ
14 جون 2024 کو ضلع سانگھڑ سندھ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کا واقعہ پیش آیا جب کہ اس کے تین روز بعد17 جون 2024 کو حیدر آباد میں ایک گدھا گاڑی کے مالک نے دوسری گاڑی میں جتے گدھے کی ٹانگ توڑ دی۔ دونوں گدھوں کی لڑائی ہورہی تھی، فریق ثانی کا پلڑا کمزور پڑ رہا تھا۔ اس کے مالک نے اپنے گدھے کی حمایت میں ڈنڈے برسا کر مخالف فریق کی ٹانگ توڑ دی۔اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کے واقعے نے قوم ثمود کی خالق کائنات سےنافرمانی کی یاد تازہ کردی۔ اس واقعے کے بعد ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس طرح دوسری قدیم قوموں کی نسلیں آج بھی روئے زمین پر موجود ہیں ، اسی طرح آل ثمود سے تعلق رکھنے والے افراد بھی دنیا میں موجود ہیں، کہیں اور نہیں سندھ دھرتی اور پنجاب کی سرزمین پر۔

سب سے پہلے ہم قوم ثمود کا تذکرہ پیش کریں گے۔ثمود، قدیم جزیرۃ العرب کی قوم جو پہلے ہزاریے ق م سے ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کے عہد تک رہی ہے۔ قوم کے مورثِ اعلیٰ کا نام ثمود تھا۔ان کا شجرہ نسب یہ ہے۔ ثمود بن جشیر بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام۔اس زمانے میں قوم عاد کے لوگ بھی عرب میں موجود تھے۔جنوبی اور مشرقی عرب کا خطہ ان کے زیر نگیں تھا۔ ثمود اس کے مقابل مغربی اور شمالی عرب پر قابض تھے۔ ان کے دارالحکومت کا نام حجر تھا۔ یہ شہر حجاز سے شام کو جانے والے قدیم راستہ پر واقع تھا۔ موجودہ دور میں یہ شہر مدائن صالح کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ثمود شمالی عرب کی ایک ترقی یافتہ قوم تھی۔تعمیری فن میں اسے کمال حاصل تھا۔ پہاڑوں کو کاٹ کر مکان بنانا، پتھروں کی عمارتیں اور مقبرے تیار کرنے میں اسے خصوصی مہارت حاصل تھی۔ اس دور کی یادگاریں اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان پر ارامی و ثمودی خط میں کتبے تحریر کئے گئے ہیں۔

قوم ثمود کا قرآن پاک میں23 مرتبہ ذکر آیا ہے۔قوم ثمود کو اپنی تعمیر و ترقی پر اس قدر غرور تھا کہ وہ اللہ کے احکامات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ خدا نے اس قوم کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی جانب بھیجا لیکن اس سے پہلے انہیں تنبیہ کی کہ وہ ان کے پیغمبر کی بیان کئے ہوئے پیغام الٰہی کی پیروی کریں اور ایک خدا کی عبادت کریں۔ قبیلے کے افراد نے یہ کہہ کر خدا کی بات ماننے سے انکار کر دیا کہ صالح محض ایک بشر ہے۔ انہوں نے خدا سے اپنی کسی نشانی کا مطالبہ کیا۔ خدا نے اپنی نشانی کے طور پر ایک دودھ والی اونٹنی اتاری ۔حضرت صالح نے اپنے ہم وطنوں سے کہا کہ وہ اونٹنی کو نقصان نہ پہنچائیں اور اسے اپنے کنویں سے پینے دیں۔ لیکن آل ثمود نے ان کی بات ماننے کی بجائے اس کی ٹانگیں کاٹ دیں ۔ خدا نےاس قبیلے پر عذاب بھیجا اور پورا قبیلہ تباہ ہوگیا، سوائے حضرت صالح اور ان کے چند ساتھیوں کے۔

آل ثمود ثانی کی نسل کے افراد نے جو نمنگلی تھانے کی حدود گاؤں نندو خان شر میں رہتے ہیں، ایک اونٹ کےکھیت میں گھس جانے کے سبب انہی میں سے کسی بے رحم شخص نے کلہاڑی کی مدد سےاس کی ٹانگ کاٹ دی۔ اونٹ کا مالک سومر خان بھن زخمی اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ سمیت پریس کلب پہنچ گیا۔ اس نےذرا ئع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اس کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، اس کے باوجود کسی ظالم انسان نے اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ بے زبان اونٹ کی ٹانگ کاٹ ڈالی ۔ سوشل میڈیا پر زخمی اونٹ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ایس ایس پی سانگھڑ اعجاز احمد شیخ کی جانب سے اس واقعے کا نوٹس لینے اور بحکم ایس ایس پی سانگھڑ، سرکار کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ نمبر 51 سال 2024 زیر دفعہ 429، 34 پی پی سی کے تحت درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس واقعے میں ملوث ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کے احکامات جاری کیے اور مجروح اونٹنی کو علاج معالجے کے لیے کراچی منتقل کرادیا۔پولیس نے واقعے میں ملوث پانچ مبینہ ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
اونٹ کے بعدگدھوں پر ظلم و تشددکے دو دواقعات پیش آ ئے۔ پہلا واقعہ حیدرآباد میں پیش آیا۔گاڑی میں جتا ایک گدھا اور دوسری گاڑی کا گدھا آپس میں لڑ پڑے تھے، جس پر ایک گدھے کے مالک نے اپنے گدھے کی حمایت میں گدھے پن کا ثبوت دیتے ہوئے دوسری گاڑی کے گدھے پر ڈنڈے برسا کر اس کی ٹانگ توڑ دی۔ اس کے چند گھنٹے بعد راولپنڈی کے تھانہ روات کے علاقہ ساگری میں بااثر شخص نے ایک گدھی کے دونوں کان کاٹ دیے۔تھانہ روات پولیس نے گدھی کے مالک تنویر حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق گندم کی کٹائی کے بعد گدھی کو پانی پینے کے لیے آزاد چھوڑا گیا تھا، وہ ملزم کے کھیت میں چلی گئی جس پر اشتعال میں آکر ملزم ارشد محمود نے بے زبان جانور کے دونوں کان کاٹ دیے۔ بتایا جاتا ہے کہ ارشد محمود علاقے کی بااثر شخصیت ہے، لوگ اس کا نام لینے سے بھی خائف ریتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں انسداد بے رحمی حیوانات کا محکمہ موجود ہے لیکن موجودہ دور میں غیرفعال ثابت ہوا ہے۔انسداد بے رحمی حیوانات کے رائج 121سالہ فرسودہ قوانین میں ترامیم کیلئے محکمہ لائیو اسٹاک کو بھیجے گئے مسودہ پر 6سال سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ،انسداد بے رحمی حیوانات کا ایکٹ 1890 سے لاگو ہے اور مناسب ترامیم نہ ہونے کے باعث جانوروں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔محکمہ میں رائج قوانین کے مطابق جانوروں کو بے رحمی سے ہلاک کرنے پر زیادہ سے زیادہ سزا دو سو روپے ہے ۔ اوور لوڈنگ پر جرمانہ آج بھی پچاس روپے برقرار ہے ۔1937کو جانوروں پر تشدد کرکے انہیں معذور کرنے پر جرمانہ 50سے 100روپے تک تھا، آج بھی اسی قانون کے تحت جرمانہ کیا جاتا ہے ۔ ملک کے تین صوبوں میں محکمہ ختم ہو چکاہے جبکہ پنجاب کے صرف سترہ اضلاع میں دفاتر موجود ہیں ان میں سے بھی اکثر دفاتر میں عملہ موجود نہیں ہے۔ فیلڈ انسپکشن کے لئے محکمہ کے پاس گاڑیاں ہیں اور نہ ہی جدید آلات خریدنے میں دلچسپی لی گئی ہے۔ضرورت اس بات کی بے کہ زبان جانوروں کو ظلم و تشدد سے نجات دلانے کے لیے قوانین میں ترمیمات کی جائیں۔
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 202586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.