چین میں مصنوعی ذہانت کی مسلسل ترقی

چین اس وقت سائنس ٹیک جدت طرازی اور صنعتی اپ گریڈیشن کے گہرے انضمام کے ذریعے نئے معیار کی پیداواری قوتوں اور فیوچر انڈسٹریز کی ترقی پر زور دینے اور انہیں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے لئے نئی حرکیات کی تخلیق میں تیزی لائی جا سکے۔ اس تناظر میں نہ صرف اسٹیل اور نان فیرس دھاتوں جیسی روایتی صنعتیں بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل اور ذہین ٹیکنالوجیز کا اطلاق کر رہی ہیں ، بلکہ ابھرتی ہوئی صنعتیں جیسے بگ ڈیٹا اسٹوریج اور پروسیسنگ ، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ، بائیو مینوفیکچرنگ اور نئی توانائی کی گاڑیاں بھی اس دور میں جدید پیداوار اور صنعتی ذہانت کی نئی مثالیں قائم کررہی ہیں۔اسی طرح انفراسٹرکچر، توانائی، نقل و حمل، تعمیرات، فن تعمیر، سیاحت اور فضلے کے انتظام سمیت تقریبا تمام معاشی اور سماجی شعبوں میں گرین ڈویلپمنٹ بڑے پیمانے پر عملی شکل اختیار کر رہی ہے۔

ملک میں مصنوعی ذہانت کے اطلاق کو مزید ترقی دینے کی خاطر ابھی حال ہی میں چین کی وزارت صنعت و انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تین دیگر حکومتی اداروں کی جانب سے مشترکہ طور پر رہنما خطوط جاری کیے گئے ہیں۔ان کے مطابق چین 2026 تک مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے لیے 50 سے زائد قومی اور صنعتی معیارات وضع کرے گا اور اس شعبے کی اعلیٰ معیار کی ترقی کی رہنمائی کے لیے ایک معیاری نظام تیار کرے گا۔گائیڈ لائنز میں ملک میں مصنوعی ذہانت کے معیاری نظام کی ترقی کے لئے سات کلیدی شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، جس میں کلیدی ٹیکنالوجیوں ، ذہین مصنوعات اور خدمات اور صنعت کی ایپلی کیشنز کے معیارات شامل ہیں۔رہنما خطوط کے مطابق مصنوعی ذہانت کے معیارات کو فروغ دینے سے تکنیکی ترقی، انٹرپرائز کی ترقی اور صنعتی اپ گریڈنگ کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے، اس طرح نئی صنعت کاری کو بااختیار بنانے کے لئے مصنوعی ذہانت کا بہتر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں ، چین کی مصنوعی ذہانت کی صنعت نے تکنیکی جدت طرازی ، مصنوعات کی تخلیق ، صنعت کی ایپلی کیشنز اور دیگر شعبوں میں پیش رفت حاصل کی ہے۔ اس شعبے نے بگ ماڈلز جیسی نئی ٹیکنالوجیز کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ نئی خصوصیات پیش کی ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کی تازہ "جنریٹیو اے آئی پیٹنٹ رپورٹ" کے مطابق 2014 سے 2023 تک چینی موجدوں نے سب سے زیادہ جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے پیٹنٹ جمع کرائے جو امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور بھارت جیسے ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔ 2014 سے 2023 تک دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت سے متعلق ایجادات کے لیے 54 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 25 فیصد سے زائد درخواستیں گزشتہ سال موصول ہوئیں۔ چین میں مصنوعی ذہانت کی 38,000 سے زائد ایجادات موجود ہیں جو دوسرے نمبر پر موجود امریکہ سے چھ گنا زیادہ ہیں۔

چین، اس وقت 4500 سے زیادہ مصنوعی ذہانت کمپنیوں کا حامل ملک ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک کی بنیادی مصنوعی ذہانت کی صنعت 2023 میں 578 بلین یوآن (تقریبا 79.5 بلین ڈالر) سے زائد کے پیمانے پر پہنچ گئی، جو سال بہ سال 13.9 فیصد اضافہ ہے.رواں سال کی سرکاری ورک رپورٹ میں ، چین نے اے آئی پلس اقدام کی رونمائی کی۔یہ ایک اسٹریٹجک اقدام ہے جو ڈیجیٹل معیشت کی توسیع کو فروغ دینے اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کی تبدیلی اور جدیدکاری کی قیادت کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ چین نے ملک میں مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کی خاطر 421 قومی سطح کی نمائشی فیکٹریاں بھی تعمیر کی ہیں جن میں ذہین مینوفیکچرنگ اور 10 ہزار سے زیادہ صوبائی سطح کی ڈیجیٹل ورکشاپس اور اسمارٹ فیکٹریاں شامل ہیں. چین کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) گورننس کے لئے گلوبل انیشی ایٹو کو آگے بڑھائے گا، جس سے عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں چین کے قائدانہ کردار کا مزید عملی مظاہرہ ہوگا۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1183 Articles with 484981 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More