سُپر پاور میراثیوں کے رحم و کرم پر

دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر اکیسویں صدی کی پہلی بڑی مہا بھارت جیتنے کی خاطر امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان کے معصوم شہریوں کے لیے پہلے تو کالی ماتا کا روپ دھارن کیا، یعنی مذہب کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ بش جونیئر اِس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اُنہیں غیر عیسائیوں (یعنی مسلمانوں) کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا اشارہ دیا ہے! مگر دال نہ گل سکی۔ دوسرے مرحلے میں امریکہ راکشس بننے سے بھی نہ چُوکا۔ جب ایسا کرنے پر بھی بات نہ بن سکی تو امریکہ بہادر اب علم و فن کی دیوی سَرسوَتی کی ”سہائیتا“ سے پاک افغان خطے کی مہا بھارت جیتنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یعنی اب کی بار سام مہا راج کی تان سنگیت پر ٹوٹی ہے!

افغانستان میں اپنے چار ہزار سے زائد فوجیوں کی گردنیں کٹوانے کے بعد واشنگٹن کے پالیسی میکرز کو خیال آیا ہے کہ یہ کام تو کہیں سَستے میں ہوسکتا تھا۔ جنگ و جدل کی ضرورت ہی کیا تھی؟ چند گانے بجانے والوں کو میدان میں لے آتے تو بات بہت پہلے بن جاتی! افغانوں نے مار مار کر سُپر پاور کو بھی بالآخر ”تُوم تانا نادِر دِھنّا“ پر مجبور کردیا! جو بات سَر دینے سے بھی نہ بن پائی اُسے سُر سے بنانے کا سوچا جارہا ہے!

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات اور نتائج کے حوالے سے کانگریس میں بحث کے دوران اوبامہ انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کانگریس کے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ارکان کا استدلال ہے کہ اربوں ڈالر لٹاکر بھی پاکستان میں لوگوں کو امریکی خارجہ پالیسی کی قوّالی میں ہم نوا کی حیثیت سے شریک نہیں کیا جاسکا! جب یہ انتباہ سامنے آیا کہ پاکستانیوں کے دِل جیتو ورنہ فنڈنگ بند ہو جائے گی تو دفتر خارجہ اور محکمہ دفاع دونوں ہی کی سِٹّی گم ہوئی۔ جنہیں بھانڈ میراثی قرار دیکر نظر انداز کردیا جاتا ہے وہی اِس مشکل میں یاد آئے۔ بگڑتی بات کو بنانے کے لیے اِنسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ایسے میں فنکاروں کی تھاپ اور ٹھمکوں سے مستفید ہونے میں کیا ہرج ہے؟

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے اعلیٰ اذہان نے ایک اور محاذ کھولنے یعنی ”ثقافتی جنگ“ شروع کرنے کا سوچا اور اب اُن کی سوچ پر عمل بھی کیا جارہا ہے۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں امریکی سفارتی مشنز کے ذریعے ثقافتی پروگرام ترتیب دیئے جارہے ہیں۔ امریکہ کے مشہور جاز پلیئر ایری رولینڈ نے کئی شہروں میں پرفارم کرکے پاکستانیوں کے دِل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مشہور کنٹری راک بینڈ کو بھی بُلایا جارہا ہے جو پاکستانیوں کے دِلوں میں امریکہ کے خلاف بھڑکتی ہوئی نفرت کی آگ پر میٹھے اور شوریلے سُروں کا پانی ڈالے گا!

بات صرف سنگیت پر ختم نہیں ہوتی۔ اداکاری اور ڈائیلاگ بازی کا بھی سہارا لیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ چھ عشروں سے جو کچھ کرتا آیا ہے کیا وہ ڈائیلاگ بازی اور ڈراما نہیں! آپ کی سوچ یقیناً درست ہی ہے مگر صاحب! یہ ڈراما کافی نہیں۔ سُپر پاورز کو قدم قدم پر ڈرامے اسٹیج کرنا پڑتے ہیں، ڈائیلاگ بازی سے لوگوں کو پُھسلانا پڑتا ہے۔ امریکیوں نے مکر و فریب، وعدوں، دعووں، جنگ و جدل اور قتل و غارت کے ڈرامے سے ہٹ کر بھی پاکستان میں ڈرامے پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے! ایک مشہور ڈراما The Odd Couple پہلے ہی پیش کیا جاچکا ہے۔ نام سے لگتا ہے یہ ڈراما یقیناً پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں ہوگا!

ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں بعض اصحاب اِس بات پر حیران ہوں کہ امریکہ دس سال سے طالبان، القاعدہ، آئی ایس آئی اور حقانی گروپ کے خلاف فکسڈ مُوڈ کا راگ ہی تو الاپتا آیا ہے۔ اگر ایسا ہے، اور یقیناً ایسا ہی ہے، تو پھر الگ سے موسیقی کے ایونٹس کا اہتمام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

ایری رولینڈ نے چند ساتھیوں کے ساتھ تین چار بڑے شہروں میں فن کا مظاہرہ کیا ہے اور داد پائی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے نے ایک رپورٹ میں یہ شِکوہ کیا ہے کہ خاصے کم لوگ اُنہیں سُننے آئے اور اِن میں بھی وہ لوگ زیادہ تھے جو امریکہ کے لیے دوستانہ رویہ رکھتے ہیں! اِس میں گِلے شِکوے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ امریکی موسیقار دِل جیتنے کے مِشن پر نکلے ہیں۔ اُنہیں سُننے وہی لوگ آئیں گے جو اپنے دِل جتوانا چاہتے ہیں! امریکی موسیقاروں کو دست بستہ سُننے والے وہی ہیں جو ہر حال میں امریکہ اور یورپ ہی کا راگ الاپتے ہیں۔ یہ تو امریکہ کے لیے ”کھمبا ووٹ“ کا درجہ رکھتے ہیں۔ امریکی میڈیا نے لکھا ہے کہ کنسرٹس میں اِن امریکہ نواز لوگوں کی آمد کو سفارتی مِشنز اپنی کامیابی قرار نہیں دے سکتے! شُکر ہے اِتنی بات تو امریکی میڈیا کی سمجھ میں بھی آتی ہے! جو اپنا سب کچھ ہار کر بھی پاکستان ہی کی بات کرتے ہیں ذرا اُن کے دِل جیت کر دِکھاؤ تو ہم بھی جانیں اور مانیں! مُشکل یہ ہے کہ امریکہ کے وحشی سُر اُن غریبوں کی سمجھ میں بڑی مُشکل سے آتے ہیں جو پاکستان سے محبت کی راگنی الاپتے ہیں!

ایک اعتراض یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی اور دفاعی حکمت عملی میں بھی اچھا خاصا شور پایا جاتا ہے۔ دفتر خارجہ اور پینٹاگون کے نمائندے اِس شور کو تھوڑا بہت سُریلا یعنی قابل برداشت بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ شور کسی نہ کسی طور گوارا ہے۔ امریکی سازندے بے ہنگم اور بے جوڑ سازوں کی آمیزش سے جو منفرد قسم کا شور پیدا کرتے ہیں اُسے موسیقی قرار دینا مذاق لطیف کے سراسر منافی ہے! اِس سے تو کہیں اچھا یہ ہے کہ شام کو گہما گہمی کے اوقات میں کراچی کے تبت سینٹر کے پاس کھڑے ہوکر گاڑیوں کا شور سُن لیا جائے! اُس میں کم از کم کچھ اپنائیت تو ہے۔ ہم سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ اپنا شور سُن کر زندہ ہیں، ہماری سماعت پر کسی کی بے ہنگم موسیقی کا احسان کوئی نہیں!

ایک امریکہ پر کیا موقوف ہے، ہر طاقتور کا یہی قِصہ ہے کہ جب سَر پر پڑتی ہے اور چھٹی کا دودھ یاد آتا ہے تو طاقت کی زبان بھول کر تمدن کی دُہائی دینے لگتا ہے! جب میدان جنگ میں شِکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو بڑی طاقتوں کے ناز پرور سپاہی ایک دوسرے کا مُنہ دیکھتے ہیں اور تب اُنہیں خیال آتا ہے کہ ثقافت کے محاذ پر بھی تو جنگ لڑی جاسکتی ہے! یعنی اکھاڑے میں کِسی کو بزور نہ گرایا جاسکے تو گدگدی کرکے ہی گراؤ! سِتم ظریفی یہ ہے کہ طاقت اور اقتدار کے آرکسٹرا میں تہذیب، تمدن اور ثقافت کو بھی ساز کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے! مفادات کی منڈی میں سبھی کچھ بکاؤ مال بن جاتا ہے۔

افغانوں اور پاکستانیوں کے دِل جیتنے کے لیے امریکی میراثیوں کے کنسرٹس سے کچھ نہ ہوگا۔ جن کے ہاتھ میں امریکہ کا سیاہ و سفید ہے اُنہیں پالیسیوں سے بے سُرا پن دور کرنا ہوگا۔ نہتے شہریوں پر گرائے جانے والے میزائلوں کے شور میں ”ٹھنڈے تے مِٹّھے“ سُر کِسے سُنائی دیں گے؟ چند مغرب نواز لڑکوں اور لڑکیوں کو بے ہنگم موسیقی سُنانا ہے تو سُناتے رہیے، پاکستان کا سوادِ اعظم تو صوتی آلودگی پھیلانے کے اِس بندوبست پر لعنت بھیج کر الگ ہی کھڑا رہے گا! اِن بے سر و پا کوششوں سے تو پاکستانیوں کے جذبات مزید بھڑک سکتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاک افغان مہا بھارت جیتنے کے خواہش مند امریکہ کے سُریلے ہنومان ہی اُس کی لنکا پھونک ڈالنے کا سبب بن جائیں اور اسٹریٹجک دیو مالا میں ایک نئی رامائن کا اضافہ ہو!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524657 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More