خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت اور کرامات

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
دنیا کی اس تخلیق کے بعد رب العزت نے اپنی واحدانیت اور اپنے دین کی تبلیغ کے لئیے اس دنیا میں اپنے نائب کی حیثیت سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا جن کو امتیں بھی عطا ہوئیں اور ان پر کتابوں کا نزول بھی ہوا اور اللہ تعالی نے کفار ہر اپنا غلبہ حاصل کرنے کے لئے ان انبیاء کرام علیہم السلام کو معجزات سے بھی سرفراز فرمایا تاکہ وہ اپنے رب کے ایک ہونے اور خالق کائنات ہونے کو ثابت کرسکیں اور یہ معجزات اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا کبھی بھی وہ استعمال نہیں کرسکتے تھے جبکہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ کبھی کسی نبی نے اللہ تعالیٰ کی عطا سے ملنے والے معجزات کو اپنی ذات کے لئے استعمال نہیں کیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں عمومی اصطلاح میں تو معجزات نبوی سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات ہیں مگر معجزہ کا کسی بھی نبی کی ذات سے وقوع ہونا اس نبی کا معجزہ کہلائے گا۔ یعنی کسی بھی نبی کی ذات سے صادر ہونے والا ایسا کام جو دوسروں کی عقل کو عاجز کر دے اور اس کا کوئی توڑ پیش نہ کیا جا سکے اور نہ ہی اس کا کوئی جواب دیا جا سکے معجزات (انبیا) کہلائیں گے۔ اور یہ معجزات صرف انبیاء کرام علیہم السلام تک محدود تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد آنے والے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعداد بھی کم و بیش ہمارے علماء نے ایک لاکھ چوبیس ہزار ہی لکھی ہے صحابہ کرام وہ لوگ ہیں جنہوں نے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی صحبت میں وقت گزارا اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوئے اور عملی طور پر انہوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کیا ان تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کو انبیاء کا نائب کہا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان تمام جنتی صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے نائب ہونے کی سبب اپنے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ کے لئے منتخب کیا اور انہیں بھی ایسے انبیاء کرام کے معجزات کی طرح اپنی منشاء اور مصلحت کے تحت کرامات عطا کیں مشہور مُفَسِّروحکیمُ الْاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب و غریب چیز ہے جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ حَق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے وہ ولی کی کرامت بھی بن سکتی ہے،سِوا اُس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو جیسے وَحِی اور آیاتِ قرآنیہ۔
۔(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص268)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کرامات کا یہ سلسلہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لیکر تابعین تبعہ تابعین اولیاء کرام بزرگان دین اور رہتی قیامت تک آنے والے اللہ والوں سے ظاہر ہوتا رہے گا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق جبکہ کوئی بھی ولی یا اللہ والا اپنی مرضی سے اس کرامت کو استعمال نہیں کرسکتا ۔سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد خلفاء کا دور شروع ہوتا ہے جن میں چار نام سر فہرست ہیں میں آج کے اس مضمون سے ایک نئے سلسلے کا آغاز کررہاہوں جس کے ذریعے ان خلفائوں سے رونماء ہونے والے کچھ کرامات کا ہم ذکر کریں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات کا ذکر کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق ان سے وقوع پزیر ہوئیں اور انہوں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ختم نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ان کرامات کو ظاہر فرمایا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں خلیفہ اول جانشین پیغمبر امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی" عبداللہ" "ابوبکر" کنیت اور "صدیق و عتیق لقب تھے ". آپ قریشی ہیں اور ساتویں پشت سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شجرہ نسب سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے خاندانی شجرہ سے ملتا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام الفیل کے ڈھائی برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئےآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنے جامع الکمالات اور مجمع الفضائل ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام اگلے اور پچھلے انسانوں میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور تمام اسلامی جہادوں میں مجاہدانہ کارناموں کے ساتھ شامل رہے اور صلح و جنگ کے تمام فیصلوں میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم وزیرومشیر بن کر مرحل نبوت کے ہر موڑ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے رفیق و جانثار رہے دو برس تین ماہ گیارہ دن مسند خلافت پر رہ کر 22 جمادی الاخر 13 ھ منگل کی رات وصال فرمایا حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدینہ منورہ میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پہلو میں تدفین ہوئی۔۔ ( اکمال و تاریخ الخلفاء)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آئیے اب ہم کچھ کرامات کا ذکر کرلیتے ہیں ایک حدیث کے مطابق جس کے راوی ہیں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بیمار ہوئے اور جس مرض میں وفات پائی تو بیماری کی حالت میں اپنی بیٹی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور وصیت فرمائی کہ میری پیاری بیٹی آج تک جو مال میرے پاس تھا وہ اب وارثوں کا ہوگیا ہے اور میری اولاد میں تمہارے دونوں بھائی عبدالرحمن اور محمد جبکہ تم اور تمہاری دونوں بہنیں شامل ہیں تو تم لوگ قرآن مجید کے حکم کے مطابق اسے تقسیم کرکے اپنا اپنا حصہ لے لینا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ ابا جان میری تو ایک ہی بہن ہے " بی بی اسماء" یہ دوسری بہن کون ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میری بیوی " بنت خارجہ" جو حاملہ ہے اس کے شکم میں میری بیٹی ہے جو تمہاری دوسری بہن ہے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی اور اس کا نام " ان کلثوم" رکھا گیا۔۔ ( تاریخ الخلفاء ص 57).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث کے بارے میں حضرت تاج الدین سبکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی رو سے امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ جس مرض میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہوئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ علم ہوچکا تھا کہ اس مرض میں ہی ان کا وصال ہوگا اس لئے انہوں نے فرمایا کہ آج میرا مال میرا نہیں وارثوں کا ہوگیا دوسری یہ کہ اپنی زوجہ کے شکم میں لڑکی ہے یا لڑکا یہ انہیں معلوم تھا اور یہ ایک غیب کا علم ہے جو بلاشبہ اور بالیقین پغمبر جانشین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔
۔(ازالتہ الخفاء مقصد نمبر 2 ص 21 وحجتہ اللہ ج 2 ص 860) ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ظاہری وصال کے بعد جو عرب کے قبائل اسلام سے پھر کر مرتد ہوگئے تھے ان میں ایک قبیلہ کندہ بھی تھا چناچہ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جہاد فرمایا اور مجاہدین اسلام نے اس قبیلہ کے سردار اعظم یعنی الشعث بن قیس کو گرفتار کرلیااور لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر اسے دربار خلافت میں پیش کیا گیا امیر المومنین کے سامنے آتے ہی الشعث بن قیس نے بلند آواز میں اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور توبہ کرکے صدق دل کے ساتھ اسلام قبول کرلیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امیر المومنین نے نہ صرف اس کا قصور معاف کیا بلکہ اس کا نکاح اپنی بہن حضرت " ام فردہ" رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کردیا اور اسے قسم قسم کی رعانایوں اور نوازشوں سے سرفراز فرمایا تمام حاضرین دربار حیران تھے کہ ایک تو مرتدین کا سردار اور پھر امیر المومنین سے جنگ کرکے کئی مسلمانوں کا ناحق خون بہایا ایسے خونخوار باغی اور ظالم انسان کو امیر المومنین کیوں نوازرہے ہیں لیکن جب حضرت الشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صادق السلام ہوکر عراق کے جہادوں میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر مجاہدانہ کارنامے انجام دئے کہ عراق کی فتح کا سہرا ان کے سر رہا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جنگ قادسیہ میں اور قلعہ مدائن کی لڑائیوں میں سرفروشی اور جانبازی کے جو حیرت ناک مناظر پیش کئیے انہیں دیکھ کر سب کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نگاہ کرامت نے حضرت الشعث بن قیس کی ذات میں چھپے ہوئے کمالات اور انمول جوہروں کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا جو اور کسی کو نظر نہیں آئے یہ بات یقینی ہے کہ یہ ان کی ایک بہت بڑی کرامت ہے ۔( ازالتہ الخفاءمقصد 2 ص 39)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے امیر المومنین میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خون میں پیشاب کررہا ہوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی غیض وغضب اور جلال میں تڑپ کر فرمایا کہ تو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں صحبت اختیار کرتا ہے لہذہ اس گناہ سے توبہ کر اور خبردار: آئندہ ہرگز ہرگز ایسا مت کرنا وہ شخص اپنے اس چھپے ہوئے گناہ پر نادم اور شرمندہ ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا ۔
(تاریخ الخلفا ءص 72)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنے ظاہری وصال سے چند پہلے رومیوں سے جنگ کے لئے ایک لشکر بھیجنے کا حکم صادر فرمایا تھا اور اپنی علالت میں ہی جنگ کا جھنڈا اپنے دست مبارک سے باندھا اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں یہ نشان اسلام دیکرانہیں اس لشکر کا سپہ سالار بنایا ابھی یہ لشکر مقام " جرف" میں خیمہ زن تھا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے وصال خبر پھیل گئی اور یہ لشکر واپس مدینہ منورہ پہنچ گیا سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے وصال کی خبر پھیلتے ہی کئی عرب قبائل مرتد ہوکر اسلام سے منحرف ہوکر کافر ہوگئے تھے یہاں تک کہ مسلیمتہ الکذاب نے نبوت کا دعوہ کرکے مرتدوں کی تعداد میں اضافہ کردیا جس کی وجہ سے کئی قبائل مرتد ہوچکے تھے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی انتشار والے دور میں امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منصب خلافت پر قدم رکھا اور سب سے پہلے یہ حکم صادر فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں جو لشکر روانہ کیا تھا اور وہ واپس آگیا تھا اسے دوبارہ روانہ کیا جائےکافی صحابہ کرام حیران و پریشاں ہوگئے کہ اس خطرناک پوزیشن میں کہ جب عرب کے کئی قبائل اسلام سے منحرف ہوکر مرتد ہوگئے ہیں اور وہ مدینہ منورہ پر حملوں کی تیاری کررہے ہیں ایسے وقت میں یہ فیصلہ کچھ عجیب لگتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کئی قبیلوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے صحابہ کرام کی اتنی بڑی فوج جس بڑے بڑے نامور صحابہ موجود تھے انہیں یوں ملک سے باہر بھیج کر مدینہ منورہ کو خالی چھوڑ دینا یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے گویا صحابہ کرام کا ایک بہت بڑا وفد جس میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے بارگاہ خلافت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ ایسے حالات میں حضرت اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں لشکر کو بھیجنے سے گریز کیا جائے بلکہ ان مرتدوں کے حملوں کے بھرپور جواب کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ سن کر خلیفہ اول امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غیض و غضب میں آکر فرمایا کہ خدا کی قسم اگر پرندے اچک کر مجھے لے جائیں یہ مجھے گوار ہے لیکن یہ بات مجھے گوار نہیں کہ جس لشکر کی روانگی کے لئے میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے جھنڈا لگایا تھا اور پھر لشکر روانہ کیا تھا اس لشکر کو میں روک دوں ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا میں لشکر کو ضرور روانہ کروں گا اور اس میں ایک دن کی تاخیر مجھ سے برداشت نہیں ہوگی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحابہ کرام کے منع کرنے کے باوجود آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکر کو روانہ کردیا اب خدا کی شان دیکھئے کہ جوش جہاد سے بھرا ہوا اسلام کا یہ لشکر سمندر کی طرح موجیں مارتا ہوا روانہ ہوا تو چاروں اطراف کے قبائل پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا جو لوگ مرتد ہوکر مدینہ منورہ پر حملوں کے بارے میں سوچ رہے تھے ان پر خوف طاری ہوگیا سوچنے لگے کہ اگر خلیفہ اول کے پاس اتنی بڑی فوج نہ ہوتی تو وہ اتنا بڑا لشکر ملک سے باہر کیسے بھیجتے لہذہ جو مرتد قبائل مدینہ منورہ پر حملوں کا ارادہ رکھتے تھے انہوں نے اپنا وہ ارادہ ملتوی کردیا بلکہ کئی قبائل تو واپس دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور یوں مدینہ منورہ حملوں سے محفوظ رہا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہاں حضرت اسامہ بن زید کا لشکر جب مقام " ابنی " تک پہنچا تو رومیوں کے لشکر سے مصروف پیکار ہوگیا اور وہاں بہت ہی خونریز جنگ کے بعد لشکر اسلام کو شاندار کامیابی ملی اور حضرت اسامہ بن زید بیشمار مال غنیمت لیکر چالیس روز کے بعد فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لائے اب تمام صحابہ کرام ،انصار اور مہاجرین پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ حضرت اسامہ بن زید کے لشکر کو روانہ کرنا عین مصلحت کے مطابق تھا کیونکہ اس لشکر نے ایک طرف رومیوں کی طاقت کو تیس نہس کرکے رکھ دیا تھا تو دوسری طرف مرتدین کے دلوں میں اپنا خوف پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا یہ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی کرامت تھی کہ مسقبل میں پیش آنے والے واقعات ان پر منکشف ہوگئے اور اس لشکر کی کامیابی کو پہلے ہی دیکھ لیا تھا جبکہ دوسرے صحابہ کرام کے وہم وگمان میں بھی ایسا کچھ نہیں تھا ۔
( تاریخ الخلفاء ص 51 ،مدسرج النبوہ ج2ص409)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب وصال ہوا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ تدفین کہاں کی جائے کچھ نے کہا کہ شہداء کے قبرستان میں تدفین کردی جائے اور بعض کا خیال تھا کہ تدفین جنت البقیع میں ہو جبکہ میری خواہش تھی کہ ان کی تدفین میرے حجرے میں ہو جہاں سرکار علیہ وآلیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں ابھی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ مجھ پر نیند غلبہ ہوا اور میں نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہ رہا ہے کہ ( حبیب کو حبیب سے ملادو)
میں نے یہ بات جب لوگوں کو بتائی تو کئی لوگوں نے کہا کہ یہ آواز ہم نے بھی سنی ہے اور مسجد نبوی میں بھی کئی لوگوں نے یہ آواز سنی گویا سب اس بات پر متفق ہوگئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے پہلو میں کی گئی ۔( شواھدالنبوہ ص150)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب صحابہ کرام علیہم الرضوان امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس جنازے کو لیکر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ
الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ھذا ابوبکر
تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا دروازا خودبخود کھل گیا اور سب لوگوں نے یہ آواز سنی کہ " حبیب کو حبیب سے ملادو " یعنی داخل کردو ۔
( تفسیر کبیر ج 5 ص 477).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت ہو یا تذکرئہ کرامات یہ ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی بات ہے اس لئیے میں نے کوشش کی ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اور ان کی کرامات کے بارے جو کچھ مختصر لیکن جامع انداز میں آپ تک پہنچا سکوں وہ پہنچاؤں ان شاءاللہ انگلی تحریر ہم خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اور ان کی کرامات کے بارے ذکر کریں گے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے سچ لکھنے اور ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں اپنے احکامات کی پیروی کرنے ،اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی باتوں پر عمل کرنے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیوں سے سبق حاصل کرکے ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔امین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 141 Articles with 105961 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.