پاکستان ریلوے تباہی کے دھانے پر کیوں؟

محمد سعید جاوید جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں وہ ریل کو ایک جادو نگری سے تشبیہ دیتے ہیں ۔انہوں نے پاکستان ریلوے پر ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب بھی لکھی ہے ۔جس میں ریلوے سسٹم کے بارے میں اتنی معلومات جمع ہیں جن کے بارے میں شاید چیرمین ریلوے کو بھی علم نہ ہو۔ اس کے باوجود کہ میری تین نسلیں ریلوے میں ملازم رہی ہیں ،اس لیے ریل کی محبت میرے بھی خو ن میں رچی بسی ہے بلکہ ٹریک پر چلتی ہوئی ٹرین جب کانٹا بدلتی ہے، اس لمحے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہی آواز میرے دل کو بھاتی ہے۔ چند دن پہلے ایک ریلوے افسر سے پوچھا کہ ریلوے کے وزیر کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آجکل ریل بغیر وزیر کے چل رہی ہے اور خوب چل رہی ہے ۔ ریلوے وہ واحد محکمہ ہے جسے چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا ہے ۔ لیکن ریلوے کی تباہی میں کسی ایک حکمران کا ہاتھ نہیں۔ سارے حکمران اس جرم میں شریک ہیں۔ انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال پہلے وطن عزیز کے ہر گوشے میں ریل کی پٹڑی بچھا کر اس پر ٹرینیں چلا دیں لیکن پاکستانی افسر نہ ٹریک تبدیل کرسکے اور نہ ریلوے کی تنصیبات کواپ ٹو ڈیٹ کیا جاسکے یہی وجہ ہے ۔ کہ ریلوے کا سارے کا سارا سسٹم کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتا ہے ۔ نواب آف بہاولپور نواب صادق محمد خاں عباسی خامس کا نام تو سب نے سنا ہو گا۔ یہ وہ عظیم شخص ہیں جنہیں ریاست بہاولپور کو بھارت میں شامل کرنے کے عوض بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی جانب سے ایک ارب روپے کی پیشکش کو ٹھکرا کر ریاست بہاولپور کو پاکستان میں نہ صرف شامل کیا بلکہ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بلینگ چیک دے کر کہا جتنے پیسوں کی حکومت پاکستان کو ضرورت ہے ،اس چیک میں لکھ کربنک سے منگوا لیں ۔یاد رہے کہ ان دنوں اپنے اخراجات پورے کرنے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی حکومت پاکستان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر خدا نخواستہ ریاست بہاولپور پاکستان میں شامل نہ ہوتی تو پاکستان کا نقشہ کیا ہوتا بلکہ ریاست بہاولپورکے بغیر پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ نواب آف بہاولپورکے خاندان کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا اور گورنر پنجاب کا عہدہ مستقل انہی کے لیے مخصوص کردیا جاتا۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔وہ عالیشان محل جس میں نواب آف بہاولپور رہائش پذیررہے، وہی محل آج تباہی اور بربادی کا منظر پیش کررہا ہے ۔کاش اس عظیم محل کو آثار قدیمہ ہی کے سپرد کردیا جاتا۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ سمہ سٹہ سے ڈیرہ نواب کی جانب چلنے والی ٹرین کو بھی بند کردیا گیا ہے جبکہ سمہ سٹہ سے صادق گنج، بہاولنگر ، ہارون آباد ، چشتیاں، منچن آباد اور فورٹ عباس تک جو ٹرینیں چلتی تھی ان کو بھی یکسر ختم کردیا گیا ہے ۔ یوٹیوب پر مجھے بہاولنگر ، چشتیاں، منچن آباد اور فورٹ عباس کے ریلوے اسٹیشن اور ریلوے تنصیبات دیکھنے کا موقعہ ملا تو میری آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ہم کیوں اپنے محسنوں ہی سے ایسا توہین آمیز سلوک کرتے ہیں۔ ٹرینوں کی بندش کی وجہ سے ریاست بہاولپور کے تمام علاقے حسرت و یاس کی تصویر دکھائی دیتے ہیں ۔اور تو اور دریائے ستلج کو معاہدہ طاس میں بھارت کے سپرد کرکے ریاست بہاولپور کی زمینوں کو بنجر بنانے کی ہرممکن کوشش کی گئی ہے ۔ اب سمہ سٹہ سے لاہور جانے والی ٹرین جب دریائے ستلج کے ڈیڑھ سو سال پرانے پل سے گزرتی ہے تو دریائے ستلج کی بے بسی اور ویرانی دیکھی نہیں جاتی ۔یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔ انگریز قیام پاکستان کے وقت ریلوے کی تنصیبات اور اسٹیشنوں کو جس بہترین حالت میں چھوڑ کر گئے تھے،77سالوں میں ایک اینٹ بھی پاکستان حکمرانوں نے نہیں لگائی بلکہ مین لائن سمیت تمام برانچ لائنوں پر دریاؤں اور نہروں کے پل بھی ڈیڑھ سوسال پرانے ہیں جو کسی وقت بھی کسی حادثے کا باعث نم سکتے ہیں۔ سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ سپشل فوجی ٹرین وزیر آباد کے قریب پل ٹوٹنے سے نہر میں جا گری تھی ، کتنے ہی فوجی افسر اور جوان اس حادثے میں شہید ہو ئے تھے ۔انڈین ریلوے میں آج بھی بجلی کے انجن ٹرینوں کیساتھ ڈیڑھ سو میل کی رفتار سے چلتے دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن ایوب خاں کے دور میں بھاری سرمایہ خرچ کرکے لاہو رسے خانیوال تک جو بجلی کا سسٹم تعمیر کیا گیا تھا اور بجلی سے چلنے والے ریلوے انجن بھی منگوائے گئے تھے ۔آج ٹریک کے ساتھ ساتھ کھمبے تو دکھائی دیتے ہیں لیکن لاہور سے خانیوال تک بجلی کی تاریں کون اتار کر لے گیا اورکس نے یہ سب ہضم کرلیا ،کچھ معلوم نہیں۔ کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی ۔ آج بھی گڑھی شاہو فلائی اوور عبور کرتے ہوئے الیکٹرک شیڈ میں بجلی کے انجن حسرت و یاس کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔اگر اور کچھ نہیں ہوسکتا تو وہ الیکٹرک انجن انڈیا کو فروخت کرکے ان کی جگہ ڈیزل انجن منگوائے جاسکتے ہیں ۔مجھے کہنے کی اجازت دیجیئے کہ ریلوے جائیداد اور تنصیبات کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پھر بھی خسارے میں رہتا ہے؟پہلے بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو پکڑنے کا ایک سسٹم نظر آتا تھا ا ب کسی بھی اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر دکھائی نہیں دیتا ۔پھر ایسے چھوٹے اسٹیشن بھی دکھائی دیتے ہیں جہاں کبھی ٹرین نہیں رکتی لیکن وہاں اسٹیشن ماسٹر سمیت تمام عملہ پہلے کی طرح کیوں موجود ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے اسٹیشن ختم کرکے ٹریک کو سیدھا کردیا جائے اور وہاں کے ملازمین کو دوسرے اسٹیشنوں پر کھپا دیا جائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مین لائن سمیت تقریبا تمام برانچ سکیشنوں میں ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف 100فٹ جگہ خالی پڑی ہوئی ہے اگر اس جگہ کو پھول اگانے والی نرسریوں کو پٹے پر دے دیا جائے اور فرنیچر بنانے والی لکڑی "دیار"کے درخت اگر لگادیئے جائیں تو خوشگوار ماحول کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے ۔مزید وہ ملازمین جو بدترین حالات میں بھی ریل کے نظام کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں، ان کی فیملی کے رہنے کے لیے کم از کم دو تین کمروں پر مشتمل کوارٹر تعمیر کیے جائیں جن میں زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہوں۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیئے کہ ریلوے کے افسر خوشحال اور ملازمین بدحال سے بدحال ہوتے جارہے ہیں ،میں نے یو ٹیوب پر مین لائن سمیت کتنی ہی برانچ لائنوں میں گاڑیوں کی آمدرفت کا مشاہدہ کیا ہے ۔ریلوے کی بے پناہ اراضی قبضہ گروپوں کی منتظر دکھائی دیتی ہے۔ ریلوے ٹریک کے اردگرد سکریپ اورپرانا ٹریک بکھرا پڑا ہے ،اگر پرانے ٹریک اور سکریپ کو پاکستان سٹیل ملز کراچی میں بھیج کر اگر نیا ٹریک بنوا لیا جائے تو مجھے یقین ہے پورے پاکستان میں نیا ٹریک بچھا یا جاسکتا ہے ۔ جن پر تیزرفتار ٹرینیں چلائی جاسکتی ہیں ۔اسے میں بد قسمتی ہی قرار دوں گا کہ ریلوے کا پہیہ جاری رکھنے والے رننگ سٹاف بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی لی جارہی ہے جبکہ ان کے رہائش گاہیں بھی کھنڈر میں تبدیل کر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں ۔میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ جب تک رننگ سٹاف کے لوگ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے حوالے سے ذہنی طور پر پرسکون نہیں ہوجاتے اس وقت تک ریلوے ایک مستحکم ادارہ نہیں بن سکتا۔ریلوے کو اگر تباہی سے بچانا ہے تو ریل سے محبت کرنے والے محمد سعید جاوید جیسے کسی بھی شخص کو ریلوے کا وزیر بنانا ہو گا۔وگرنہ چاروں صوبوں کی زنجیر ریلوے کو تباہی اور بربادی سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 789 Articles with 701489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.